مذہبی شدت پسندی
بی جے پی کی کارکردگی محض مذہبی شدت پسندی کے چینل پر آ کر رک گئی ہے
بھارت میں بی جے پی کے دور میں مذہبی شدت پسندی کا جادو اس قدر سر چڑھ کر بول رہا ہے کہ اب اس کی صدائیں دنیائے عالم میں بھی گونجنے لگی ہیں۔
ممبئی فلم انڈسٹری کے کہنہ مشق اداکار نصیرالدین شاہ اس رویے پر چیخ اٹھے۔ شاہ رخ خان کے بیٹے آریان کے ساتھ جیل کی صعوبتیں اور دیگر مسائل تو اخبار و برقیاتی چینلز اور سوشل میڈیا کے ذریعے پہلے ہی گردش میں تھے لیکن ایک عجیب سی شکل اس وقت ابھر کر سامنے آئی جب عوام نے ایک فلم کی جھلکیاں دیکھیں، یہ فلم ''دی کیرالا اسٹوری'' تھی۔
بظاہر یہ ایک فلم ہے لیکن دراصل یہ بی جے پی کے اس بھیانک روپ کی تصویری شکل ہے جو ان کے اندر جوار بھاٹے کی مانند چکریاں کھا رہا تھا جسے ایک ڈائریکٹر نے رنگین فلم کی صورت دی۔ یہ سب کچھ وہی ہے جو ان کی غلیظ سوچوں میں پنپ رہا تھا۔ ان کے خیال میں تو انڈیا میں محض ایک ہی مذہب ہے جس نے بہت پہلے ہی سیکولر سوچ کی دھجیاں بکھیر دی تھیں لیکن اب بھی بڑا خم ٹھونک کر دعویٰ تو کرتے ہیں کہ بھارت میں سیکولر ازم پورے لو ازم کے ساتھ موجود ہے۔
درحقیقت ایسا نہیں ہے یہ تصویرکا کوئی اور ہی رخ ہے جسے سینما کی سلائیڈز پر چلا کر چیخ چیخ کر اپنے تعصب پسندی کے رجحان کا بتایا جا رہا ہے کہ ہم متعصب ہیں۔ آپ ہمیں سیکولر ازم کے حامی نہ سمجھیں دراصل ہم تو مذہبی شدت پسند ہیں۔
ایک طویل عرصے اور خاص کر 9/11 کے واقعے کے بعد دنیا بھر میں مسلمانوں کے ساتھ شدت پسندی کا لیبل لگا کر نجانے کتنے معصوموں کو نشانہ بنایا گیا تھا لیکن اس کے پس پشت اور بہت سی کہانیاں جنم لے رہی تھیں اس پر پھرکبھی بات ہوگی۔
اب تو یہ دیکھا جا رہا ہے کہ کون کس جماعت کا حامی ہے دراصل بی جے پی سرکار یعنی مودی ازم کے تحت کارکنان میں جس مذہبی شدت پسندی کا بخار جنم لے چکا ہے، اس کی رو سے وہ سب ایک سوچ کے حامی بھارت پر صرف ایک ہی راج کا خواب دیکھ رہے ہیں لیکن جناب قدرت کوکیا منظور ہے یہ تو وہی جانتی ہے کہ کسی بھی طاقت کو دبانے،کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ ( اگر حق پر ہو) اتنا ہی ابھرنے کی کوشش کرتی ہے۔ مودی سرکار اور ان کے حامیوں کے لیے یہ خیال روح فرسا ہے کہ بھارت میں اسلام ایک بار پھر پھیل رہا ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ ان کا خیال ہے کہ '' لو جہاد '' یعنی پیار محبت کی پینگوں سے بھرے رشتے فوراً مسلمان ہوجاتے ہیں اس لو جہاد کے پیچھے ان کی اپنی احمقانہ سوچ کارفرما ہے کیونکہ انھیں اس بات کا ادراک ہوتے ہوئے بھی نہیں ہے کہ رب العزت کو مسلمانوں کی تعداد بڑھنے سے نہیں بلکہ وہ تو دلوں کے خلوص دیکھتے ہیں۔ ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ لاکھ مسلمانوں کے ہجوم میں محض چند سو ہی مسلمان ہوں۔
اسلام میں صرف کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جانا شرط ہے لیکن مذکورہ شخص کا دل سے رب العزت کی ربانیت پر یقین رکھنا اور گواہی دینا سب سے اہم ہے کہ وہ تو دلوں کا حال جانتے ہیں اس دل کی فائل میں جھوٹ، مکر، فریب یا دکھاوا ہے تو محض منہ سے کلمہ پڑھنے سے کیا انسان رب العزت کی بارگاہ میں اپنی درخواست کا اہل ہو سکتا ہے۔ بہرحال یہ ان کے کام ہیں۔
اس فلم کی تشہیر کے سلسلے میں بہت سی اہم باتیں نظر آئیں، بی جے پی کی سرکار کے کارکنان اس سلسلے میں بڑے سرگرم ہیں یہاں تک کہ اس فلم کے مفت ٹکٹ بھی کئی مقامات پر بانٹنے کے بارے میں سنا گیا، جب کہ بہت سے سیاسی حلقوں میں اس کی مخالفت کی باتیں سننے میں آئی ہیں۔
خود کیرالہ کے وزیر اعلیٰ پنارائی وجیب نے اس فلم کی مخالفت کی ہے ان کا کہنا ہے کہ '' لو جہاد'' ایک ایسی اصطلاح ہے جسے عدالتوں، تحقیقاتی ایجنسیوں اور وزارت داخلہ نے بھی مسترد کردیا ہے۔اسی طرح سی پی آئی اور اپوزیشن کانگریس نے بھی اس متنازع فلم پر تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ آزادی اظہار کا مطلب معاشرے میں زہر پھیلانا نہیں ہے۔
بی جے پی کے آئی ٹی سیل کے سربراہ امیت مالویہ نے اپنے ایک ٹویٹ میں اس فلم کو سراہا اور کہا '' کیرالہ کی کہانی حقیقی زندگی کی کہانیوں پر مبنی ہے یہ ایک چونکا دینے والی اور پریشان کن فلم ہے۔''
کہا جا رہا ہے کہ اس فلم کے بننے کے درپردہ ان بتیس ہزار لڑکیوں کا لاپتا ہو جانا ہے جس کے پیچھے لو جہاد کا ایجنڈا ہے۔ بہرحال اس فلم کی پبلسٹی تو کسی نہ کسی ایشو کے ذریعے ہو چکی ہے اور پروڈیوسر کو اپنا پیسہ تو مل چکا ہے یہ الگ بات ہے کہ پروڈیوسر صاحب کو اپنے کسی ڈوبے ہوئے پروجیکٹ سے پیسے نکلوانے کے لیے اس طرح زہر میں ڈوبی فلم کا سہارا لینا پڑا، اس بات کی حقیقت کیا ہے؟
بنگال میں اس فلم کی نمائش پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ بنگال کی وزیر ممتا بینرجی کے مطابق اس فلم کی نمائش سے ریاست میں بدامنی پھیل سکتی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بنگال پر بنائی فلم کی فنڈنگ بی جے پی کر رہی ہے جیسے کشمیر فائلز پر کی گئی تھی۔
کشمیر فائلزکے مطابق ان کا کہنا تھا کہ یہ فلم کیوں بنائی گئی، ایک طبقے کی ہتک کرنے کے لیے۔ ممتا جی کے اس بیان پر لے دے تو کافی ہوئی لیکن محسوس یہ ہو رہا ہے کہ بی جے پی سرکار مذہب کی شدت پسندی میں اس قدر ڈوب چکی ہے کہ اپنی ریاستوں کے تحفظ و امن کا خیال نہیں کر رہی۔ کیونکہ ان کے خیال میں ان کا مذہب سب سے اونچا ہے۔
مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد بھارت میں آباد ہے، ایک سیکولر ملک ہونے کے ناتے وہاں مسلمانوں، عیسایوں، سکھ، پارسی اور دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو آزادی سے رہنے کا حق ہے کیونکہ وہاں انسانی حقوق کی پاس داری کی جاتی ہے لیکن اصل تصویر کچھ اور ہے، تعصب پسندی کے جذبات کو اس طرح شدت سے ہوا دی جا رہی ہے کہ اب بہت سے طبقات محرومیوں میں کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔
بھارت میں معاشرے کے تمام طبقات اور شعبہ زندگی کے مختلف میدانوں سے متعلق افراد یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ بی جے پی کی کارکردگی محض مذہبی شدت پسندی کے چینل پر آ کر رک گئی ہے اور اس پر نہ صرف سختی سے کاربند ہے بلکہ نت نئے منصوبوں سے دوسرے طبقات کو زک پہنچانے، ان کی جائیدادوں کو برباد کرنے اور ان کے حقوق سلب کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ آج کا بھارت خود اپنی آزادی اور مملکت کو تعصب پسندی کی تلوار سے کاٹنے کے درپے ہے، یہ کہانی مستقبل میں کیا رنگ لائے گی انتظار فرمائیے۔
ممبئی فلم انڈسٹری کے کہنہ مشق اداکار نصیرالدین شاہ اس رویے پر چیخ اٹھے۔ شاہ رخ خان کے بیٹے آریان کے ساتھ جیل کی صعوبتیں اور دیگر مسائل تو اخبار و برقیاتی چینلز اور سوشل میڈیا کے ذریعے پہلے ہی گردش میں تھے لیکن ایک عجیب سی شکل اس وقت ابھر کر سامنے آئی جب عوام نے ایک فلم کی جھلکیاں دیکھیں، یہ فلم ''دی کیرالا اسٹوری'' تھی۔
بظاہر یہ ایک فلم ہے لیکن دراصل یہ بی جے پی کے اس بھیانک روپ کی تصویری شکل ہے جو ان کے اندر جوار بھاٹے کی مانند چکریاں کھا رہا تھا جسے ایک ڈائریکٹر نے رنگین فلم کی صورت دی۔ یہ سب کچھ وہی ہے جو ان کی غلیظ سوچوں میں پنپ رہا تھا۔ ان کے خیال میں تو انڈیا میں محض ایک ہی مذہب ہے جس نے بہت پہلے ہی سیکولر سوچ کی دھجیاں بکھیر دی تھیں لیکن اب بھی بڑا خم ٹھونک کر دعویٰ تو کرتے ہیں کہ بھارت میں سیکولر ازم پورے لو ازم کے ساتھ موجود ہے۔
درحقیقت ایسا نہیں ہے یہ تصویرکا کوئی اور ہی رخ ہے جسے سینما کی سلائیڈز پر چلا کر چیخ چیخ کر اپنے تعصب پسندی کے رجحان کا بتایا جا رہا ہے کہ ہم متعصب ہیں۔ آپ ہمیں سیکولر ازم کے حامی نہ سمجھیں دراصل ہم تو مذہبی شدت پسند ہیں۔
ایک طویل عرصے اور خاص کر 9/11 کے واقعے کے بعد دنیا بھر میں مسلمانوں کے ساتھ شدت پسندی کا لیبل لگا کر نجانے کتنے معصوموں کو نشانہ بنایا گیا تھا لیکن اس کے پس پشت اور بہت سی کہانیاں جنم لے رہی تھیں اس پر پھرکبھی بات ہوگی۔
اب تو یہ دیکھا جا رہا ہے کہ کون کس جماعت کا حامی ہے دراصل بی جے پی سرکار یعنی مودی ازم کے تحت کارکنان میں جس مذہبی شدت پسندی کا بخار جنم لے چکا ہے، اس کی رو سے وہ سب ایک سوچ کے حامی بھارت پر صرف ایک ہی راج کا خواب دیکھ رہے ہیں لیکن جناب قدرت کوکیا منظور ہے یہ تو وہی جانتی ہے کہ کسی بھی طاقت کو دبانے،کچلنے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ ( اگر حق پر ہو) اتنا ہی ابھرنے کی کوشش کرتی ہے۔ مودی سرکار اور ان کے حامیوں کے لیے یہ خیال روح فرسا ہے کہ بھارت میں اسلام ایک بار پھر پھیل رہا ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ ان کا خیال ہے کہ '' لو جہاد '' یعنی پیار محبت کی پینگوں سے بھرے رشتے فوراً مسلمان ہوجاتے ہیں اس لو جہاد کے پیچھے ان کی اپنی احمقانہ سوچ کارفرما ہے کیونکہ انھیں اس بات کا ادراک ہوتے ہوئے بھی نہیں ہے کہ رب العزت کو مسلمانوں کی تعداد بڑھنے سے نہیں بلکہ وہ تو دلوں کے خلوص دیکھتے ہیں۔ ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ لاکھ مسلمانوں کے ہجوم میں محض چند سو ہی مسلمان ہوں۔
اسلام میں صرف کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جانا شرط ہے لیکن مذکورہ شخص کا دل سے رب العزت کی ربانیت پر یقین رکھنا اور گواہی دینا سب سے اہم ہے کہ وہ تو دلوں کا حال جانتے ہیں اس دل کی فائل میں جھوٹ، مکر، فریب یا دکھاوا ہے تو محض منہ سے کلمہ پڑھنے سے کیا انسان رب العزت کی بارگاہ میں اپنی درخواست کا اہل ہو سکتا ہے۔ بہرحال یہ ان کے کام ہیں۔
اس فلم کی تشہیر کے سلسلے میں بہت سی اہم باتیں نظر آئیں، بی جے پی کی سرکار کے کارکنان اس سلسلے میں بڑے سرگرم ہیں یہاں تک کہ اس فلم کے مفت ٹکٹ بھی کئی مقامات پر بانٹنے کے بارے میں سنا گیا، جب کہ بہت سے سیاسی حلقوں میں اس کی مخالفت کی باتیں سننے میں آئی ہیں۔
خود کیرالہ کے وزیر اعلیٰ پنارائی وجیب نے اس فلم کی مخالفت کی ہے ان کا کہنا ہے کہ '' لو جہاد'' ایک ایسی اصطلاح ہے جسے عدالتوں، تحقیقاتی ایجنسیوں اور وزارت داخلہ نے بھی مسترد کردیا ہے۔اسی طرح سی پی آئی اور اپوزیشن کانگریس نے بھی اس متنازع فلم پر تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ آزادی اظہار کا مطلب معاشرے میں زہر پھیلانا نہیں ہے۔
بی جے پی کے آئی ٹی سیل کے سربراہ امیت مالویہ نے اپنے ایک ٹویٹ میں اس فلم کو سراہا اور کہا '' کیرالہ کی کہانی حقیقی زندگی کی کہانیوں پر مبنی ہے یہ ایک چونکا دینے والی اور پریشان کن فلم ہے۔''
کہا جا رہا ہے کہ اس فلم کے بننے کے درپردہ ان بتیس ہزار لڑکیوں کا لاپتا ہو جانا ہے جس کے پیچھے لو جہاد کا ایجنڈا ہے۔ بہرحال اس فلم کی پبلسٹی تو کسی نہ کسی ایشو کے ذریعے ہو چکی ہے اور پروڈیوسر کو اپنا پیسہ تو مل چکا ہے یہ الگ بات ہے کہ پروڈیوسر صاحب کو اپنے کسی ڈوبے ہوئے پروجیکٹ سے پیسے نکلوانے کے لیے اس طرح زہر میں ڈوبی فلم کا سہارا لینا پڑا، اس بات کی حقیقت کیا ہے؟
بنگال میں اس فلم کی نمائش پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ بنگال کی وزیر ممتا بینرجی کے مطابق اس فلم کی نمائش سے ریاست میں بدامنی پھیل سکتی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بنگال پر بنائی فلم کی فنڈنگ بی جے پی کر رہی ہے جیسے کشمیر فائلز پر کی گئی تھی۔
کشمیر فائلزکے مطابق ان کا کہنا تھا کہ یہ فلم کیوں بنائی گئی، ایک طبقے کی ہتک کرنے کے لیے۔ ممتا جی کے اس بیان پر لے دے تو کافی ہوئی لیکن محسوس یہ ہو رہا ہے کہ بی جے پی سرکار مذہب کی شدت پسندی میں اس قدر ڈوب چکی ہے کہ اپنی ریاستوں کے تحفظ و امن کا خیال نہیں کر رہی۔ کیونکہ ان کے خیال میں ان کا مذہب سب سے اونچا ہے۔
مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد بھارت میں آباد ہے، ایک سیکولر ملک ہونے کے ناتے وہاں مسلمانوں، عیسایوں، سکھ، پارسی اور دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کو آزادی سے رہنے کا حق ہے کیونکہ وہاں انسانی حقوق کی پاس داری کی جاتی ہے لیکن اصل تصویر کچھ اور ہے، تعصب پسندی کے جذبات کو اس طرح شدت سے ہوا دی جا رہی ہے کہ اب بہت سے طبقات محرومیوں میں کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔
بھارت میں معاشرے کے تمام طبقات اور شعبہ زندگی کے مختلف میدانوں سے متعلق افراد یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ بی جے پی کی کارکردگی محض مذہبی شدت پسندی کے چینل پر آ کر رک گئی ہے اور اس پر نہ صرف سختی سے کاربند ہے بلکہ نت نئے منصوبوں سے دوسرے طبقات کو زک پہنچانے، ان کی جائیدادوں کو برباد کرنے اور ان کے حقوق سلب کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ آج کا بھارت خود اپنی آزادی اور مملکت کو تعصب پسندی کی تلوار سے کاٹنے کے درپے ہے، یہ کہانی مستقبل میں کیا رنگ لائے گی انتظار فرمائیے۔