ہم فقیر ہُوئے ہیں اِن ہی کی دولت سے
اشرافیہ اور ان کی آل اولادوں کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگ رہی
اللہ غریقِ رحمت کرے عبد القادر حسن کو۔ روزنامہ ''ایکسپریس'' کے ذی وقار کالم نگار جناب عبدالقادر حسن مرحوم پاکستان کی بے تحاشہ مراعات یافتہ '' اشرافیہ'' کو اِسی لفظ کے وزن پر ایک خاص لفظ سے یاد کیا کرتے تھے۔
اور ٹھیک ہی لکھا اور کہا کرتے تھے کہ یہ پاکستان کی سرکاری و غیر سرکاری ، حاضر و سابق بے تحاشہ مراعات یافتہ اشرافیہ ہے جو پاکستانی عوام اور محرومیوں کے مارے طبقات کی عسرتوں اور ذلتوں کا موجب بن گئے ہیں۔
پاکستان کی مراعات یافتہ اشرافیہ کی بے جا ضرورتوں کو پورا کرتے کرتے کروڑوں پاکستانی غربتوں اور عسرتوں کے سمندروں میں غرقاب ہو رہے ہیں۔ اور اِس اشرافیہ اور ان کی آل اولادوں کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگ رہی۔
میر تقی میر نے خوب ہی کہا تھا:''امیر زادوں سے دِلّی کے مل نہ تا مقدور/ کہ ہم فقیر ہُوئے ہیں اِنہیں کی دولت سے ۔'' 19جون2023 کو پاکستان کے درجنوں نوجوان محفوظ اور بہتر مستقبل کی تلاش میں دیارِ غیر کے سمندروں میں ڈُوب کر جاں بحق ہو گئے ۔ ہم یہاں بیٹھ کر اُن کی بے بسی و بیکسی کی موت کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے ۔ درجنوں پاکستانی گھرانوں میں قیامت کا سیاہ سوگ پھیلا ہے جن کے نوجوانوں کے لاشے اجنبی سمندروں میں ہمیشہ کے لیے دفن ہو گئے ۔
گونگلوؤں سے مٹی جھاڑتے ہُوئے ہمارے حکمران اب ملک میں یومِ سوگ منا رہے ہیں ۔ قومی پرچم بھی نصف سرنگوں کیا گیا ہے ۔ کچھ سرکاری ادارے پاکستان میں بروئے کار انسانی اسمگلروں کا تعاقب کررہے ہیں ۔ ایف آئی اے بھی پھُرتیاں دکھانے لگی ہے ۔کھوکھلے سرکاری دعوے فضا میں گونج رہے ہیں: ہم انسانی اسمگلروں کے سبھی راستے مسدود کردیں گے ۔
واقعہ مگر یہ ہے کہ ایسے دعوے کوئی حقیقت نہیں رکھتے ۔ انسانی اسمگلرز اُس وقت تک کامیاب ہو ہی نہیں سکتے جب تک ہماری فضائی و ارضی سرحدات پر اِنہیں بعض طاقتوروں کی سہولت کاریاں دستیاب نہ ہوں ۔ ہماری طاقتور ، منہ زور اور بے تحاشہ مراعات یافتہ اشرافیہ اور اُن کی ذُریت نے، اپنے بے تحاشہ مفادات کے تحفظ کے لیے، پاکستان کے اعلیٰ تعلیم یافتہ و ہنر مند نوجوانوں کے لیے اُمیدوں کے سارے چراغ بجھا دیے ہیں ۔
ہر جانب پھیلے یاس کے اندھیروں سے تنگ آ کر معاش کی موہوم روشنی کی تلاش میں ہمارے یہ نوجوان جان ہتھیلی پر رکھ کر ملک سے نکلتے ہیں۔ ہر قسم کے خطرات و خدشات کے باوجود ہمارے یہ مایوس نوجوان ملک سے نکلنے سے باز نہیں آ رہے ۔ باز آئیں بھی کیوں ؟ ان کے لیے پورا ملک اندھیر نگری بن چکا ہے ۔ جب تک ہماری اندھی اور لالچی ہر قسم کی اشرافیہ ملک میںنوجوانوں کے لیے پُر اُمید حالات پیدا نہیں کریں گے۔
انسانی اسمگلنگ بند ہوگی نہ سمندروں میں اموات رُکیں گی ۔مجھ سے ایک دل جلے پاکستانی دوست نے ایک سادہ سا سوال پوچھا ہے :'' 19 جون 2023 کو یونانی سمندر میں جس کشتی میں درجنوں پاکستانی نوجوان ڈُوب کر جانیں کھو بیٹھے ہیں ، کیا اُن میں ہمارے ہر قسم کے حکمران طبقے کا بھی کوئی بیٹا شامل تھا؟اور اگر اِس سوال کا جواب ناں میں ہے تو جان لیجیے کہ پاکستان کے کن طبقات سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی اجنبی سمندروں میں قبریں بن رہی ہیں۔''
یہ مکالمہ سُن کر دل و دماغ پر اُداسی اور افسردگی کا گھنا کہر چھا گیا ہے ۔ اور مَیں سوچ رہا ہُوں کہ اگر پاکستان کی بے تحاشہ مراعات یافتہ اشرافیہ میرے اپنے اعلیٰ تعلیم یافتہ بچوں کا ملک میں مستقبل تاریک بنا ڈالے گی تو کیا انھیں مَیں ملک سے نکلنے سے روک سکوں گا؟ ہر گز نہیں ، خواہ مجھے یا انھیں کسی بھی انسانی اسمگلر کا دامن کیوں نہ پکڑنا پڑے ۔
اعلیٰ تعلیم اور ہنر مندی کے باوصف ہمارے بے سفارش و بے وسائل بچوں پر مراعات یافتہ اشرافیہ سبھی دروازے مقفل کر دے گی تو بیرونِ ملک جانے کے راستے مسدود نہیں کیے جا سکیں گے ۔ ایک مصدقہ خبر کے مطابق پچھلے ایک برس کے دوران( جب سے وزیر اعظم شہباز شریف کی اتحادی حکومت آئی ہے ) پاکستان سے آٹھ لاکھ افراد بیرونِ ملک چلے گئے ہیں۔
موجودہ اور سابقہ حکمرانوں نے حالات اتنے ترش اور تاریک بنا دیے ہیں کہ ایک تازہ ترین سروے کے مطابق ، پاکستان کے 87فیصد نوجوان اِس ملک سے بھاگنے کے متمنی ہیں ۔مزید ستم کی بات یہ ہے کہ حکومت اِن نوجوانوں کو ملک سے بھی نہیں نکلنے دینا چاہتی ہے اور جب یہ بیرونِ ملک چلے جاتے ہیں تو انھی کے بھیجے گئے زرِ مبادلہ کے حصول کی متمنی بھی ہوتی ہے اور انھی پر اپنی عیاشیوں کے سامان بھی کرتی ہے۔
افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ گزشتہ روز ہمارے ایک وفاقی وزیر نے کھلے بندوں اووَرسیز پاکستانیوں کے خلاف قابلِ گرفت دریدہ دہنی کی ہے۔ اور جب اِن پرتنقید میں اضافہ ہُوا تو معافی مانگنے میں بھی اِن صاحب نے ذرا دیر نہ کی ۔
یہ اشرافیہ اس قدر سفاک، میرٹ دشمن اور استحصالی ہو چکی ہے کہ غیر ممالک سے ملنے والے سرکاری وظائف بھی خود ہی ہڑپ کرتے ہُوئے اپنی اولادوں اور عزیزوں میں بانٹ دیتی ہے۔ ایسے میں غریبوں کے بیٹے روزگار کی تلاش میں ملک سے بھی نہ نکلیں؟
ہماری ہر قسم کی مراعات یافتہ اشرافیہ کی بے حسی اور عوام دشمنی کی انتہا دیکھیے کہ جس روز ڈُوبنے والے نوجوانوں کا ملک بھر میں سوگ منایا جارہا تھا، اُسی روز ہماری سینیٹ میں ایسے بلز پیش کیے گئے جن میں سینیٹ کے موجودہ اور سابق چیئرمینوں اور اُن کے خاندانوں کی مراعات میں مزید ہوشربا اضافے کی منظوری دی جارہی تھی۔
یہ بلز خیر سے پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹرز نے پیش کیے ہیں۔ وہی پیپلز پارٹی جو پاکستان کے غریبوں کے غم میں دُبلی ہو رہی ہے ۔ ایسے اُداس اور المناک ماحول میں روزنامہ ''ایکسپریس ٹربیون'' نے(رائٹرز کے فراہم کردہ حقائق کی بنیاد پر) 23جون2023کو ایک تفصیلی رپورٹ بعنوانPakistan,s Economic Meltdown Spurs More people to Risk Lives to Reach Europe شایع کی ہے اور بتایا ہے کہ پاکستان کی شدید مالی بدحالیاں پاکستانی نوجوانوں کو زندگیاں خطرات میں ڈال کر یورپ جانے پر مجبور کررہی ہیں ۔
پاکستان کی350ارب ڈالر کی معیشت بربادی کے آخری کنارے پر ہے ۔ سرکاری زرایع مہنگائی کو39فیصد بتا رہے ہیں ۔ یہ بربادی اور تباہی پاکستان کے تہی دست اور غریب طبقات نے نہیں بلکہ پاکستان کے ہر قسم کے مراعات یافتہ اور نام نہاد اشرافیہ طبقات نے پیدا کی ہے۔
جو حقائق ''رائٹرز'' کو معلوم ہیں ، کیا یہ پاکستان کے اعلیٰ ترین مراعات یافتہ و سرکاری بیوروکریسی سے اوجھل ہیں؟لیکن یہ طبقات اپنے نجی ، خاندانی اور ادارہ جاتی مفادات کے لالچ میں اب بھی اپنے کرتوتوں سے باز نہیں آ رہے۔ ایسے میں مایوس پاکستانی نوجوانوں کی قبریں اجنبی سمندروں میں زیر آب ہی بنیں گی۔ ستم یہ ہے کہ نوحہ کرتی یہ زیر آب قبریں بھی ہمارے مراعات یافتہ طبقات کو خوابِ غفلت سے جگانے میں ناکام ہو رہی ہیں ۔