ایک نئی صبح

خان صاحب کے سیاسی مستقبل کا قصہ تمام ہوا اور ان کے ساتھ ان کے ہینڈلرز بھی

Jvqazi@gmail.com

2017 سے جو سلسلہ واضح شکل میں نظر آیا کہ ملک سے میثاق جمہوریت کے اختتام کا ۔ بل آخر چھ سال بعد اس کا خاتمہ ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ مگر ان چھ سالوں میں جو ملک کی سالمیت کو نقصان پہنچا اس کی مثال ماضی کے کسی بھی آمریتی دور میں نہیں ملتی۔ جس سے سیاست کے طالب علم کے لیے سوال ابھرتا ہے کہ آیا ہائبرڈ جمہوریت بدتر ہے یا آمریت!

یہ جو ہائبرڈ جمہوریت تھی وہ خود بہ خود پیدا نہیں ہوئی تھی بلکہ ماضی کے تین آمر ادواروں کی بے باکیوں کا نتیجہ ہے۔ مثال کے طور پر یہ ملک شروع سے اگر بحران کا شکار نہ ہوتا جس کی وجہ سے ہر دفعہ وزیر اعظم بدلتے رہے اور نتیجتاً کمزور سیاسی نظام نے جنم لیا۔

جنرل ایوب کے لگائے گئے پہلے مارشل لا جس کے لیے انگریز سامراج اور کچھ ہمارے شرفا اپنے مروج نظام کی باقیات کے حوالے سے بہت کچھ چھوڑ گئے تھے۔ جب ہندوستان میں کانگریس، انگریزوں کی بنائی شرفا اور نظام کی باقیات کو توڑ رہے تھے، اس کے برعکس ہم یہاں پاکستان میں اس کو جوڑ رہے تھے۔ اس لیے ہمیشہ آمریتوں کے لیے یہاں بھرپور انفرا اسٹرکچر رہا۔ شب خون رات کے لبادے میں آتے تھے مگر دن کے اجالے میں مزید مضبوط ہو جاتے تھے۔ جس طرح کرکٹ میں کہا جاتا ہے کہ یہ ''بیٹنگ پچ ہے'' یعنی بیٹسمین کے لیے ہموار ہے۔

اسی طرح پاکستان کی سیاسی پچ بھی آمریتوں کے لیے ہمیشہ ہموار رہی ہے۔ جب براہ راست شب خون مارنا ممکن نہ ٹھہرا تو آمروں کے نوازے ہوئے خوش نہ تھے، انھیں اپنے کام سیدھے کرنے کے لیے غیرقانونی ہتھکنڈے استعمال کرنے پڑتے تھے اور یہ سارے کام تب ہی ممکن تھے جب شفافیت کا عمل ہی شفاف نہ ہو۔یعنی ان کے غیر قانونی دھندے کو قانونی بنانے لیے اپنے بندے چاہیے ہوتے ہیں۔

آمروں نے ہائبرڈ جمہوریتوں کے ذریعے ملک کا سیاسی، سماجی اور معاشی ڈھانچہ ہی بگاڑ دیا اور ایسا بگاڑا ہے کہ خود بانی پاکستان بھی اس ملک میں اجنبی ہیں۔

اب اس ملک میں کمزور ادارے ہیں، کمزور پارلیمنٹ، کمزور عدلیہ، کمزور مقننہ اور کمزور افواج جس کے ریٹائرڈ افسروں اور ان کی غیرملکی شہریت کی حامل اولادوں کو بھی جرأت ہوئی کہ وہ خود اپنے اداروں کے خلاف سازش کریں، جب ادارے کی قیادت مخصوص بیانیہ پر چلنے سے انکار کرے،جس بیانئے کی بدولت ان لوگوں نے ریاست کے وسائل کو اپنے خاندانوں میں مفت بانٹ اور عیش عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں اور عوام پر اپنے عہدوں اور دولت کی بنا پر حکومت کرتے آرہے ہیں۔ اب مارکیٹ فورسز بھی جواب دے گئی ہیں۔


جو جمہوریت آئی وہ بھی آمریت کی پیداوار تھی۔ ہمارا سماجی ارتقاء بھرپور نہ تھا، ان کے ساتھ دانشور، وکیل، مزدور یوں کہیں مگر خود جن مخصوص جاگیرداروں کی جدی پشتی بنی نشستوں سے بحیثیت پارٹی وہ جیت کے آئے تو تھے مگر انھی لوگوں کے منحرف ہونے سے ٹوٹ پھوٹ ہوئی، ہم نے دیکھا کہ ایک ہی رات میں استحکام پارٹی بنتی ہے اور اور ایک ہی رات پی ٹی آئی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی ہے۔ یہ کنگز پارٹیز کا نصیب ہوتا ہے۔ ایک طرف تو خود جمہوری پارٹیوں کا بھی ہم نے حشر سے نشر ہوتے دیکھا ہے۔ سیاسی انتشار اور گھیراؤ جلاؤ نے ہماری معیشت یا مارکیٹ فورسز کی جڑوں میں بیٹھ چکا ہے۔

ہم مانیں یا نہ مانیں ہم اس وقت تعمیر نو کے مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔ ایک ایسا عمل جو خانہ جنگی یا کسی زلزلے کے بعد ظہور پذیر ہوتا ہے۔ یہ عمل اس لیے بھی کٹھن ہے کہ ہمیں اس تعمیر نو کے دور میں بیرونی قرضہ جات کی ادائیگی بھی کرنی ہے لگ بھگ دس ارب ڈالر کے قریب۔ ہمارے بیرونی قرضوں کے ذخائر مشکل سے چار ارب ڈالر جتنے رہ پاتے ہیں جو ہماری ڈیڑھ ماہ کی درآمدات کے لیے کافی نہیں۔ لیکن خوش آیند بات یہ ہے کہ ہم کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے کو سرپلس کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں اپنی صنعتوں کو بند کرنا پڑ رہا ہے جس کا انحصار خام مال یا دیگر برآمدات پر تھا۔ جس کے نتیجے میں سیکڑوں لوگوں کے بیروزگار ہونے کا خطرہ ہے۔

یوں کہیے کہ ہماری معیشت جو گلوبل حقیقتوں پر آگے چل رہی تھی وہ اب ایک نٹشل میں ہے۔ اس ملک کا ایک اور بڑا بحران! ہمارے آنے والے چیف جسٹس کا اعلان ہو چکا ہے، یہ ایک بہت خوش آیند عمل ہے ۔ ہماری افواج بھی اس وقت اس ملک کی تعمیر نو کے مرحلے اور اس کے زمینی حقائق کو محسوس کر رہی ہے۔ اسی دوران الیکشن بھی آنے والے ہیں، اگلے چند ماہ میں، الیکشن کا نظام شفاف ہونا لازمی ہے اور اس وقت ملک کی دو بڑی جماعتوں میں ٹکراؤ کے عمل سے اجتناب کرنا ہوگا۔

ہمارے لیے مشکلات آئی ایم ایف نے پیدا کی ہیں اور اس کے بغیر پاکستان کی بقا بھی ایک سوالیہ نشان ہے؟ یہ امر بھی اب امریکا کی صوابدید پر ہے، امریکا کو یہ سمجھنا ہوگا کہ پاکستان اس وقت جس معاشی بحران میں ہے یا جس طرح سے پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کیا گیا ہے، یہ مغربی مفادات کے حق میں بھی نہیں۔ اور اسی طرح سے چین کو بھی یہ سمجھنا ہوگا کہ ہمیں دونوں سپر طاقتوں کے درمیان پالیسی میں توازن پیدا کرنا پڑے گا جو ہمارے جیسے ملک کی بقا کے لیے بہت ضروری ہے۔

خان صاحب کے سیاسی مستقبل کا قصہ تمام ہوا اور ان کے ساتھ ان کے ہینڈلرز بھی۔ لیکن یہ بھی مسئلے کا حل نہیں ہمیں اس پورے بیانیے سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے جو آمروں کی پیداوار ہے۔ ہمیں واپس لوٹنا پڑے گا۔ اس بیانیہ کی طرف جو یہاں کے مقامی لوگوں نے بنایا تھا۔

حملہ آوروں کے خلاف، انتہا پرستی کے خلاف۔ ہمارے ہیروز محمود غزنوی، شہاب الدین غوری، بابر، نادر شاہ افشاریا احمدشاہ ابدالی نہیں ہیں بلکہ رائے عبداﷲ بھٹی( دلا بھٹی) بابا بھلے شاہ ہیں، سلطان باہو' ہیں ، بابا فرید ہیں، شاہ لطیف بھٹائی ہیں، شاہ عنایت ہیں، سچل سرمست ہیں، ماروی ہے، خوشحال خٹک ہیں، رحمان بابا،حمزہ شنواری ہیں، جوانسال بگٹی ہیں جب کہ ریاست کا آئین قائد اعظم کی گیارہ اگست کی تقریر ہے!
Load Next Story