طالبان شوریٰ کا مذاکراتی کمیٹی سے رابطہ وزیرستان میں کارروائیوں پر تحفظات
فریقین کوایک دوسرے سے شکایات ہیں، فوج سمیت تمام ادارے ایک پیج پرتوہیں، ایک لائن پرنہیں، پروفیسر ابراہیم
طالبان کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے کہا ہے کہ طالبان شوریٰ کے رکن اعظم طارق نے جنوبی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسزکی کارروائی بند کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
میڈیا سے گفتگو کے دوران پروفیسر ابراہیم نے بتایا ہے کہ ان کا طالبان شوریٰ کے رکن اعظم طارق سے رابطہ ہوا جس میں اعظم طارق نے جنوبی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائی پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیکیورٹی فورسز جنوبی وزیرستان میں حملے بندکردے اورمذاکرات کے لیے حکومت سنجیدہ رویے کا مظاہرہ کرے۔ بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے پروفیسرابراہیم نے کہا ہے کہ حکومت اور طالبا ن میں معاملات کوسلجھانے کے لیے رابطے کر رہے ہیں، چاہتے ہیں کہ مذاکرات کوشروع کرنے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں، طالبان کو فوج سے اور فوج کوطالبان سے کچھ شکایات ضرورہیں، اس کی وجہ سے مذاکراتی عمل میں کوئی تعطل نہیں۔ این این آئی کے مطابق پروفیسرابراہیم نے کہا کہ جنگ بندی میں توسیع کی کوششیں کامیاب نہیں ہوسکیں، حکومت کہتی ہے کہ مذاکراتی عمل میں فوج سمیت تمام ادارے ایک پیج پر ہیں، تو چلیں ان کی بات مان لیتے ہیں۔
تاہم اس بارے میں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ تمام ادارے ایک پیج پر توہیں مگر ان کی لائنیں مختلف ہیں۔ علاوہ ازیں اعظم طارق نے مولانایوسف شاہ سے بھی ٹیلیفونک رابطہ کیا ہے اورجنوبی وزیرستان میں فوجی کارروائیوں پر تحفظات کا اظہارکیاہے۔ تخت بھائی میں تقریب سے خطاب اورمیڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا یوسف شاہ نے کہا کہ حکومت اورطالبان نہایت سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکرات کامیابی تک لے کرجائیں، قوم صرف معاہدہ امن کی طرف دیکھ رہی ہے، 72 گھنٹے کے اندراندر دونوں کمیٹیوں کا اجلاس ہوگا جس کے لیے جگہ کا تعین کرلیا گیا ہے، میجرعامر دوبارہ کمیٹی سے ہر قسم کا تعاون کریں گے۔ دوسری طرف تحریک طالبان کی سیاسی شوریٰ کے رکن اعظم طارق نے کہا ہے کہ ہم حکومت کے ساتھ مذاکرات کوبامقصد بنانا چاہتے ہیں، مذاکرات کے لیے سنجیدگی سے یک طرفہ طور پرجنگ بندی کا اعلان کیا لیکن حکومت نے طالبان کے خلاف کارروائیاں شروع کردیں، اب مذاکرات کی کامیابی کے لیے حکومت ہی کو اقدامات کرنا ہونگے۔
میڈیا سے گفتگو کے دوران پروفیسر ابراہیم نے بتایا ہے کہ ان کا طالبان شوریٰ کے رکن اعظم طارق سے رابطہ ہوا جس میں اعظم طارق نے جنوبی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائی پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سیکیورٹی فورسز جنوبی وزیرستان میں حملے بندکردے اورمذاکرات کے لیے حکومت سنجیدہ رویے کا مظاہرہ کرے۔ بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے پروفیسرابراہیم نے کہا ہے کہ حکومت اور طالبا ن میں معاملات کوسلجھانے کے لیے رابطے کر رہے ہیں، چاہتے ہیں کہ مذاکرات کوشروع کرنے کے لیے عملی اقدامات کیے جائیں، طالبان کو فوج سے اور فوج کوطالبان سے کچھ شکایات ضرورہیں، اس کی وجہ سے مذاکراتی عمل میں کوئی تعطل نہیں۔ این این آئی کے مطابق پروفیسرابراہیم نے کہا کہ جنگ بندی میں توسیع کی کوششیں کامیاب نہیں ہوسکیں، حکومت کہتی ہے کہ مذاکراتی عمل میں فوج سمیت تمام ادارے ایک پیج پر ہیں، تو چلیں ان کی بات مان لیتے ہیں۔
تاہم اس بارے میں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ تمام ادارے ایک پیج پر توہیں مگر ان کی لائنیں مختلف ہیں۔ علاوہ ازیں اعظم طارق نے مولانایوسف شاہ سے بھی ٹیلیفونک رابطہ کیا ہے اورجنوبی وزیرستان میں فوجی کارروائیوں پر تحفظات کا اظہارکیاہے۔ تخت بھائی میں تقریب سے خطاب اورمیڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا یوسف شاہ نے کہا کہ حکومت اورطالبان نہایت سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکرات کامیابی تک لے کرجائیں، قوم صرف معاہدہ امن کی طرف دیکھ رہی ہے، 72 گھنٹے کے اندراندر دونوں کمیٹیوں کا اجلاس ہوگا جس کے لیے جگہ کا تعین کرلیا گیا ہے، میجرعامر دوبارہ کمیٹی سے ہر قسم کا تعاون کریں گے۔ دوسری طرف تحریک طالبان کی سیاسی شوریٰ کے رکن اعظم طارق نے کہا ہے کہ ہم حکومت کے ساتھ مذاکرات کوبامقصد بنانا چاہتے ہیں، مذاکرات کے لیے سنجیدگی سے یک طرفہ طور پرجنگ بندی کا اعلان کیا لیکن حکومت نے طالبان کے خلاف کارروائیاں شروع کردیں، اب مذاکرات کی کامیابی کے لیے حکومت ہی کو اقدامات کرنا ہونگے۔