پرومیتھیوز کے خطوط
آج ہمارا دیس جن آزاروں میں مبتلا ہے، ان کی تعداد یقیناً چالیس نہیں ہوگی، اس سے کچھ زیادہ ہی ہوگی
چیئرمین سینیٹ کی مراعات کے بل سے مجھے آغا اقرار ہارون کی یاد آئی۔ آغا اقرار صحافی ہیں اور لاہوریے۔ بات یہیں رک نہیں جاتی۔ تاریخ صحافت پڑھتے ہوئے پیسہ اخبار کا ذکر نہ آئے۔ یہ ممکن نہیں۔
انار کلی بازار کی پیسہ اخبار اسٹریٹ دیکھ رکھی تھی، اس لیے استاد مکرم پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود نے جب اس اخبار کا ذکر چھیڑا تو اس میں میری دل چسپی ساتھیوں سے بڑھ کر تھی۔ دلچسپی کی وجہ انار کلی بازار کی بھید بھری گلیاں بھی ہو سکتی ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ اخبار کے اس نام میں بڑی کشش تھی۔ کسی زمانے میں؛ میں سوچا کرتا تھا کہ کسی اخبار کا نام''اخبار''بھی تو ہونا چاہیے۔
یوں اخبار مانگنے والوں کو اخبار مل جائے۔ یہ '' پیسہ اخبار '' بھی اسی قسم کا نام تھا۔ تو بات یہ ہے کہ ہمارے آغا اقرار اسی پیسہ اخبار کے بانی منشی محبوب عالم مرحوم کے خاندان سے ہیں، یوں سمجھ لیجیے کہ پڑنواسے یا لکڑ نواسے وغیرہ ہوں گے۔
منشی محبوب عالم کیا تھے؟ یہ سمجھنے کے لیے موجودہ دور سے ہمیں شاید کوئی ایک مثال بھی میسر نہ آسکے۔ ماضی سے مثال مل سکتی ہے جیسے عنایت اللہ مرحوم ۔ ایک پیسے کی قیمت میں ملنے والا یہ اخبار 1887 میں جاری ہوا، اس زمانے میں اس کے صفحات کی تعداد آٹھ تھی۔
ان آٹھ صفحات کی اہمیت کیا ہے؟ سن ساٹھ اور ستر کی دہائی میں پاکستان میں شایع ہونے والے بعض بڑے اخبارات کے صفحات کی تعداد چھ اور بعض کی چار ہوا کرتی تھی۔
استاد محترم نے بتایا کہ منشی صاحب مرحوم بڑے زرخیز ذہن کے مالک تھے، نئے نئے تجربات کیا کرتے اور قارئین کی دل چسپی کو مد نظر رکھتے ہوئے اخبار میں نئے موضوعات بھی متعارف کراتے۔ یہ منشی محبوب عالم ہی تھے جنھوں نے سب سے پہلے بچوں کا اخبار شایع کیا پھر خواتین کا۔ پیسہ اخبار پر اگر ڈھنگ سے کوئی تحقیق ہو جائے تو لوگوں کی سمجھ میں آئے کہ اخبار نکالا کیسے جاتا ہے اور چلایا کیسے جاتا ہے۔
اصل میں کہنا یہ ہے کہ آغا اقرار یعنی ہمارے اس دوست نے کئی زمانے بیت جانے کے بعد ایک بار پھر اسی طرح کا ایک کام کر ڈالا ہے جیسے کام ان کے بزرگ منشی صاحب مرحوم کیا کرتے تھے۔ آغا اقرار نے ایک کتاب لکھی ہے:
'How Does Superclass Rule Nations? A Case Study from Pakistan'
کتاب کا نام جناتی ہے لیکن اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ ناموں کا معاملہ عجیب ہوتا ہے ، ہم لوگ زیادہ سے زیادہ وضاحت کے چکر میں کبھی کبھی اسے مشکل بھی بنا دیتے ہیں جیسے آ کیس اسٹڈی فرام پاکستان جیسے الفاظ سے لگتا ہے کہ جیسے یہ ایم فل پی ایچ ڈی کا کوئی مقالہ ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ آغا اقرار نے تحقیق نہیں کی، بالکل کی ہے لیکن مقالہ لکھنے والے محقق اور ادیب کی تحقیق میں زمیں آسمان کا فرق ہوتا ہے۔
مختار مسعود میناروں پر تحقیق کریں تو سنگ و خشت کی عمارات کا تذکرہ، نظریات کے تڑکے کے ساتھ تحریر کو ادب عالیہ کے منصب پر فائز کر دیتا ہے۔ کچھ ایسا معاملہ ہی آغا اقرار کا بھی ہے، اچھا ہوتا کہ وہ اتنا جناتی نام رکھنے کے بجائے اختصار سے کام لیتے اور کتاب کا نام رکھتے: ''پرومیتھیوز کے خطوط ۔''
یہ پرومیتھیوز کون تھا؟ ممکن ہے کہ ہمارے جیسے اردو میڈیم نہ جانتے ہوں لیکن صاحبان مطالعہ جانتے ہیں کہ یہ یونانی مائیتھالوجی کا ایک بڑا دلچسپ کردار ہے جو روشنی چرانے کے '' جرم'' پر فخر کیا کرتا اور اپنے سماج کے اندھیروں میں دیا جلا کر اپنے حصے کا فرض ادا کیا کرتا۔ آغا نے بھی یہی کام کیا ہے لیکن روشنی چرانے والے پرومیتھیوز کے قلم سے۔
مرحوم و مغفور عارف نظامی نے پاکستان ٹوڈے نکالا تو ان کی نگاہ میں اس وقت کا یہ نوجوان بھی آیا اور انھوں نے اس سے کہا کہ یار، یہ اخبار تمھارا ہے، تم اس میں لکھو اور کھل کر لکھو۔ یہ بات نوجوان کے دل میں ترازو ہو گئی اور اس نے سوچا کہ اگر عارف نظامی جیسا شخص ان پر اعتماد کر رہا ہے تو پھر کچھ ایسا کام کرنا چاہیے جس پر انھیں بھی فخر ہو اور وہ خودبھی اطمینان محسوس کر سکیں۔
اقرار کے ذہن میں پیدا ہونے والی یہ کشمکش دراصل ایک تحقیقی صحافی اور ادیب کا ذہن لے کر پیدا ہونے والے شخص کے درمیان تھی۔ اس کشمکش کا فایدہ یہ ہوا کہ ایک ایسی تحریر وجود میں آ گئی جسے صحافت کے پیمانے پر پرکھیں تو یہ ایک سنجیدہ صحافی کی تحقیق ہے اور اگر ادیب کی نگاہ سے دیکھیں تو سیدھا سیدھا ادب ہے۔اگر یہ گنتی کا معاملہ ہو تو کہا جاسکتا ہے، اقرار اپنے دامن میں اس وقت چالیس سچائیاں چھپائے بیٹھے ہیں۔
ان میں ایک سچائی تو وہی ہے جس کا ذکر ابتدا میں ہوا یعنی سینیٹروں یا عوامی نمایندوں کی مراعات۔ اقرار نے جب کبھی اس موضوع پر لکھا ہو گا، یقیناً ہمارے عوامی نمایندوں نے اپنی مراعات میں اضافے میں اسی قسم کی کوئی حماقت کی ہوگی جیسی اب چیئرمین سینیٹ کی مراعات میں اضافے کے ضمن میں ہوئی ہے۔
اس پر اقرار کے ذہن میں یہ الجھن پیدا ہوئی کہ یہ درست ہے کہ عوامی نمایندے اگر اپنی مصروفیات اور کاروبار کو چھوڑ چھاڑ کر ایوان نمایندگان میں بیٹھ کر قوم کی خدمت کرتے ہیں اور قوم ان کے گزر بسر کا انتظام کرتی ہے تو اس میں کوئی بری بات نہیں لیکن یہ بھی تو جاننا چاہیے کہ ماضی میں ایسی کیا روایت رہی ہے؟ اس پر پرومیتھیوز نے انھیں جو خط لکھا، حیرت انگیز تھا۔ اس نے بتایا کہ یونانی سینیٹر مختلف لوگ تھے، وہ اپنے اخراجات کا بوجھ اپنی قوم پر نہیں ڈالتے تھے بلکہ وہ اپنی دولت سے قوم کی زندگی کو آسان بناتے تھے۔
یہ کتاب ہمیں صرف یہی ایک کہانی نہیں سناتی، بے شمار کہانیاں سناتی ہے۔ ہم ان دنوں gated سوسائٹیوں کے فریب میں مبتلا ہیں۔ gated سوسائٹی کے ساتھ ایک علت جدید ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی بھی ہمارے یہاں پیدا ہوئی، یہ بھی ایک نفسیاتی اور اقتصادی رجحان ہے۔
اس رجحان نے ماضی میں کیا جوسو کیا لیکن آج کی حقیقت یہ ہے کہ یہ عارضہ ہماری 47 فیصد زرعی اراضی کھا چکا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، ، زرعی اراضی کو سنگ و خشت کے جہان میں بدل کر ہم کیسے خوش حال بن سکتے ہیں؟ یہ کہانی بھی اقرار نے اپنے کردار کی زبانی ہمیں سنا دی ہے۔
آج ہمارا دیس جن آزاروں میں مبتلا ہے، ان کی تعداد یقیناً چالیس نہیں ہوگی، اس سے کچھ زیادہ ہی ہوگی لیکن جاننے کو یہ چالیس کہانیاں بھی بہت ہیں جن کے بارے میں اقرار کے استاد غلام باغ والے مرزا اطہر بیگ کا کہنا ہے کہ یار، تم نے پچاس ہزار الفاظ میں عجب کمال کر ڈالا ہے۔
آغا اقرار کا یہ کمال انگریزی میں ہے اور نیٹ پر دستیاب ہے جسے طلب ہے، وہ کنوئیں پر جا پہنچے اور پیاس بجھالے لیکن میں نے مصنف سے کہہ دیا ہے کہ اگر تم نے اس کتاب کا اردو ترجمہ نہ کیا اور کتابی شکل میں بھی اشاعت کا اہتمام بھی نہ کیا تو میری نظر میں یہ جرم قابل دست اندازی پولیس ہوگا۔
انار کلی بازار کی پیسہ اخبار اسٹریٹ دیکھ رکھی تھی، اس لیے استاد مکرم پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود نے جب اس اخبار کا ذکر چھیڑا تو اس میں میری دل چسپی ساتھیوں سے بڑھ کر تھی۔ دلچسپی کی وجہ انار کلی بازار کی بھید بھری گلیاں بھی ہو سکتی ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ اخبار کے اس نام میں بڑی کشش تھی۔ کسی زمانے میں؛ میں سوچا کرتا تھا کہ کسی اخبار کا نام''اخبار''بھی تو ہونا چاہیے۔
یوں اخبار مانگنے والوں کو اخبار مل جائے۔ یہ '' پیسہ اخبار '' بھی اسی قسم کا نام تھا۔ تو بات یہ ہے کہ ہمارے آغا اقرار اسی پیسہ اخبار کے بانی منشی محبوب عالم مرحوم کے خاندان سے ہیں، یوں سمجھ لیجیے کہ پڑنواسے یا لکڑ نواسے وغیرہ ہوں گے۔
منشی محبوب عالم کیا تھے؟ یہ سمجھنے کے لیے موجودہ دور سے ہمیں شاید کوئی ایک مثال بھی میسر نہ آسکے۔ ماضی سے مثال مل سکتی ہے جیسے عنایت اللہ مرحوم ۔ ایک پیسے کی قیمت میں ملنے والا یہ اخبار 1887 میں جاری ہوا، اس زمانے میں اس کے صفحات کی تعداد آٹھ تھی۔
ان آٹھ صفحات کی اہمیت کیا ہے؟ سن ساٹھ اور ستر کی دہائی میں پاکستان میں شایع ہونے والے بعض بڑے اخبارات کے صفحات کی تعداد چھ اور بعض کی چار ہوا کرتی تھی۔
استاد محترم نے بتایا کہ منشی صاحب مرحوم بڑے زرخیز ذہن کے مالک تھے، نئے نئے تجربات کیا کرتے اور قارئین کی دل چسپی کو مد نظر رکھتے ہوئے اخبار میں نئے موضوعات بھی متعارف کراتے۔ یہ منشی محبوب عالم ہی تھے جنھوں نے سب سے پہلے بچوں کا اخبار شایع کیا پھر خواتین کا۔ پیسہ اخبار پر اگر ڈھنگ سے کوئی تحقیق ہو جائے تو لوگوں کی سمجھ میں آئے کہ اخبار نکالا کیسے جاتا ہے اور چلایا کیسے جاتا ہے۔
اصل میں کہنا یہ ہے کہ آغا اقرار یعنی ہمارے اس دوست نے کئی زمانے بیت جانے کے بعد ایک بار پھر اسی طرح کا ایک کام کر ڈالا ہے جیسے کام ان کے بزرگ منشی صاحب مرحوم کیا کرتے تھے۔ آغا اقرار نے ایک کتاب لکھی ہے:
'How Does Superclass Rule Nations? A Case Study from Pakistan'
کتاب کا نام جناتی ہے لیکن اس سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ ناموں کا معاملہ عجیب ہوتا ہے ، ہم لوگ زیادہ سے زیادہ وضاحت کے چکر میں کبھی کبھی اسے مشکل بھی بنا دیتے ہیں جیسے آ کیس اسٹڈی فرام پاکستان جیسے الفاظ سے لگتا ہے کہ جیسے یہ ایم فل پی ایچ ڈی کا کوئی مقالہ ہو۔ ایسا نہیں ہے کہ آغا اقرار نے تحقیق نہیں کی، بالکل کی ہے لیکن مقالہ لکھنے والے محقق اور ادیب کی تحقیق میں زمیں آسمان کا فرق ہوتا ہے۔
مختار مسعود میناروں پر تحقیق کریں تو سنگ و خشت کی عمارات کا تذکرہ، نظریات کے تڑکے کے ساتھ تحریر کو ادب عالیہ کے منصب پر فائز کر دیتا ہے۔ کچھ ایسا معاملہ ہی آغا اقرار کا بھی ہے، اچھا ہوتا کہ وہ اتنا جناتی نام رکھنے کے بجائے اختصار سے کام لیتے اور کتاب کا نام رکھتے: ''پرومیتھیوز کے خطوط ۔''
یہ پرومیتھیوز کون تھا؟ ممکن ہے کہ ہمارے جیسے اردو میڈیم نہ جانتے ہوں لیکن صاحبان مطالعہ جانتے ہیں کہ یہ یونانی مائیتھالوجی کا ایک بڑا دلچسپ کردار ہے جو روشنی چرانے کے '' جرم'' پر فخر کیا کرتا اور اپنے سماج کے اندھیروں میں دیا جلا کر اپنے حصے کا فرض ادا کیا کرتا۔ آغا نے بھی یہی کام کیا ہے لیکن روشنی چرانے والے پرومیتھیوز کے قلم سے۔
مرحوم و مغفور عارف نظامی نے پاکستان ٹوڈے نکالا تو ان کی نگاہ میں اس وقت کا یہ نوجوان بھی آیا اور انھوں نے اس سے کہا کہ یار، یہ اخبار تمھارا ہے، تم اس میں لکھو اور کھل کر لکھو۔ یہ بات نوجوان کے دل میں ترازو ہو گئی اور اس نے سوچا کہ اگر عارف نظامی جیسا شخص ان پر اعتماد کر رہا ہے تو پھر کچھ ایسا کام کرنا چاہیے جس پر انھیں بھی فخر ہو اور وہ خودبھی اطمینان محسوس کر سکیں۔
اقرار کے ذہن میں پیدا ہونے والی یہ کشمکش دراصل ایک تحقیقی صحافی اور ادیب کا ذہن لے کر پیدا ہونے والے شخص کے درمیان تھی۔ اس کشمکش کا فایدہ یہ ہوا کہ ایک ایسی تحریر وجود میں آ گئی جسے صحافت کے پیمانے پر پرکھیں تو یہ ایک سنجیدہ صحافی کی تحقیق ہے اور اگر ادیب کی نگاہ سے دیکھیں تو سیدھا سیدھا ادب ہے۔اگر یہ گنتی کا معاملہ ہو تو کہا جاسکتا ہے، اقرار اپنے دامن میں اس وقت چالیس سچائیاں چھپائے بیٹھے ہیں۔
ان میں ایک سچائی تو وہی ہے جس کا ذکر ابتدا میں ہوا یعنی سینیٹروں یا عوامی نمایندوں کی مراعات۔ اقرار نے جب کبھی اس موضوع پر لکھا ہو گا، یقیناً ہمارے عوامی نمایندوں نے اپنی مراعات میں اضافے میں اسی قسم کی کوئی حماقت کی ہوگی جیسی اب چیئرمین سینیٹ کی مراعات میں اضافے کے ضمن میں ہوئی ہے۔
اس پر اقرار کے ذہن میں یہ الجھن پیدا ہوئی کہ یہ درست ہے کہ عوامی نمایندے اگر اپنی مصروفیات اور کاروبار کو چھوڑ چھاڑ کر ایوان نمایندگان میں بیٹھ کر قوم کی خدمت کرتے ہیں اور قوم ان کے گزر بسر کا انتظام کرتی ہے تو اس میں کوئی بری بات نہیں لیکن یہ بھی تو جاننا چاہیے کہ ماضی میں ایسی کیا روایت رہی ہے؟ اس پر پرومیتھیوز نے انھیں جو خط لکھا، حیرت انگیز تھا۔ اس نے بتایا کہ یونانی سینیٹر مختلف لوگ تھے، وہ اپنے اخراجات کا بوجھ اپنی قوم پر نہیں ڈالتے تھے بلکہ وہ اپنی دولت سے قوم کی زندگی کو آسان بناتے تھے۔
یہ کتاب ہمیں صرف یہی ایک کہانی نہیں سناتی، بے شمار کہانیاں سناتی ہے۔ ہم ان دنوں gated سوسائٹیوں کے فریب میں مبتلا ہیں۔ gated سوسائٹی کے ساتھ ایک علت جدید ہاؤسنگ سوسائٹیوں کی بھی ہمارے یہاں پیدا ہوئی، یہ بھی ایک نفسیاتی اور اقتصادی رجحان ہے۔
اس رجحان نے ماضی میں کیا جوسو کیا لیکن آج کی حقیقت یہ ہے کہ یہ عارضہ ہماری 47 فیصد زرعی اراضی کھا چکا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، ، زرعی اراضی کو سنگ و خشت کے جہان میں بدل کر ہم کیسے خوش حال بن سکتے ہیں؟ یہ کہانی بھی اقرار نے اپنے کردار کی زبانی ہمیں سنا دی ہے۔
آج ہمارا دیس جن آزاروں میں مبتلا ہے، ان کی تعداد یقیناً چالیس نہیں ہوگی، اس سے کچھ زیادہ ہی ہوگی لیکن جاننے کو یہ چالیس کہانیاں بھی بہت ہیں جن کے بارے میں اقرار کے استاد غلام باغ والے مرزا اطہر بیگ کا کہنا ہے کہ یار، تم نے پچاس ہزار الفاظ میں عجب کمال کر ڈالا ہے۔
آغا اقرار کا یہ کمال انگریزی میں ہے اور نیٹ پر دستیاب ہے جسے طلب ہے، وہ کنوئیں پر جا پہنچے اور پیاس بجھالے لیکن میں نے مصنف سے کہہ دیا ہے کہ اگر تم نے اس کتاب کا اردو ترجمہ نہ کیا اور کتابی شکل میں بھی اشاعت کا اہتمام بھی نہ کیا تو میری نظر میں یہ جرم قابل دست اندازی پولیس ہوگا۔