یہاں سب کو بس اختیار چاہیے

اختیارات مانگنے والے صاحبان کو کہنا تو یہ چاہیے تھا کہ اس وقت ملک کے مالی حالات انتہائی خراب ہیں

yousaf.abbasi@express.com.pk

انسان کی ترقی و خوشحالی کا انحصار اس کی نیک نیتی سے منسلک ہے اگر حقیقت کے پنوں کا بغور جائزہ لیاجائے تو کامیابیوں اور کامرانیوں نے انھی کے قدم چومے ہیں جن کی نیت نیک تھی۔

اس تناظر میں آج جب کہ ملکی مالی حالات انتہائی بدترین صورتحال کا شکار ہیں اور موجودہ حکومت اس کے حل کے لیے سر دھڑ کی بازی لگارہی ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے ملکی اورغیر ملکی دوستوں اور تاجروں سے خصوصی ملاقاتیں بھی کررہے ہیں صرف اس لیے کہ قوم کو بڑھتی مہنگائی سے محفوظ زندگی کی تمام تر بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں جب کہ دوسری جانب ہر فرد کو اپنے مالی حالات ٹھیک کرنے کے لیے'' اختیار ''چاہیے اس کے بغیر ان کی اورملک وقوم کی ترقی ممکن نہیں ہوسکتی۔

بات صرف اتنی سے ہے کہ ہم بحیثیت قوم ملک وقوم کی خوشحالی اور مالی حالات کو بہتر کرنے میں اپنی خدمات کو انجام دینا چاہتے ہیں یا دھونس زبردستی اپنی مرضی کو مسلط کرکے جھوٹی شہرت حاصل کرنا چاہتے ہیں گزشتہ دو تین ہفتوں سے ہمارا موضوع بحث بھی یہی رہا ہے کہ اب وقت ہے کہ ہم اپنی خدمات کو بے لوث اور ملک وقوم کی خدمت اور مالی خوشحالی اوراستحکام کے لیے رضا کارانہ طورپر وقف کردیں چونکہ ظاہر ہے کہ ملک وقوم کا وجود ہے تو ہم ہیں وگرنہ ہماری کیا حیثیت ہے، نہ تین میں تیرہ میں ،مگر سرکاری جامعات کے رئیس صاحبان مسلسل اپنی جھوٹی رٹ کو منوانے کے جھانسہ دار اکٹھ کرنے میں مصروف ہیں اب تک ان کے کم وبیش تین اکٹھ ہوگئے ہیں جس میں خاطر خواہ بھاری رقم استعمال کی گئی ہے۔

گرمی کے اس شدید موسم میں بھی تھری پیس سوٹ اور ٹائی لگا کر یہ صاحبان ملک کی مالی خوشحالی کی بات کررہے ہیں اوراس کو اپنے اختیارات کی بحالی سے جوڑ رہے ہیں یعنی اتنا ٹائٹس لباس پہن کر ظاہر ہے یہ باہر دھوپ میں تو میٹنگ نہیں کرتے ہوں گے ان کی بدگمانیوںکا یہ عالم ہے کہ اپنے بیٹھنے کے لیے بھی یہ انتہائی پر آسائش مقامات کا انتخاب کرتے ہیں۔


ہم نے پہلے بھی وزیراعظم سے گوش گزار کیا ہے کہ تمام سرکاری جامعات کا تھرڈ پارٹی آڈٹ کرایا جائے ،اب اس میں ایک اور ترمیم کردی جائے، رئیس جامعہ بننے سے پہلے اور بعد میں ان کی ذاتی مالی حیثیت کا بھی آڈٹ کرایا جائے ،مہنگے مہنگے سوٹ بوٹ اور نت نئی طرز کی شیروانیوں کا بھی آڈٹ کرایا جائے ،یہ بھی آڈٹ کرایا جائے کہ جس لیول پر یہ کسی غیر ملکی یا ملکی سطح پر اپنی رینکنگ کراتے ہیں یہ اصل بھی ہے یا انھی کی مرہون منت ہے۔

آج حکومت کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ شاید ایک آدھی ایسی سرکاری جامعہ ہو جہاں میرٹ پر رئیس جامعہ تعینات ہوئے ہوں زیادہ تر سفارش پر ہی تعینات ہیں اور اب نگران رئیس جامعہ کا بھی یہی حال ہے ،یہ بھی آڈٹ کرایا جائے کہ پنجاب کی معروف یونیورسٹیز میں ایم فل کی کلاسز کا اجراء کیوں معطل ہے۔

کیا اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ ان کے پاس کوالیفائیڈ اساتذہ ہی نہیں ہیں کہ یہ ایم فل کی کلاسز کا اجراء کرسکیں اور کتنے ڈسپلنز بند ہیں اور کتنے کھلے ہیں ،ایچ ای سی پاکستان نے ان پر پابندی کیوں لگائی ہے اگر یہ اتنے ہی محنتی ہیں تو آج تک اس کیوری کو ختم کیوں نہیں کرسکے ،یہ سب اس لیے ہے کہ ان کو تو بس اپنا اختیار چاہیے ،چند ماہ قبل ہماری ملاقات ایچ ای سی پاکستان کے چیئرمین سے ہوئی جس میں ان سے دریافت کیا گیا کہ جن نجی یا سرکاری جامعات میں ڈسپلنز کے غیر معیاری ہونے کی نشاندہی پر ان کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیاگیا ہے کیا ان کے خلاف عملی طورپر بھی کوئی اقدام کیا گیا توان کا صاف جواب تھا کہ وفاقی حکومت اور ایچ ای سی پاکستان تو یہی چاہتا ہے کہ ہر جامعہ خواہ وہ سرکاری ہو یا نجی اگر یہ معیاری علم وتحقیق کو مطلوبہ اور متعلقہ ڈسپلنز میں نہیں چلا سکتے تو ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے ان کو دائرہ کار میں رہتے ہوئے سزائیں بھی دی جائیں مگر صوبائی ایچ ای سی ان کو تحفظ دے رہی ہے جس میں صوبائی حکومت بھی شامل رہی ہے۔

(سابقہ صوبائی حکومت) یعنی ان کا جواب صوبائی ایچ ای سی پر عدم اعتماد ہی تھا۔ ہمارا بھی یہی مشورہ ہے کہ اگر وزیراعظم صاحب حقیقت میں علم وتحقیق کو بین الاقوامی معیار کے مطابق پروان چڑھانا چاہتے ہیں توصوبائی ایچ ای سی کو ختم کردیا جائے اور وفاقی ایچ ای سی کو باقاعدہ طورپر متحرک کیاجائے ،اورجن شرائط کی بنیادپر صوبائی ایچ ای سی یا جامعات کے رئیس صاحبان اختیارات مانگ رہے ہیں ان کی ہیوی انکوائری لگائی جائے.

اختیارات مانگنے والے صاحبان کو کہنا تو یہ چاہیے تھا کہ اس وقت ملک کے مالی حالات انتہائی خراب ہیں جس کی بحالی کے لیے ہم حکومت کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اوراپنی خدمات کو قومی خدمات سمجھتے ہوئے بغیر کسی لالچ اور عہدہ کے وقف کرتے ہیں مگر آفرین ہیں ان پر پہلے اختیارات کی شرط لگا کر مالی حالات بہتر کرنے کا جھانسہ دے رہے ہیں ،یہ شاید بھول گئے ہیں کہ جامعات میں معیاری ری سر چ ورک اور مواقع فراہم کرنے کا سلسلہ ن لیگ نے ہی شروع کیاتھا ان سے زیادہ کون بہتر سمجھ سکتا ہے کہ جامعات کے مالی حالات اور ملک کے مالی حالات کب ٹھیک اور کیسے ہونگے۔

یہاں یہ بھی گوش گزار ہے کہ اس وقت رئیس جامعات کی یونین ہے ،جامعات کے اساتذہ کی یونین ہے، جامعات کے ملازمین کی یونین ہے ،جو ہمہ وقت متحرک رہتی ہیں اور اسٹیک ہولڈر یعنی طالب علموں کی یونین پر پابندی ہے ،انجمن والدین پر پابندی ہے اور بات کررہے ہیں جامعات کی مالی خوشحالی کی بلکہ اس میں چھپی اپنی ذاتی خوشحالی کی ۔ میرے مشاہدہ کے مطابق اس وقت تمام رئیس جامعات وزیراعظم سے بڑے پروٹوکول میں زندگی گزار رہے ہیں ان کے ہاؤسز سے لے کر دفاتر تک کا پروٹوکول یہ ہے کہ ہماری معاشی بدحالی کا مذاق دکھائی دے گا ۔
Load Next Story