امریکا چین تنازع اور پاکستان

ہم چکی کے پاٹوں کے بیچوں بیچ پس رہے ہیں پچھلے 52سالوں سے جب پاکستان ٹوٹا تھا


Zamrad Naqvi June 26, 2023
www.facebook.com/shah Naqvi

نیو یارک ٹائمز کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً ڈیڑھ ارب ٹن خوراک زمینی گڑھوں میں دبا دی جاتی ہے۔ ایک ٹن ایک ہزار کلو گرام کے برابر ہوتا ہے۔ اگر اس کو ڈیڑھ ارب ٹن سے ضرب دی جائے تو آپ حیران و پریشان ہو جائیں گے۔

یہ مقدار ایک ٹریلین 524بلین کلو گرام کے قریب پہنچ جاتی ہے۔ اتنی بڑی مقدار میں خوراک کا ضیاع اگر بچا لیا جائے تو دنیا میں کوئی بھی بھوکا نہ رہے۔ لاکھوں لوگ جو بھوک سے مر جاتے ہیں وہ بھی نہ مریں۔ کروڑوں لوگوں کو دنیا بھر میں روزانہ فاقے کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

یہ حقیقت اس چیز کا بھی ثبوت ہے کہ دنیا میں خوراک کی کوئی کمی نہیں۔ مسئلہ صرف اس کی منصفانہ تقسیم کا ہے جس طرح دنیا میں دولت کی کمی نہیں صرف اس کی انسانوں میں منصفانہ تقسیم کی ضرورت ہے۔ یاد رہے کہ سالانہ 4ارب ڈالر کی خوراک صرف پاکستان میں ضایع ہو جاتی ہے روپوں میں اسکو خود ضرب دے لیں۔

پاکستان جہاں نصف کے قریب آبادی خط غربت سے نیچے ہے۔ دوسری طرف کروڑوں لوگ ایک ایک لقمے کو ترس رہے ہیں۔ اس سے بڑا ظلم اور کیا ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں آبادی کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو سال میں ایک مرتبہ گائے خاص طور پر بکرے کا گوشت کھا سکتی ہے۔ وہ بھی عید الاضحی کے موقع پر ۔ یہ لمحہ فکریہ ہے۔

پچھلے 8ہزار سال سے یہی کشمکش چلی آرہی ہے۔وسائل پیداوار دولت اور اقتدار پر قابض گروہوں نے اپنی اجارہ داری کا خاتمہ نہ ہونے دیا۔ انسانوں کو غلام بنانے کا سلسلہ ختم نہ ہو سکا۔ ظالم لوگوں گروہوں کے لیے اس سے زیادہ پر لطف اور فائدہ مند کام کوئی نہیں کہ وہ اپنے جیسے انسانوں کو اپنا غلام بنا لیں۔

عام انسانوں کو تو چھوڑیں ہم میں سے بہت سے پڑھے لکھے بھی یہ سمجھتے ہیں کہ انسانوں کے درمیان آقا غلام کا رشتہ ماضی قدیم میں تھا اب نہیں ہے۔ یہ صرف نظر اور سمجھ کا دھوکا ہے۔ دنیا آج بھی آقا اور غلام کے رشتوں میں بٹی ہوئی ہے۔ جدید زبان میں اسے نیوکلونیل ازم کہتے ہیں۔

برطانیہ فرانس سمیت جتنی یورپی ملکوں کو نو آبادیاں تھیں انھیں بظاہر ایک گہری حکمت عملی کے تحت"آزادی" دے دی گئی کہ اب ممکن نہیں رہا تھا کہ انھیں اپنی فوجوں کے ذریعے غلام رکھا جا سکے۔ چنانچہ ان جیسے انھی پر اسی نسل اور رنگ کے مقامی حکمران مسلط کر دیے گئے۔

اس میں سمجھداری یہ برتی گئی کہ یہ وہ مقامی حکمران تھے جو اپنی دھرتی اور عوام کے غدار تھے۔ لیکن سامراج کے جی جان سے وفادار تھے۔

کیونکہ ان کی بقاء اور مفادات سامراج سے وابستہ ہیں۔ دنیا کے بیشتر ملکوں میں یہ اشرافیہ پائی جاتی ہے۔ جو اپنے ملکوں سے زیادہ عالمی سامراج کی وفادار ہوتی ہے۔ جب بھی سامراجی مفادات کو خطرہ لاحق ہوتا ہے یہ اپنے عوام کو ایسے کچل کر رکھ دیتی ہے کہ وہ مدتوں تک نہیں اٹھ سکتے۔

اب ایک طرف عالمی سامراج ہے جس کا کنٹرول امریکا کے پاس ہے تو دوسری طرف ملکوں کے اندر مقامی سامراج ہے جو امریکا کے ماتحت ہے۔ اب ہم دوہری غلامی کے شکنجے میں ہیں ایک مقامی دوسری عالمی۔ امریکی سامراجی بندوبست بڑا مضبوط ہے۔

اس جال سے نکلنا ناممکن سا ہو گیا ہے۔ خاص طور پر وہ ممالک جہاں کے عوام نظام میں تبدیلی چاہتے ہیں۔ پاکستان کے محل و وقوع نے اسے "جیو پالیٹکس" کا شکار کر دیا ہے۔ اس محل و وقوع سے صرف اشرافیہ نے ہی فائدہ اٹھایا ہے۔

پاکستان اور پاکستانی عوام تو تباہ برباد ہو کر رہ گئے ہیں۔ یہ تباہی صرف معیشت کی نہیں ہوئی بلکہ اداروں کی تباہی پر بھی منتج ہوئی ہے۔ کچھ بھی نہیں بچا ۔ افسوس صد افسوس۔

سابق امریکی سفیر رابن رافیل جن کے شوہر بہاولپور میں طیارہ حادثے میں مارے گئے تھے۔ کہتی ہیں کہ ایران سعودی عرب دوستی کے پس منظر میں پاکستان کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔ یہ بڑی الارمنگ بات ہے۔

ذرا رک کر اس بات پر غور فرمائیں۔ بھارت کو چین کے مقابلے میں ایشیاء کی سب سے بڑی فوجی اور معاشی قوت بناتے ہوئے (افغانستان میں امریکی جنگ کے بعد) پاکستان کو ایک اور خوفناک جنگ میں جھونکا جا سکتا ہے۔ ہماری دنیا کے نقشے پر جغرافیائی پوزیشن ہی ہمارے لیے عذاب بن کر رہ گئی ہے۔

ایک طرف چین دوسری طرف روس تیسری طرف سینٹرل ایشیا ۔ ہم چکی کے پاٹوں کے بیچوں بیچ پس رہے ہیں پچھلے 52سالوں سے جب پاکستان ٹوٹا تھا۔ امریکا کی قیادت میں مغربی عالمی اسٹیبلشمنٹ دنیا پر صدیوں کی بالادستی ہر قیمت پر برقرار رکھنے پر تلی ہوئی ہے جسے چین اور روس سے خطرہ لاحق ہے ۔

ان کے نزدیک چین سے فیصلہ کن جنگ کا وقت آپہنچا ہے، چاہے دنیا تباہ ہی ہو جائے۔ اسے پرواہ نہیں۔پاکستان کا کیا بنے گا ہاتھیوں کی لڑائی میں؟ اس بہانے برصغیر کی تقسیم کا ازالہ بھی ہو جائے گا۔ پاکستان ٹوٹنے کے بعد مغربی پاکستان کو برقرار رکھنا بلاوجہ نہیں تھا۔ یہ تو گریٹ گیم کا حصہ تھا جس کا نتیجہ اب نکلنے والا ہے۔ رہے نام اﷲ کا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں