قوم کا مفاد
بے شک کشکول ہاتھ میں لے کر بھیک مانگنے والوں کی کوئی عزت نہیں ہوتی اور عزت و وقار کا کوئی مول نہیں
ہر دو چار سال بعد غیر قانونی سفرکرنے والوں کی دردناک کہانیاں منظر عام پر آجاتی ہیں، گزشتہ واقعات کا پس منظر بے روزگاری کے سوا کچھ نہیں ہے۔
ایک ایسی کشتی میں سیکڑوں لوگوں کو اس طرح ٹھونس دیا، جس طرح جانوروں اور پرندوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا ہے یا لکڑی اور لوہے کی بنی ہوئی اشیا کو مال بردار گاڑیوں میں رکھ کر لوڈ کر دیا جاتا ہے، بالکل اسی طرح بلکہ اس سے بھی بدتر انداز میں مسافروں کو ایسے بٹھایا گیا کہ ایک انچ کی جگہ بھی خالی نہ تھی، خواتین اور بچوں کو نچلے حصے میں دھکیل کر تالا لگا دیا گیا۔
بھوکے پیاسے، ہوا سے محروم یہ خواتین اور ننھے بچے موت سے پہلے ہی موت کے قریب ہوگئے اور جب کشتی اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکی تو یورپ جانے والے بدنصیب مسافر گہرے پانیوں میں ڈوب گئے، 400 سے زیادہ پاکستانی تھے، باقی کا دوسرے ملکوں سے تعلق تھا، پنجاب اور کشمیر کے لوگ زیادہ تھے، کیسے کیسے خواب سجا کر اپنے گھروں سے نکلے ہوں گے کسی کو گھر بنانا تو کسی کو بہنوں کے ہاتھوں میں مہندی اور رخصتی کرنا تھی، بھوک کے الاؤ کو بجھانا تھا۔
والدین نے کس طرح پائی پائی جمع کر کے اور قرض لے کر اپنے دل کے ٹکڑوں کو روانہ کیا ہوگا، لیکن انجام اتنا برا ہوا کہ آس کے سب چراغ گل ہوئے، لاشیں بھی دیکھنے کو نہیں ملیں، سمندر برد ہونے والوں کے گھروں میں مزید فاقے پڑ گئے، ہر طرح سے لواحقین برباد ہوگئے۔ یہ غلطی کس کی ہے کہ یہ غربت کے مارے مسافر غیر قانونی اور خطرناک سفر کرنے پر مجبور ہوئے؟
صاف ظاہر ہے کہ اتنے بڑے حادثے کی ذمے دار حکومت ہے، اگر یہ روزگار فراہم کرتے، ضروریات زندگی کی اشیا کو غریب اور عزت دار لوگوں سے دور نہ کرتے اور مہنگائی کے جن کو کنٹرول میں رکھتے تو بے چارے بے بس و مجبور لوگ آج دوسرے ملک میں سمندر کی گہرائی اور اندھیروں میں ہرگز دفن نہ ہوتے۔
یہ پہلا واقعہ ہرگز نہیں ہے، افلاس زدہ لوگ اپنا اور اپنے کنبے کا پیٹ بھرنے کے لیے غیر قانونی کاموں کو اس لیے ترجیح دیتے ہیں کہ جائز اور قانونی طور پر انھیں مہنگائی کی سولی پر لٹکا دیا جاتا ہے تب وہ مجبور ہو کر خودکشی کرتے، ڈاکے اور چوریاں اس قسم کی کرتے ہیں کہ غبن کرلیا، چیزوں کے زیادہ نرخ بتا کر اپنے رزق میں اضافہ کرلیا، بددیانتی کرلی،گوکہ ایسا کرنا ہر لحاظ سے منع ہے۔
عادی مجرم اور ڈاکوؤں نے تو شہر اور شہریوں کی زندگیوں کو اجیرن کردیا ہے،اس قدر ڈاکو، لیٹرے، راہزان شہر کراچی میں پھیل گئے ہیں کہ کوئی جگہ محفوظ نہیں، فورسز ناکام ہوگئی ہیں لیکن وارداتیں ختم ہونے کا نام نہیں لیتی ہیں۔ پیپلز پارٹی کو چاہیے کہ اگر حکومت کرنی ہے تو شہریوں کے جان و مال کا تحفظ بھی ضروری ہے۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحفظ کون کرے؟ انصاف کون دے، انصاف کا پرندہ طائران خوشحالی کی طرح عرصہ ہوا پرواز کرچکا ہے اور دور کہیں آسمانوں میں بیٹھا سکھ کا سانس لے رہا ہے کہ عدالتیں بھی ہیں، انصاف کی کرسیوں پر براجمان، اعلیٰ حضرات کی بھی کمی نہیں ہے لیکن حق دار کی داد رسی سننے اور فیصلہ صادر کرنے کے لیے سماعت اور بصارت سے محروم ہیں۔ ظلم بڑھ رہا ہے، جیلیں بھر دی گئی ہیں ان ملزمان میں کون قصور وار ہے اورکتنے لوگ بے قصور ہیں۔
حکومت وقت چاہتی ہے کہ 9 مئی کے ملزمان کا فیصلہ فوجی عدالتوں میں ہونا چاہیے، اسمبلی کا اس بات پر بھی زور ہے کہ پوری دنیا میں فوجی تنصیبات پر حملہ آوروں کو سزائیں افواج دیتی ہیں یہاں بھی آرمی ایکٹ کے تحت سزا دی جائے، ملک میں الیکشن تو ہونے ہی چاہیے تھے۔ اقتدار کی کرسی پر کوئی بھی شخص ساری عمر نہیں بیٹھتا ہے، کاش کہ لوگ اتنی بات سمجھیں کہ انسان اپنی آسانیوں اور آسائشوں کے لیے منصوبہ بندی کرتا ہے لیکن ایک منصوبہ ساز اوپر بھی ہے۔ اس کے حکم کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا ہے۔
سورہ نسا میں اللہ فرماتا ہے ''بے شک اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتوں کو ان کے اہل کے سپرد کردو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل و انصاف کے ساتھ کرو، اے ایمان والو! انصاف کے داعی بن جاؤ اور اللہ کے لیے گواہ بنو، اگرچہ تمہاری ذات یا والدین یا رشتے داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، اگر کوئی امیر یا فقیر ہے تو اللہ ان کا بہتر خیر خواہ ہے لہٰذا تم خواہش نفس کی وجہ سے عدل نہ چھوڑو۔ اگر تم نے کج بیانی سے کام لیا یا گواہی دینے سے پہلو تہی کی تو جان لو کہ اللہ تمہارے اعمال سے خوب واقف ہے۔ '' (النسا۔125)
عدل کے ساتھ حکومت کرنے والوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ انسانی اسمگلروں کی کارروائیاں بروقت کیوں نہیں روکی گئیں انھوں نے یہ بھی کہا کہ ذمے داران کو بہت جلد کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔ اگر قوانین کو توڑنے والوں کو بروقت سزائیں دے دی جاتیں تو اغوا، چوری، قتل اور دوسرے جرائم میں نہ صرف یہ کہ کمی واقع ہوتی بلکہ یہ جرائم ختم ہو جاتے۔
بے شک کشکول ہاتھ میں لے کر بھیک مانگنے والوں کی کوئی عزت نہیں ہوتی اور عزت و وقار کا کوئی مول نہیں۔ اب بھی وقت ہے اچھا ہو سکتا ہے۔ ترقی، نیک نامی اور خوشحالی پاکستانیوں کا مقدر بنتے ہوئے دیر نہیں لگے گی، یہ اس وقت ہوگا جب ہر شخص اپنے مفاد پر قوم کے مفاد کو مدنظر رکھے گا۔
ایک ایسی کشتی میں سیکڑوں لوگوں کو اس طرح ٹھونس دیا، جس طرح جانوروں اور پرندوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جاتا ہے یا لکڑی اور لوہے کی بنی ہوئی اشیا کو مال بردار گاڑیوں میں رکھ کر لوڈ کر دیا جاتا ہے، بالکل اسی طرح بلکہ اس سے بھی بدتر انداز میں مسافروں کو ایسے بٹھایا گیا کہ ایک انچ کی جگہ بھی خالی نہ تھی، خواتین اور بچوں کو نچلے حصے میں دھکیل کر تالا لگا دیا گیا۔
بھوکے پیاسے، ہوا سے محروم یہ خواتین اور ننھے بچے موت سے پہلے ہی موت کے قریب ہوگئے اور جب کشتی اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکی تو یورپ جانے والے بدنصیب مسافر گہرے پانیوں میں ڈوب گئے، 400 سے زیادہ پاکستانی تھے، باقی کا دوسرے ملکوں سے تعلق تھا، پنجاب اور کشمیر کے لوگ زیادہ تھے، کیسے کیسے خواب سجا کر اپنے گھروں سے نکلے ہوں گے کسی کو گھر بنانا تو کسی کو بہنوں کے ہاتھوں میں مہندی اور رخصتی کرنا تھی، بھوک کے الاؤ کو بجھانا تھا۔
والدین نے کس طرح پائی پائی جمع کر کے اور قرض لے کر اپنے دل کے ٹکڑوں کو روانہ کیا ہوگا، لیکن انجام اتنا برا ہوا کہ آس کے سب چراغ گل ہوئے، لاشیں بھی دیکھنے کو نہیں ملیں، سمندر برد ہونے والوں کے گھروں میں مزید فاقے پڑ گئے، ہر طرح سے لواحقین برباد ہوگئے۔ یہ غلطی کس کی ہے کہ یہ غربت کے مارے مسافر غیر قانونی اور خطرناک سفر کرنے پر مجبور ہوئے؟
صاف ظاہر ہے کہ اتنے بڑے حادثے کی ذمے دار حکومت ہے، اگر یہ روزگار فراہم کرتے، ضروریات زندگی کی اشیا کو غریب اور عزت دار لوگوں سے دور نہ کرتے اور مہنگائی کے جن کو کنٹرول میں رکھتے تو بے چارے بے بس و مجبور لوگ آج دوسرے ملک میں سمندر کی گہرائی اور اندھیروں میں ہرگز دفن نہ ہوتے۔
یہ پہلا واقعہ ہرگز نہیں ہے، افلاس زدہ لوگ اپنا اور اپنے کنبے کا پیٹ بھرنے کے لیے غیر قانونی کاموں کو اس لیے ترجیح دیتے ہیں کہ جائز اور قانونی طور پر انھیں مہنگائی کی سولی پر لٹکا دیا جاتا ہے تب وہ مجبور ہو کر خودکشی کرتے، ڈاکے اور چوریاں اس قسم کی کرتے ہیں کہ غبن کرلیا، چیزوں کے زیادہ نرخ بتا کر اپنے رزق میں اضافہ کرلیا، بددیانتی کرلی،گوکہ ایسا کرنا ہر لحاظ سے منع ہے۔
عادی مجرم اور ڈاکوؤں نے تو شہر اور شہریوں کی زندگیوں کو اجیرن کردیا ہے،اس قدر ڈاکو، لیٹرے، راہزان شہر کراچی میں پھیل گئے ہیں کہ کوئی جگہ محفوظ نہیں، فورسز ناکام ہوگئی ہیں لیکن وارداتیں ختم ہونے کا نام نہیں لیتی ہیں۔ پیپلز پارٹی کو چاہیے کہ اگر حکومت کرنی ہے تو شہریوں کے جان و مال کا تحفظ بھی ضروری ہے۔
لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحفظ کون کرے؟ انصاف کون دے، انصاف کا پرندہ طائران خوشحالی کی طرح عرصہ ہوا پرواز کرچکا ہے اور دور کہیں آسمانوں میں بیٹھا سکھ کا سانس لے رہا ہے کہ عدالتیں بھی ہیں، انصاف کی کرسیوں پر براجمان، اعلیٰ حضرات کی بھی کمی نہیں ہے لیکن حق دار کی داد رسی سننے اور فیصلہ صادر کرنے کے لیے سماعت اور بصارت سے محروم ہیں۔ ظلم بڑھ رہا ہے، جیلیں بھر دی گئی ہیں ان ملزمان میں کون قصور وار ہے اورکتنے لوگ بے قصور ہیں۔
حکومت وقت چاہتی ہے کہ 9 مئی کے ملزمان کا فیصلہ فوجی عدالتوں میں ہونا چاہیے، اسمبلی کا اس بات پر بھی زور ہے کہ پوری دنیا میں فوجی تنصیبات پر حملہ آوروں کو سزائیں افواج دیتی ہیں یہاں بھی آرمی ایکٹ کے تحت سزا دی جائے، ملک میں الیکشن تو ہونے ہی چاہیے تھے۔ اقتدار کی کرسی پر کوئی بھی شخص ساری عمر نہیں بیٹھتا ہے، کاش کہ لوگ اتنی بات سمجھیں کہ انسان اپنی آسانیوں اور آسائشوں کے لیے منصوبہ بندی کرتا ہے لیکن ایک منصوبہ ساز اوپر بھی ہے۔ اس کے حکم کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا ہے۔
سورہ نسا میں اللہ فرماتا ہے ''بے شک اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتوں کو ان کے اہل کے سپرد کردو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل و انصاف کے ساتھ کرو، اے ایمان والو! انصاف کے داعی بن جاؤ اور اللہ کے لیے گواہ بنو، اگرچہ تمہاری ذات یا والدین یا رشتے داروں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، اگر کوئی امیر یا فقیر ہے تو اللہ ان کا بہتر خیر خواہ ہے لہٰذا تم خواہش نفس کی وجہ سے عدل نہ چھوڑو۔ اگر تم نے کج بیانی سے کام لیا یا گواہی دینے سے پہلو تہی کی تو جان لو کہ اللہ تمہارے اعمال سے خوب واقف ہے۔ '' (النسا۔125)
عدل کے ساتھ حکومت کرنے والوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ انسانی اسمگلروں کی کارروائیاں بروقت کیوں نہیں روکی گئیں انھوں نے یہ بھی کہا کہ ذمے داران کو بہت جلد کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔ اگر قوانین کو توڑنے والوں کو بروقت سزائیں دے دی جاتیں تو اغوا، چوری، قتل اور دوسرے جرائم میں نہ صرف یہ کہ کمی واقع ہوتی بلکہ یہ جرائم ختم ہو جاتے۔
بے شک کشکول ہاتھ میں لے کر بھیک مانگنے والوں کی کوئی عزت نہیں ہوتی اور عزت و وقار کا کوئی مول نہیں۔ اب بھی وقت ہے اچھا ہو سکتا ہے۔ ترقی، نیک نامی اور خوشحالی پاکستانیوں کا مقدر بنتے ہوئے دیر نہیں لگے گی، یہ اس وقت ہوگا جب ہر شخص اپنے مفاد پر قوم کے مفاد کو مدنظر رکھے گا۔