شاہ ہمدانؒ اور انقلاب کشمیر…

اس زمین پر سب سے عظیم ہمہ گیر و ہمہ جہت انقلاب رسول اللہ ﷺ نے عرب کی سرزمین پر برپا کیا



کشمیر جنوبی اور وسطی ایشیا کے درمیان واقع ہونے کے باعث ایشیا کا دل اور بر صغیر کا تاج کہلاتا ہے۔ اس کی سرحدیں دنیا کے پانچ ممالک چین، بھارت، پاکستان، افغانستان اور جمہوریہ تاجکستان سے ملتی ہیں۔

کشمیر میں اسلام زور زبردستی سے نہیں بلکہ مرحلہ وار مرکزی ایشیا اور ایران سے آئے ہوئے مبلغین کے ذریعہ پھیلا۔ ان مبلغین نے نہ صرف کشمیر میں اسلام پھیلایا بلکہ بہت سے ہنر بھی متعارف کرائے جس سے کشمیر میں معیشت نے بہت ترقی کی۔

کشمیر میں شاہ میری حکومت کے مستحکم ہوتے ہی حضرت میر سید علی ہمدانی المعروف شاہ ہمدانؒ نے اپنے دو سفیروں میر سید حسین اور میر سید تاج الدین کو 772ھ میں حالات کے مشاہدہ کے لیے کشمیر بھیجا۔ انھوں نے سید علی ہمدانی کو کشمیر کے مفصل حالات سے آگاہ کیا۔ اس کے بعد پہلی بار سید علی ہمدانی عہد سلطنت شہاب الدین 774ھ میں کشمیر تشریف لے گئے۔

اس کے ساتھ ہی کشمیر کے صدیوں سے سست رفتار جہلم میں مدوجزر کے ساتھ ایک نہ رکنے والا طوفان پیدا ہوا جو پرانے فرسودہ عقائد، بوسیدہ روایات اور غیر عوامی زبان کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے گیا۔لغت میں لفظ 'انقلاب' کے معنی ہیں تغیر و تبدل، پرانے سیاسی یا معاشی نظام کی جگہ نئے نظام کے نفاذ کو انقلاب کہتے ہیں۔

اوراق تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ بات پوری طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ اس زمین پر سب سے عظیم ہمہ گیر و ہمہ جہت انقلاب رسول اللہ ﷺ نے عرب کی سرزمین پر برپا کیا اور اسی انقلاب سے اکتساب فیض کرتے ہوئے تقریباً 700سال بعد شاہ ہمدانؒ امیر کبیر میر سید علی ہمدانی نے کشمیر اور شمالی علاقہ جات، مظفر آباد، پونچھ، راجوری، میر پور،گلگت وغیرہ میں ایک عظیم اور محیر العقول انقلاب برپا کر دیا جس سے آج تک ان علاقوں کے باسی مستفید ہو رہے ہیں۔

یہ بات ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کشمیر میں حضرت شاہ ہمدانؒ محض ایک دینی مبلغ کے طور پر ہی نہیں بلکہ ایک ہمہ گیر و ہمہ جہت اسلامی انقلاب کے نقیب کے طور پر نمایاں ہوئے اور آپ نے یہاں مساوات و اخوت کا وہ بے نظیر نظام متعارف کرایا جس کی نظر میں آقا و غلام، حاکم و محکوم، امیر و غریب، اونچی اور نیچی ذات والے سب برابر تھے۔

مجموعی طور پر تین سال کے ایک قلیل عرصے میں آپ نے نہ صرف ایک ایسے ملک کو حلقہ بگوش اسلام بنایا جو ہزاروں سال سے بالکل مختلف روایات و عقائد میں بندھا ہوا تھا بلکہ ساتھ ہی معاشی، معاشرتی اور سیاسی نظام کو بھی پرامن طرز تبلیغ کے ذریعے تبدیل کروانے میں آپ کامیاب ہوئے۔یہ بات خاص طور پر ذہن میں رکھنی چاہیے کہ کشمیر میں اسلامی انقلاب کے خدوخال حضرت شاہ ہمدانؒ کے خود ساختہ نہیں تھے بلکہ انھوں نے اسے رسول اللہؐ کے اسوہ حسنہ سے مستعار لیا اور اس کی ترویج میں اپنی صلاحیتوں کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا۔

حضرت شاہ ہمدانؒ نے اسی اسوہ کو سامنے رکھ کر تبلیغ دین کا کام انجام دیا اور اسلامی طرز حیات کی طرف لوگوں کو راغب کیا۔ ان کی نظر میں نبوی بنیادوں کو چھوڑ کر کسی دوسرے طریقہ انقلاب کو وضع کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ رسول اللہؐ کا اسوہ حسنہ ہر دور کے انسان کے لیے مطابقت رکھتا ہے۔مرکزی ایشیا اور کشمیر کے روحانی روابط کا سب سے بڑا ذریعہ میر سید علی ہمدانی ہی ہیں۔ وہ ایک عظیم داعی اسلام تھے۔ آپ کو امیر کبیر، علی ثانی اور شاہ ہمدانؒ کے القاب سے یاد کیا جاتا ہے۔

آپ نے خطہ کشمیر کو نور اسلام سے منور فرما کر احسان عظیم کیا۔سید علی ہمدانی اور ان کے ساتھیوں نے کشمیر میں اسلام کو محض مسجد تک محدود نہیں کیا بلکہ اسے ایک مکمل تہذیب اور ثقافت کی صورت میں بھی پیش کرنے کے لیے دن رات محنت کی اور یہ محنت ایک مکمل اور ہمہ گیر انقلاب کی صورت میں ظاہر بھی ہوئی۔شاہ ہمدانؒ نے دوران سیاحت اسلام کی نمایاں خدمات انجام دیں۔ آپ آٹھویں صدی ہجری کے ایک کامل عارف اور تیزبین مبلغ تھے۔ ہمدان سے کشمیر تک بجز امیر تیمور تمام بادشاہ و امراء ان کے معتقد تھے۔

شاہ ہمدانؒ کی کشمیر آمد سے پہلے معاشرہ کئی برائیوں کی آماجگاہ بن چکا تھا آپ نے دعوتی کاوشوں سے زناکاری، قمار بازی، شراب نوشی اور دیگر جرائم چھڑوانے میں اہم کردار سر انجام دیا، اس وقت مسلمانوں میں نیوگ کا مسئلہ رائج تھا اور قحبہ خانے موجود تھے۔ اس وقت ایسے رہبر کی ضرورت تھی جو بگڑے ہوئے حالات کو سنوارے اور سچائی کی ایسی تعلیم پیش کرے جس کے سامنے ہر ایک سر تسلیم خم کرے۔ آپ نے نہ صرف لوگوں کو ان جرائم کی طرف جانے سے باز رہنے پر ابھارا بلکہ ساتھ ہی حکمرانوں کو جرائم روکنے کے لیے سخت قوانین نافذ کرنے پر آمادہ کیا۔ نا انصافی اور جرائم کا قلع قمع ہوتے دیکھ کر غیر مسلمین کی ایک بڑی تعداد متاثر ہوکر حلقہ بگوش اسلام ہوئی۔

شاہ ہمدانؒ ایک سچا جذبہ لے کر کشمیر آئے تھے وہ حکومت یا اقتدار کے خواہش مند نہ تھے بلکہ ایسی زمین چاہتے تھے جہاں اسلام نافذ کرکے خلافت راشدہ اور عہد نبویؐ کے دور کی یاد تازہ ہو۔ شاہ ہمدانؒ کی کشمیر تشریف آوری سے پہلے یہاں کے معاشرے میں کافی معاشی ناہمواریاں تھیں، آپ نے اسلامی نظام عشر و زکوٰۃ نافذ کروایا تاکہ غرباء و مساکین کی سرکاری طور پر مدد کی جاسکے، اس نظام کے ذریعے غرباء اور فاقہ کشوں کا مسئلہ حل ہوگیا کیونکہ محتاجوں کو ماہوار امداد ملنے لگی اور اس طرح گداگری کا خاتمہ ہوگیا۔

یہ ایک فکری تربیت تھی اور ایک ذہنی انقلاب تھا جو حضرت شاہ ہمدانؒ نے اہل کشمیر میں پیدا کیا۔ اس اہم فکری اور ذہنی انقلاب کی محکم بنیاد پر بعد کے آنیوالے دینی معماروں نے وہ عمارت نصب کی جس میں انھوں نے ثبات دوام کے رنگ بھر دیے، یہ تعمیر چونکہ مردان خدا کے ہاتھوں ہوئی اس لیے زوال سے محفوظ رہی۔

حضرت شاہ ہمدانؒ کے ساتھ جو ماموران نشر دین الٰہی تھے۔ ان میں سے ہر ایک فرد خود ان ہی کی طرح زندگی کے امور سے متعلق مختلف فنون میں قدرت رکھتے تھے، وہ معمار تھے، طبیب، تجارت پیشہ تھے، زراعت پیشہ تھے، دستکار تھے، اور علم دین میں مہارت رکھنے کے علاوہ روحانی بلندیوں سے بھی سرفراز تھے۔ وہ شاعر بھی تھے، اور ادیب بھی تھے، خطاط بھی تھے۔

یہ تربیت ان کو اس لیے حاصل تھی کہ بیگانے ملک میں اپنی ماموریت یعنی دین اسلام کی تبلیغ اور نشر و اشاعت میں اور اسلام کے نظام کو تعمیر کرنے کے دوران اگر کوئی شگاف پیدا ہو اس کو خود بند کرسکیں اور کوئی کمی واقع ہو تو اسے پورا کریں اور اس کی استواری اور مضبوطی کو یقینی بنائیں۔ اسی لیے یہ حضرات اول عالم تھے اور بعد میں پیشہ ور۔ علم ہی کی بنیاد پر شاہ ہمدانؒ نے کلمہ توحید کا نعرہ دے کر اہل کشمیر کو اپنے گرد جمع کرلیا۔

صنعت و حِرفت کے ساتھ ساتھ آپ نے یہاں کی ثقافت پر بھی کافی اثرات مرتب کیے۔ آپ کے ذریعے کشمیر میں فارسی زبان و ادب کو ایک نئی طاقت مل گئی۔ عربی زبان کی تفہیم و تدریس باقاعدہ طور پر خانقاہوں میں رائج ہوئی جس سے قرآن فہمی کی طرف خاصی پیش رفت ہوئی۔ صوفی شاعری کے اعلیٰ نمونے لوگوں کو دستیاب ہونے لگے اور فارسی شعری روایت ادبی حلقوں میں متعارف ہوئی اور اس کے زبردست اثرات کشمیری زبان و شاعری پر آج بھی با آسانی دیکھے جاسکتے ہیں۔

شاہ ہمدان ٹرسٹ انٹرنیشنل کے زیر اہتمام حضرت شاہ ہمدان علیہ الرحمہ کے سالانہ عرس کو تین روزہ عرس السیدین کے عنوان سے منعقد کیا جاتا ہے اس سال یہ عرس مبارک 23,24,25 جون کو منعقد کیا جا رہا ہے اور اس عرس کی مرکزی نشست 25 جون بروز اتوار صبح 10بجے دارالعلوم قمر الاسلام، پنجاب کالونی،کراچی میں منعقد ہوگی ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں