قدرتی آفات سے فصلوں کا نقصان سیکڑوں کسان آج بھی معاوضے کے منتظر

گزشتہ 6 برسوں میں 22 لاکھ 87 ہزار559 کسانوں کو رجسٹرڈ کیا گیا

فوٹو فائل

پنجاب حکومت نے قدرتی آفات کے باعث فصلوں کو پہنچنے والے نقصانات کے ازالے کے لیے 2017 میں مخصوص فصلوں کے بیمہ کی پالیسی منظور کی تھی جس کے تحت گزشتہ 6 برسوں میں 22 لاکھ 87 ہزار559 کسانوں کو رجسٹرڈ کیا گیا اور ابتک کسانوں کو 1390 ملین روپے کی رقم ازالے کے طور پر دی جا چکی ہے تاہم بعض تکنیکی وجوہات کی بنا پر ہزاروں کسان ایسے ہیں جن کو فصلوں کے نقصان پر کوئی معاوضہ نہیں مل سکا ہے۔

رحیم یارخان کی نواحی بستی کریم آباد کے رہائشی سلامت علی کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس تیز بارشوں، آندھی اور ژالہ باری سے میری 8 ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوگئی تھیں۔ فصلوں کو شدید نقصان پہنچا، میرے لئے یہ ایک مشکل لمحہ تھا ،مجھے امید تھی کہ محکمہ زراعت کی طرف سے انہیں کوئی معاوضہ مل جائیگا لیکن ایک سال گزرگیا ان سمیت دیگرکاشتکاروں کو ایک پائی تک نہیں ملی ہے۔

سلامت علی نے بتایا کہ بارشوں اور ژالہ باری سے کئی کسانوں کی فصلوں کو نقصان پہنچا تھا لیکن کسی کو بھی کوئی معاوضہ نہیں ملا ہے۔ حالانکہ ان لوگوں نے اپنی فصلوں کی رجسٹریشن کروائی تھی۔

ڈائریکٹر جنرل کراپ رپورٹنگ سروس پنجاب ڈاکٹر عبدالقیوم نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ ''یہ ایک گروپ انشورنس ہے۔ اگر کسی ضلعی مرکز، تحصیل یا یونین کونسل میں فصل کی پیداوار پچھلے دس سال کی اوسط پیداوار سے 10 تا 20 فیصد کم رہے تو وہاں کے تمام بیمہ شدہ کسانوں کو برابر معاوضہ دیا جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اگر گندم اور چاول کی فصل 10 فیصد اور کپاس کی فصل 20 فیصد سے زیادہ متاثر ہو تو کسانوں کو معاوضہ دے دیا جاتا ہے۔ اس کے لیے کسانوں کا ہر فصل کی کاشت سے پہلے محکمہ زراعت کے علاقائی دفتر میں اپنی رجسٹریشن کرانا ضروری ہے۔ اس سکیم کے تحت پانچ ایکڑ سے کم رقبے والے کسانوں کی انشورنس کا 100 فیصد پریمیم اور پانچ سے 25 ایکڑ تک رقبے کا 50 فیصد پریمیم حکومت خود ادا کرتی ہے۔


کراپ رپورٹنگ سروس پنجاب کے حکام کے مطابق گزشتہ 6 برسوں میں 22 لاکھ 87 ہزار559 کسانوں کو رجسٹرڈ کیا گیا اور ابتک کسانوں کو 1390 ملین روپے کی رقم ادا کی گئی ہے جبکہ گزشتہ سال سیلاب سے متاثرہ کسانوں کو 746 ملین روپے کی رقم ادا کی گئی ہے۔ رجسٹرڈ کسانوں کو معاوضہ کی رقم ڈیجیٹل ٹرانسفر کے ذریعے کی جاتی ہے جس میں رجسٹرڈ فون نمبر اور بائیو میٹرک کا ہونا لازمی ہے۔ رجسٹرڈ کسان کے فون نمبر پر تصدیقی کوڈ سینڈ کیا جاتا ہے، اس کوڈ کی مدد سے کسان کسی بھی ڈیجیٹل ٹرانسفر ایجنٹ کے پاس جاکر رقم وصول کرسکتا ہے۔

حکام نے یہ بھی بتایا کہ اگر کسی فارمرکو بائیومیٹرک کی تصدیق نہ ہونے یا پھر موبائل نمبر کا مسئلہ ہو تو یہ رقم بینک میں رہتی ہے اور مخصوص عرصے کے بعد واپس حکومت کو مل جاتی ہے۔

ایکسپریس ٹربیون نے رحیم یارخان اور ڈی جی خان کے رجسٹرڈ کسانوں کا ڈیٹا حاصل کرکے اس میں سے 100 کے قریب کاشتکاروں سے رابطہ اورمعلومات لینے کی کوشش کی تاہم لسٹ میں موجود 48 فیصد فون نمبر کسی دوسرے شخص کے استعمال میں تھے یا پھر وہ فون نمبر بند تھے۔

43 فیصد کسانوں کا کہنا تھا کہ ان کی فصلیں ژالہ باری سے تباہ ہوئیں مگر انہیں کوئی معاوضہ نہیں ملا جبکہ 9 فیصد نے تصدیق کی کہ انہیں حکومت کی طرف سے معاوضہ دیا گیا ہے۔

ایکسپریس ٹربیون کی تحقیق کے مطابق بعض کسانوں کو فصلوں کے نقصان کے ازالہ کی رقم نہ ملنے کی وجہ یہ بھی ہے کہ کراپ رپورٹنگ کے ریکارڈ میں موجود فون نمبر غلط ہیں۔ ایک ہی علاقہ کے بعض کاشتکاروں نے ریکارڈ میں اپنے کسی رشتہ دار کا نمبر لکھوایا ہے اس وجہ سے کئی کسانوں کے فون نمبر ایک ہی لکھے گئے ہیں جبکہ بعض فون نمبر ایسے افراد کے ہیں جو ملک کے دوسرے اضلاع میں رہتے ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ ان کا نمبر اس فہرست میں کیسے اورکس نے درج کروایا ہے۔

پراگریسو فارمر عامر حیات بھنڈارا کہتے ہیں کہ فصلوں کی بیمہ سازی کا پروگرام تو بہترین ہے لیکن اس میں ابھی تک کئی خامیاں ہیں۔ انہوں نے مثال دی کہ گزشتہ برس ساہیوال اور چیچہ وطنی میں کپاس کی فصل کو کافی نقصان پہنچا تھا لیکن حکومت نے چھوٹے کسان جن کے پانچ ایکڑ سے کم رقبہ ہے انہیں کوئی معاوضہ نہیں دیا، حالانکہ چاہیے تو یہ کہ حکومت تمام وہ کسان جن کا نقصان ہوا ہے ان کو کمپنیوں سے معاوضہ دلوائے لیکن حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ جب تک پوری تحصیل کو آفت زدہ ڈکلیئرنہ کیا جائے معاوضہ نہیں ملتا ہے۔
Load Next Story