زرعی ادویات کازہر
درندے اگر نہ ہوں تو سبزہ خور جانوروں کی تعداد اتنی بڑھ جائے کہ زمین پر سبزے کا نام ونشان نہ رہے
زمین کی تباہی میں کنسٹرکشن کے نام پر ہونے والی ڈسٹرکشن یاتعمیرکے نام پر تخریب کاذکر ہو چکاہے، یہاں میں ایک اورتباہی کاذکر کرنا چاہتا ہوں جو بظاہردکھائی نہیں دے رہی ہے لیکن بڑے بھیانک اور تباہ کار انداز میں پھیل رہی ہے۔
اگر آپ کسی کسان، زمیندار، کاشتکار یا زراعت سے تعلق رکھنے والے کسی شخص سے پوچھیں تو وہ آپ کو بتادے گا کہ آج زراعت کا سب سے بڑا مسلہ فصلوں کے امراض ہیں، مہنگی ترین زرعی دواؤں کی حقیقت پر بعد میں روشنی ڈالوں گا، فی الحال ان امراض کی بنیادی وجہ پر بات ہورہی ہے اور وہ ''وجہ'' یہ ہے کہ انسان نے قدرت کی بنائی ہوئی اس ''زنجیر'' کوتوڑ دیا ہے جس میں یہ سارا نظام کائنات اس مہارت اورہنرمندی سے پرویاگیا ہے کہ ہرہرکڑی اپنا اپنا کام کرکے اس نظام کو چلارہی ہے۔
قدرت کے حسن انتظام کی یہ خوبی دیکھیے کہ جو مخلوقات زیادہ تلف ہوتی ہیں، ان کی پیداواربھی اتنی زیادہ ہوتی ہے اورجو کم مرتی ہیں، ان کی پیداوار بھی کم ہوتی ہے ،شیر اوراس طرح کے دیگر جانوربہت کم بچے دیتے ہیں جب کہ کیڑے مکوڑے، مچھر مکھیاں اور ٹڈیاں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں پیداہوتی ہیں چنانچہ پرندے جن حشرات کو کھاتے ہیں، ان کی تعداد بھی بہت زیادہ ہوتی ہے، اب اگر پرندوں کو ہم نے تقریباًختم کردیا ہے تو وہ حشرات کہاں جائیں گی جو فصلوں کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں، ظاہرہے کہ فصلوں پر حملہ آور ہوں گی اورہوچکے ہیں، ہورہے ہیں۔ یہیں سے زمین کی تباہی کادوسرا سلسلہ شروع ہوتاہے۔
امراض کے تدارک کے لیے ''دواپاشی'' کاسلسلہ چل پڑتاہے چنانچہ کسانوں کو بوائی سے لے کرکٹائی تک کئی کئی بار طرح طرح کی دوائیں چھڑکنا پڑتی ہیں جو اپنی جگہ ایک اور بلا ہے ،یہ دوائیں جو اصل میں ''زہر'' ہوتی ہیں، زمین کو مزید بانجھ کرتی ہیں جب کہ ساتھ ہی اس کا زہریلا اثر فصل میں بھی سرایت کرجاتا ہے اورجو اناج، سبزیاں، پھل وغیرہ انسانوں تک پہنچتی ہیں ان میں بھی ان دواؤں کی ''مضرت'' موجود ہوتی ہے۔
کسی بھی ماہر زراعت سے پوچھیے، وہ آپ کو بتادے گا کہ پیداوار میں ان دواؤں کا اثر آجاتاہے ،ان دواؤں کے پھیلاؤ ، خرید وفروخت اور تجارت پر بعد میںبات کریں گے کہ یہ بھی عالمی مافیا کاایک منافع بخش کاروبارہے، ان دواؤں کی قیمتیں بے پناہ ہوتی ہیں اور پبلسٹی کا ایک وسیع نیٹ ورک ہوتاہے ،فی الحال ہم قدرت کی اس زنجیر یاخود کارنظام کی بات کررہے ہیں جس کے ذریعے قدرت کا یہ عظیم الشان خودکار سلسلہ رواں دواں ہے، اس نظام قدرت میں مخلوق کا اپنا اپنا ایک کردارہے، ظاہر ہے کہ کسی خودکار مشین کاایک چھوٹا سا پرزہ بھی بگڑجائے یانکل جائے تو ساری مشین بیکار ہوکر رک جائے گی اور ایسا ہی انسان کررہاہے، وہ اس زنجیرکی کڑیاں تو ڑرہاہے۔
جب ہم بنوں میں رہتے تھے، یہ ایوب خان کے دورکی بات ہے تو بازار میں ایک روپے کے چار بٹیرفروخت ہوتے تھے، بٹیروں کی ارزانی کی وجہ سیزن میں بٹیروں کی بہتات ہوتی ہے، یادرہے کہ بٹیروں اورتلیرپرندوں کا پسندیدہ کھاجا دیمک ہے لیکن انسان نے ان دوست پرندوں کی تباہی کاجو طریقہ اختیار کیاتھا وہ انتہائی ظالمانہ تھا اور یہ طریقہ کوہاٹ سے ڈی آئی خان تک اب بھی ہے لیکن اب پرندے کہاں رہے۔
وہ لوگ دیہات سے باہرکھیتوں میں ایک کچا مکان بنادیتے تھے، سیزن میں اس کے اردگرد جال بچھادیتے تھے اورصرف ایک آمدورفت کا راستہ چھوڑ دیتے تھے جسے رسی کے ذریعے دورسے بند کیاجاسکتاتھا ، رات کو اس جال کے اندر ''بلارہ''رکھ دیتے تھے، بلارے میں مادہ بٹیر کو بھوکا رکھ کر لٹکا دیتے تھے، کچھ دانے بھی بکھیردیتے تھے، رات کو بلارے کی آواز پر بے شمار بٹیرآکر جمع ہوجاتے تھے، صبح سویرے شکاری آکر دروازہ بندکردیتاتھا اورایک ایک کرکے سیکڑوں بٹیر پکڑ لیتا تھا۔
تلیر جو بٹیر ہی جیسا اوراس سے کچھ بڑا پرندہ ہے، اسے شکار کرنے کے لیے اس سے بھی زیادہ ظالمانہ طریقہ رائج تھا ، پانی کے تالاب کے اوپرکانٹے دار جھاڑیاں رکھ دی جاتی تھیں اور ان میں ایک تنگ ساسوراخ رہنے دیاجاتا تھا ،سیکڑوں تلیر جب پانی کے اس سوراخ میں جمع ہوجاتے تھے تو ایک ہی فائر سے بے شمار تلیرشکار ہوجاتے تھے ،جنرل فضل حق کو شکارکایہ طریقہ بہت پسندتھا۔
اور یہ تو آپ نے سناہی ہوگا کہ مچھلیوں کے تالاب میں کرنٹ دوڑایاجاتا ہے یا زہریلی دوا ڈال دی جاتی ہے جس سے بڑی مچھلیاں تو شکار ہوجاتی ہیں اورساتھ ہی ہزاروں بلکہ لاکھوں بچے بھی تلف ہوجاتے ہیں۔
ایک ٹی وی پروگرام میں ہم نے یہ منظر بھی دیکھاہے کہ ایک تفریحی ساحلی مقام پر مچھلیاں اس حالت میں کھائی جاتی ہیں کہ انھیں زندہ ہی تیل میں تلاجاتا ہے، کھانے والے مچھلی کی دم والاحصہ کھاتے جاتے ہیں اوراس کے زندہ سر میں جب وہ منہ کھول کھول جانکنی کی حالت میں ہوتی ہے تو کھانے والے اس سے لطف اٹھاتے ہیں ۔اسی طرح پرندوں کے ساتھ بھی کیاجاتاہے ،بڑے بڑے جالوں میں سیکڑوں ہزاروں پکڑے جاتے ہیں اور پھر بیسن میں تل کرکھائے جاتے ہیں۔
ہمارے علاقے میں پہلے افغان مہاجرین کاکیمپ تھا، بعد میں ملکی مہاجروں کا دورآیا اور یہ بڑے پکے مسلمان تھے چنانچہ شکارکو کارثواب سمجھتے تھے بلکہ ان کے ہاں ایک مقولہ ہے کہ جو ''وقت'' شکار میں صرف ہوتا ہے، وہ زندگی یا عمرمیں شمار نہیں کیاجاتا چنانچہ ہم نے دیکھا کہ اس علاقے میں کوئی پرندہ باقی نہیں رہا۔
پھر ہم نے اپنے زیر قبضہ علاقے میں شکار پر پابندی لگادی یہاںتک کہ غلیلوں والے بچوں کو بھی منع کردیا ، ساتھ ہی لکڑی کے بہت سارے گھونسلے بناکر درختوں میں لٹکا دیے، نتیجہ یہ ہوا کہ اس علاقے میں آج کل ہرقسم کاپرندہ پایا جاتاہے اور ہم اب فصلوں پردواپاشی یا زہرپاشی نہیں کرتے ،چوہوں کے تدارک کے لیے ہم نے سانپ مارناچھوڑدیے ہیں کیوں کہ ہمیں پتہ ہے کہ سانپ کو جب تک اپنی جان کاخطرہ نہ ہو، یہ کبھی نہیں کاٹتا، بلکہ انسان کو دیکھ کرچھپنے کی کوشش کرتاہے اور اس کاکھاجا چوہے ہوتے ہیں، سارے سانپ زہریلے نہیں ہوتے، اس وقت دنیا میں چار سو کے قریب سانپوں کی قسمیں پائی جاتی ہیں ان میں صرف پینتیس قسمیں زہریلی ہوتی ہیں، دوسرے یہ کہ سانپ کے کان نہیں ہوتے ،اس لیے یہ ''بین''وغیرہ کی آواز نہیں سنتے، سانپ اپنی پسلیوں کے ذریعے وہ آوازیں سنتے ہیں جو زمین پر ہوتی ہیں چنانچہ سانپ زمین سے اوپر گھاس وغیرہ پر ہو تو کچھ بھی نہیں سنتا، اپنی آبادی کو بھی سانپ خود کنٹرول کرتے ہیں کیوں کہ یہ اپنے بچے خود کھاتے ہیں ، دس بارہ انڈوں سے صرف دوچارہی زندہ رہ جاتے ہیں۔
پوری کائنات اور نظام قدرت میں کوئی بھی مخلوق بے فائدہ نہیں ہے، درندے اگر نہ ہوں تو سبزہ خور جانوروں کی تعداد اتنی بڑھ جائے کہ زمین پر سبزے کا نام ونشان نہ رہے، جس سے آکسیجن وکاربن کا توازن بھی بگڑ جائے اور سانس لینے کے لیے صاف ہوا بھی مسیر نہ ہو،بارشیں رک جائیں گی، گلوبل وارمنگ بڑھ جائے گی، یاد رہے کہ درخت اور پیڑ پودے رات کو کاربن کھینچ کر دن کو آکسیجن خارج کرتے ہیں۔
چیل ،گدھ اورکوے وغیرہ بھی اگر نہ ہوں تو دنیا غلاظت اور بدبو سے بھر جائے بلکہ ایک مرتبہ ہمارے صوبے ہی کے ایک شہرغالباً صوابی میں لوگوں نے چیلوں، گدھوں اورکوؤں کاخاتمہ کردیا تو پورا علاقہ غلاظت اور بدبو سے بھر گیا تھا اور لوگ پھر دوسرے علاقوں سے مذکورہ پرندے لاکر آباد کرنے لگے ۔
اگر آپ کسی کسان، زمیندار، کاشتکار یا زراعت سے تعلق رکھنے والے کسی شخص سے پوچھیں تو وہ آپ کو بتادے گا کہ آج زراعت کا سب سے بڑا مسلہ فصلوں کے امراض ہیں، مہنگی ترین زرعی دواؤں کی حقیقت پر بعد میں روشنی ڈالوں گا، فی الحال ان امراض کی بنیادی وجہ پر بات ہورہی ہے اور وہ ''وجہ'' یہ ہے کہ انسان نے قدرت کی بنائی ہوئی اس ''زنجیر'' کوتوڑ دیا ہے جس میں یہ سارا نظام کائنات اس مہارت اورہنرمندی سے پرویاگیا ہے کہ ہرہرکڑی اپنا اپنا کام کرکے اس نظام کو چلارہی ہے۔
قدرت کے حسن انتظام کی یہ خوبی دیکھیے کہ جو مخلوقات زیادہ تلف ہوتی ہیں، ان کی پیداواربھی اتنی زیادہ ہوتی ہے اورجو کم مرتی ہیں، ان کی پیداوار بھی کم ہوتی ہے ،شیر اوراس طرح کے دیگر جانوربہت کم بچے دیتے ہیں جب کہ کیڑے مکوڑے، مچھر مکھیاں اور ٹڈیاں ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں پیداہوتی ہیں چنانچہ پرندے جن حشرات کو کھاتے ہیں، ان کی تعداد بھی بہت زیادہ ہوتی ہے، اب اگر پرندوں کو ہم نے تقریباًختم کردیا ہے تو وہ حشرات کہاں جائیں گی جو فصلوں کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں، ظاہرہے کہ فصلوں پر حملہ آور ہوں گی اورہوچکے ہیں، ہورہے ہیں۔ یہیں سے زمین کی تباہی کادوسرا سلسلہ شروع ہوتاہے۔
امراض کے تدارک کے لیے ''دواپاشی'' کاسلسلہ چل پڑتاہے چنانچہ کسانوں کو بوائی سے لے کرکٹائی تک کئی کئی بار طرح طرح کی دوائیں چھڑکنا پڑتی ہیں جو اپنی جگہ ایک اور بلا ہے ،یہ دوائیں جو اصل میں ''زہر'' ہوتی ہیں، زمین کو مزید بانجھ کرتی ہیں جب کہ ساتھ ہی اس کا زہریلا اثر فصل میں بھی سرایت کرجاتا ہے اورجو اناج، سبزیاں، پھل وغیرہ انسانوں تک پہنچتی ہیں ان میں بھی ان دواؤں کی ''مضرت'' موجود ہوتی ہے۔
کسی بھی ماہر زراعت سے پوچھیے، وہ آپ کو بتادے گا کہ پیداوار میں ان دواؤں کا اثر آجاتاہے ،ان دواؤں کے پھیلاؤ ، خرید وفروخت اور تجارت پر بعد میںبات کریں گے کہ یہ بھی عالمی مافیا کاایک منافع بخش کاروبارہے، ان دواؤں کی قیمتیں بے پناہ ہوتی ہیں اور پبلسٹی کا ایک وسیع نیٹ ورک ہوتاہے ،فی الحال ہم قدرت کی اس زنجیر یاخود کارنظام کی بات کررہے ہیں جس کے ذریعے قدرت کا یہ عظیم الشان خودکار سلسلہ رواں دواں ہے، اس نظام قدرت میں مخلوق کا اپنا اپنا ایک کردارہے، ظاہر ہے کہ کسی خودکار مشین کاایک چھوٹا سا پرزہ بھی بگڑجائے یانکل جائے تو ساری مشین بیکار ہوکر رک جائے گی اور ایسا ہی انسان کررہاہے، وہ اس زنجیرکی کڑیاں تو ڑرہاہے۔
جب ہم بنوں میں رہتے تھے، یہ ایوب خان کے دورکی بات ہے تو بازار میں ایک روپے کے چار بٹیرفروخت ہوتے تھے، بٹیروں کی ارزانی کی وجہ سیزن میں بٹیروں کی بہتات ہوتی ہے، یادرہے کہ بٹیروں اورتلیرپرندوں کا پسندیدہ کھاجا دیمک ہے لیکن انسان نے ان دوست پرندوں کی تباہی کاجو طریقہ اختیار کیاتھا وہ انتہائی ظالمانہ تھا اور یہ طریقہ کوہاٹ سے ڈی آئی خان تک اب بھی ہے لیکن اب پرندے کہاں رہے۔
وہ لوگ دیہات سے باہرکھیتوں میں ایک کچا مکان بنادیتے تھے، سیزن میں اس کے اردگرد جال بچھادیتے تھے اورصرف ایک آمدورفت کا راستہ چھوڑ دیتے تھے جسے رسی کے ذریعے دورسے بند کیاجاسکتاتھا ، رات کو اس جال کے اندر ''بلارہ''رکھ دیتے تھے، بلارے میں مادہ بٹیر کو بھوکا رکھ کر لٹکا دیتے تھے، کچھ دانے بھی بکھیردیتے تھے، رات کو بلارے کی آواز پر بے شمار بٹیرآکر جمع ہوجاتے تھے، صبح سویرے شکاری آکر دروازہ بندکردیتاتھا اورایک ایک کرکے سیکڑوں بٹیر پکڑ لیتا تھا۔
تلیر جو بٹیر ہی جیسا اوراس سے کچھ بڑا پرندہ ہے، اسے شکار کرنے کے لیے اس سے بھی زیادہ ظالمانہ طریقہ رائج تھا ، پانی کے تالاب کے اوپرکانٹے دار جھاڑیاں رکھ دی جاتی تھیں اور ان میں ایک تنگ ساسوراخ رہنے دیاجاتا تھا ،سیکڑوں تلیر جب پانی کے اس سوراخ میں جمع ہوجاتے تھے تو ایک ہی فائر سے بے شمار تلیرشکار ہوجاتے تھے ،جنرل فضل حق کو شکارکایہ طریقہ بہت پسندتھا۔
اور یہ تو آپ نے سناہی ہوگا کہ مچھلیوں کے تالاب میں کرنٹ دوڑایاجاتا ہے یا زہریلی دوا ڈال دی جاتی ہے جس سے بڑی مچھلیاں تو شکار ہوجاتی ہیں اورساتھ ہی ہزاروں بلکہ لاکھوں بچے بھی تلف ہوجاتے ہیں۔
ایک ٹی وی پروگرام میں ہم نے یہ منظر بھی دیکھاہے کہ ایک تفریحی ساحلی مقام پر مچھلیاں اس حالت میں کھائی جاتی ہیں کہ انھیں زندہ ہی تیل میں تلاجاتا ہے، کھانے والے مچھلی کی دم والاحصہ کھاتے جاتے ہیں اوراس کے زندہ سر میں جب وہ منہ کھول کھول جانکنی کی حالت میں ہوتی ہے تو کھانے والے اس سے لطف اٹھاتے ہیں ۔اسی طرح پرندوں کے ساتھ بھی کیاجاتاہے ،بڑے بڑے جالوں میں سیکڑوں ہزاروں پکڑے جاتے ہیں اور پھر بیسن میں تل کرکھائے جاتے ہیں۔
ہمارے علاقے میں پہلے افغان مہاجرین کاکیمپ تھا، بعد میں ملکی مہاجروں کا دورآیا اور یہ بڑے پکے مسلمان تھے چنانچہ شکارکو کارثواب سمجھتے تھے بلکہ ان کے ہاں ایک مقولہ ہے کہ جو ''وقت'' شکار میں صرف ہوتا ہے، وہ زندگی یا عمرمیں شمار نہیں کیاجاتا چنانچہ ہم نے دیکھا کہ اس علاقے میں کوئی پرندہ باقی نہیں رہا۔
پھر ہم نے اپنے زیر قبضہ علاقے میں شکار پر پابندی لگادی یہاںتک کہ غلیلوں والے بچوں کو بھی منع کردیا ، ساتھ ہی لکڑی کے بہت سارے گھونسلے بناکر درختوں میں لٹکا دیے، نتیجہ یہ ہوا کہ اس علاقے میں آج کل ہرقسم کاپرندہ پایا جاتاہے اور ہم اب فصلوں پردواپاشی یا زہرپاشی نہیں کرتے ،چوہوں کے تدارک کے لیے ہم نے سانپ مارناچھوڑدیے ہیں کیوں کہ ہمیں پتہ ہے کہ سانپ کو جب تک اپنی جان کاخطرہ نہ ہو، یہ کبھی نہیں کاٹتا، بلکہ انسان کو دیکھ کرچھپنے کی کوشش کرتاہے اور اس کاکھاجا چوہے ہوتے ہیں، سارے سانپ زہریلے نہیں ہوتے، اس وقت دنیا میں چار سو کے قریب سانپوں کی قسمیں پائی جاتی ہیں ان میں صرف پینتیس قسمیں زہریلی ہوتی ہیں، دوسرے یہ کہ سانپ کے کان نہیں ہوتے ،اس لیے یہ ''بین''وغیرہ کی آواز نہیں سنتے، سانپ اپنی پسلیوں کے ذریعے وہ آوازیں سنتے ہیں جو زمین پر ہوتی ہیں چنانچہ سانپ زمین سے اوپر گھاس وغیرہ پر ہو تو کچھ بھی نہیں سنتا، اپنی آبادی کو بھی سانپ خود کنٹرول کرتے ہیں کیوں کہ یہ اپنے بچے خود کھاتے ہیں ، دس بارہ انڈوں سے صرف دوچارہی زندہ رہ جاتے ہیں۔
پوری کائنات اور نظام قدرت میں کوئی بھی مخلوق بے فائدہ نہیں ہے، درندے اگر نہ ہوں تو سبزہ خور جانوروں کی تعداد اتنی بڑھ جائے کہ زمین پر سبزے کا نام ونشان نہ رہے، جس سے آکسیجن وکاربن کا توازن بھی بگڑ جائے اور سانس لینے کے لیے صاف ہوا بھی مسیر نہ ہو،بارشیں رک جائیں گی، گلوبل وارمنگ بڑھ جائے گی، یاد رہے کہ درخت اور پیڑ پودے رات کو کاربن کھینچ کر دن کو آکسیجن خارج کرتے ہیں۔
چیل ،گدھ اورکوے وغیرہ بھی اگر نہ ہوں تو دنیا غلاظت اور بدبو سے بھر جائے بلکہ ایک مرتبہ ہمارے صوبے ہی کے ایک شہرغالباً صوابی میں لوگوں نے چیلوں، گدھوں اورکوؤں کاخاتمہ کردیا تو پورا علاقہ غلاظت اور بدبو سے بھر گیا تھا اور لوگ پھر دوسرے علاقوں سے مذکورہ پرندے لاکر آباد کرنے لگے ۔