بات صرف وژن اور روشن خیالی کی ہے
عالمی سیاست میں کسی ایک طاقتور ملک کا آلہ کار بننے کے بجائے سب سے محتاط انداز میں روابط استوارکیے جائیں
ایک دور ایسا بھی آیا تھا جس میں اس ملک کا وزیراعظم جو دیکھنے میں بظاہر بہت ہینڈسم ، ذہین اور نوجوان معلوم ہوتا تھا لیکن اس کی سیاسی بصیرت اور قابلیت شاید اتنی نہ تھی کہ وہ ایک مصائب زدہ ملک اور قوم کو تمام مشکلات سے باہر نکال کر ایک ترقی یافتہ دور میں لا سکے۔
اس نے اقتدار سنبھالتے ہی قومی ترقی و خوشحالی کے جو منصوبے پیش کیے وہ مرغی انڈوں، بھینس،کٹوں اور شیلٹر ہومز اور لنگر خانوں جیسے انہونے منصوبے سے بڑھ کر نہیں تھے اور جن کی اہمیت و افادیت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس جدید دور میں کسی بھی لحاظ سے میل نہیں کھاتی تھی۔
وہ اپنے ان منصوبوں کے اہمیت جتانے کے لیے دور دور کی کوڑیاں بھی لاتا رہا اور خود ان منصوبوں کو چند ماہ سے زیادہ بھی چلا نہ سکا۔ صوبہ پنجاب میں اس کے حکم پر دو تین ماہ تک مرغیاں اور مرغے مفت تقسیم بھی کیے گئے لیکن وہ سب کے سب لوگوں کے پیٹ میں تو چلے گئے لیکن کسی بڑے کامیاب پروجیکٹ کی شکل میں کامیاب ہوتے دکھائی نہیں دیے۔
ایسا ہی حال اس کے لنگر خانوں اور شیلٹر ہومز اورگائے بھینسوں والے پروجیکٹس کا بھی ہوا۔ جدید سائنسی دور میں انڈوں اور مرغیوں سے قوم کی تقدیر بدلنے کے خواب اگر کسی عمر رسیدہ، مخبوط الحواس سیاستدان نے دکھائے ہوتے تو ہم شاید صبر کے گھونٹ پی کے گذارا کر لیتے لیکن خود کو جوان قیادت کے طور پر پیش کرنے والے سیاستدان سے کسی کو بھی ایسی اُمید نہ تھی کہ وہ اس دور میں ایسے منصوبوں سے قوم اور ملک کی تقدیر بدلے گا۔ اس کے چار سالا دور میں ایک منصوبہ بھی ایسا شروع نہ ہوسکا جس سے ترقی وخوشحالی کی کوئی جھلک یا رمق نظر آتی ہو۔
اس کی نسبت پچھتر سالہ سیاستداں آصف علی زرداری کو ہم بہت ہشیار ، ذہین اور صاحب بصیرت سیاستدان سمجھتے ہیں۔ اُن کی باتوں میں وزن اور روشن خیالی کی جھلک واضح طور پر آج بھی دکھائی دیتی ہے، وہ اس ملک کو بہت جلد ترقی یافتہ بنانے کے منصوبوں کے ساتھ آج کل ایک نیا منشور پیش کر رہے ہیں جس کے قابل عمل ہونے کی تدبیریں بھی ساتھ ساتھ وہ بتاتے چلے جاتے ہیں۔ اُن کی ذہانت اور سیاسی بصیرت کے ہم تو پہلے ہی قائل تھے لیکن اقتصادی میدان میں بھی وہ جن باتوں کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں اُن سے اچھائی کی امید کی جاسکتی ہے۔
ٹیکسٹائل کی صنعت کو پروان چڑھا کر زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانا شاید کوئی اتنا مشکل فلسفہ نہیں ہے جو کسی کی سمجھ میں نہ آئے۔ یہی بات وہ بھی کر رہے ہیں۔
اپٹما کے عہدے داروں سے مل کر انھوں نے انھیں جن وعدوں کی یقین دہانی کروائی ہیں، وہ اگر پورے ہو جائیں تو ان سے اس قوم کی قسمت ضرور بدلی جاسکتی ہے۔ انھوں نے سیاست میں بھی جوکہا وہ کر دکھایا ۔ وہ اب اپنے بیٹے بلاول بھٹوکو اس ملک کا وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں اور ایسا کرنا اُن کے لیے کوئی اتنا مشکل اور ناقابل عمل بھی نہیں ہے۔ سیاست میں وہ سب کو ساتھ ملا کر چلنے کے بہت بڑے حامی اور دعویدار بھی رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ نون جو الیکشن کے دنوں میں اُن کی سب سے بڑی حریف سیاسی پارٹی ہوا کرتی ہے لیکن الیکشن کے نتائج آنے کے بعد وہ بھی اُن کی دوستی اور مفاہمت والی سیاست کی اسیر ہو جایا کرتی ہے۔ اسی طرح وہ بلوچستان اور KPK میں بھی تمام پارٹیوں کو ساتھ ملا کر کام کرنے کے خواہاں ہیں۔
آج کل مسلم لیگ نون کے ساتھ ملکر وہ وفاق میں حکومت چلا رہے ہیں۔ اُن کے بیٹے بلاول بھٹو اس حکومت میں وزیر خارجہ کے عہدہ پر فائز ہیں اور اس عہدے کی برکتوں سے فیضیاب ہوتے ہوئے وہ ساری دنیا میں خود کو ایک منجھے ہوئے سیاستدان کے طور پر متعارف بھی کروا رہے ہیں۔ یہ ڈیڑھ سالہ دور حکومت اُن کے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہو چکا ہے اور وہ اب وزیراعظم کے منصب پر فائز ہونے کے قابل بھی ہوچکے ہیں۔
شہباز شریف کے ساتھ اُن کی انڈر اسٹینڈنگ اچھی خاصی ہوچکی ہے اور وہ ایک سے زائد مرتبہ اُن کی تعریف میں تحسین آمیزکلمات بھی کہہ چکے ہیں۔ پچھلے دنوں انھوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ شہباز شریف مسلم لیگ سے زیادہ پیپلزپارٹی کے وزیر اعظم لگتے ہیں۔
آنے والے دنوں میں اگر الیکشن وقت پر ہوگئے، جن کا ہونا اب بڑی حد تک ممکن بھی دکھائی دیتا ہے اور جن کے نتائج کے بارے میں ممکنہ طور پر یہ کہا بھی جاسکتا ہے کہ ان انتخابات کے نتائج کسی ایک پارٹی کے حق میں شاید نہ ہوں اور وفاق میں ایک مخلوط حکومت بنائے جانے کے امکانات دکھائی دیتے ہیں ایسی صورت میں آصف علی زرداری کا جادو اپنا کمال دکھائے گا اور وہ سب کو ساتھ ملا کر بلاول بھٹو کو وزیراعظم بنانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
اس ملک نے سیاسی چپقلش اور محاذ آرائی کی سیاست بہت دیکھ لی ہے اور جس کا نتیجہ خود کش تباہی کے سوا کچھ بھی نہ رہا۔ زمانے اور وقت کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ اب یہ مارکٹائی کا دور ختم ہونا چاہیے اور اس ملک کو تیزی کے ساتھ رہتی دنیا سے جوڑ کر اپنی قوم کے لیے ترقی اور خوشحالی کے باب کھولے جائیں۔
جلد سے جلد ترقی کرکے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھائے جائیں اور کاسہ لیسی اور دریوزہ گری کے اس دور انحطاط سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ ملک کے معدنی ذخائر سے استفادہ کر کے غیر ملکی قرضوں سے نجات حاصل کی جائے ۔
عالمی سیاست میں کسی ایک طاقتور ملک کا آلہ کار بننے کے بجائے سب سے محتاط انداز میں روابط استوارکیے جائیں۔ ایک خود مختار اور آزاد خارجہ پالیسی اپنائی جائے اور دنیا سے بھیک مانگنے کا یہ سلسلہ ختم کیاجائے۔ خودی اور انا کے اقبالی تصورکو پروان چڑھایا جائے اور قوموں کی برادری میں ایک عزت یافتہ مقام حاصل کیا جائے۔ تحریک انصاف کا فیکٹر اب تقریباً غیرفعال ہوچکا ہے، جس تیزی سے اس کی پرورش کی گئی تھی، اسی تیزی سے وہ تنزلی کا شکار ہوچکا ہے۔
کہنے کو اس کا ووٹ بینک ابھی بھی قائم و دائم ہے لیکن دیکھا جائے تو کراچی میں بھی الطاف حسین کا ووٹ بینک پہلے کی طرح قائم اور موجود ہے لیکن اس کا ایسا قائم رہنا کس کام کا۔ آٹھ دس سالوں سے وہ کوئی الیکشن بھی جیت نہ سکا۔ اسی طرح چیئرمین تحریک انصاف کا ووٹ بینک اگلے دس سالوں کے لیے منجمد ہوچکا ہے۔
اس کے بعد ملک کا سیاسی منظر نامہ کیا ہوتا ہے ، یہ کسی کو معلوم بھی نہیں ہے۔ ابھی نیا دور بلاول بھٹو کا ہوگا اور اگر انھوں نے ملک اور قوم کی خدمت کر کے عوام کے دلوں میں جگہ بنالی تو پھر چیئرمین تحریک انصاف کا ووٹ بینک بھی اپنا وجود کھو بیٹھے گا۔
وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ چیئرمین تحریک انصاف نے اپنی اننگ غلط طریقوں سے کھیل کر اور بال ٹمپرنگ کرکے سیاست سے خود کو باہر کر دیا ہے۔ اب اُن کے ہاتھ سے گیم نکل چکی ہے، وہ باقی زندگی صرف سیاست کی رننگ کمنٹری کر کے ہی دل بہلا سکیں گے۔
اس نے اقتدار سنبھالتے ہی قومی ترقی و خوشحالی کے جو منصوبے پیش کیے وہ مرغی انڈوں، بھینس،کٹوں اور شیلٹر ہومز اور لنگر خانوں جیسے انہونے منصوبے سے بڑھ کر نہیں تھے اور جن کی اہمیت و افادیت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس جدید دور میں کسی بھی لحاظ سے میل نہیں کھاتی تھی۔
وہ اپنے ان منصوبوں کے اہمیت جتانے کے لیے دور دور کی کوڑیاں بھی لاتا رہا اور خود ان منصوبوں کو چند ماہ سے زیادہ بھی چلا نہ سکا۔ صوبہ پنجاب میں اس کے حکم پر دو تین ماہ تک مرغیاں اور مرغے مفت تقسیم بھی کیے گئے لیکن وہ سب کے سب لوگوں کے پیٹ میں تو چلے گئے لیکن کسی بڑے کامیاب پروجیکٹ کی شکل میں کامیاب ہوتے دکھائی نہیں دیے۔
ایسا ہی حال اس کے لنگر خانوں اور شیلٹر ہومز اورگائے بھینسوں والے پروجیکٹس کا بھی ہوا۔ جدید سائنسی دور میں انڈوں اور مرغیوں سے قوم کی تقدیر بدلنے کے خواب اگر کسی عمر رسیدہ، مخبوط الحواس سیاستدان نے دکھائے ہوتے تو ہم شاید صبر کے گھونٹ پی کے گذارا کر لیتے لیکن خود کو جوان قیادت کے طور پر پیش کرنے والے سیاستدان سے کسی کو بھی ایسی اُمید نہ تھی کہ وہ اس دور میں ایسے منصوبوں سے قوم اور ملک کی تقدیر بدلے گا۔ اس کے چار سالا دور میں ایک منصوبہ بھی ایسا شروع نہ ہوسکا جس سے ترقی وخوشحالی کی کوئی جھلک یا رمق نظر آتی ہو۔
اس کی نسبت پچھتر سالہ سیاستداں آصف علی زرداری کو ہم بہت ہشیار ، ذہین اور صاحب بصیرت سیاستدان سمجھتے ہیں۔ اُن کی باتوں میں وزن اور روشن خیالی کی جھلک واضح طور پر آج بھی دکھائی دیتی ہے، وہ اس ملک کو بہت جلد ترقی یافتہ بنانے کے منصوبوں کے ساتھ آج کل ایک نیا منشور پیش کر رہے ہیں جس کے قابل عمل ہونے کی تدبیریں بھی ساتھ ساتھ وہ بتاتے چلے جاتے ہیں۔ اُن کی ذہانت اور سیاسی بصیرت کے ہم تو پہلے ہی قائل تھے لیکن اقتصادی میدان میں بھی وہ جن باتوں کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں اُن سے اچھائی کی امید کی جاسکتی ہے۔
ٹیکسٹائل کی صنعت کو پروان چڑھا کر زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانا شاید کوئی اتنا مشکل فلسفہ نہیں ہے جو کسی کی سمجھ میں نہ آئے۔ یہی بات وہ بھی کر رہے ہیں۔
اپٹما کے عہدے داروں سے مل کر انھوں نے انھیں جن وعدوں کی یقین دہانی کروائی ہیں، وہ اگر پورے ہو جائیں تو ان سے اس قوم کی قسمت ضرور بدلی جاسکتی ہے۔ انھوں نے سیاست میں بھی جوکہا وہ کر دکھایا ۔ وہ اب اپنے بیٹے بلاول بھٹوکو اس ملک کا وزیراعظم دیکھنا چاہتے ہیں اور ایسا کرنا اُن کے لیے کوئی اتنا مشکل اور ناقابل عمل بھی نہیں ہے۔ سیاست میں وہ سب کو ساتھ ملا کر چلنے کے بہت بڑے حامی اور دعویدار بھی رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ نون جو الیکشن کے دنوں میں اُن کی سب سے بڑی حریف سیاسی پارٹی ہوا کرتی ہے لیکن الیکشن کے نتائج آنے کے بعد وہ بھی اُن کی دوستی اور مفاہمت والی سیاست کی اسیر ہو جایا کرتی ہے۔ اسی طرح وہ بلوچستان اور KPK میں بھی تمام پارٹیوں کو ساتھ ملا کر کام کرنے کے خواہاں ہیں۔
آج کل مسلم لیگ نون کے ساتھ ملکر وہ وفاق میں حکومت چلا رہے ہیں۔ اُن کے بیٹے بلاول بھٹو اس حکومت میں وزیر خارجہ کے عہدہ پر فائز ہیں اور اس عہدے کی برکتوں سے فیضیاب ہوتے ہوئے وہ ساری دنیا میں خود کو ایک منجھے ہوئے سیاستدان کے طور پر متعارف بھی کروا رہے ہیں۔ یہ ڈیڑھ سالہ دور حکومت اُن کے لیے نعمت غیر مترقبہ ثابت ہو چکا ہے اور وہ اب وزیراعظم کے منصب پر فائز ہونے کے قابل بھی ہوچکے ہیں۔
شہباز شریف کے ساتھ اُن کی انڈر اسٹینڈنگ اچھی خاصی ہوچکی ہے اور وہ ایک سے زائد مرتبہ اُن کی تعریف میں تحسین آمیزکلمات بھی کہہ چکے ہیں۔ پچھلے دنوں انھوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ شہباز شریف مسلم لیگ سے زیادہ پیپلزپارٹی کے وزیر اعظم لگتے ہیں۔
آنے والے دنوں میں اگر الیکشن وقت پر ہوگئے، جن کا ہونا اب بڑی حد تک ممکن بھی دکھائی دیتا ہے اور جن کے نتائج کے بارے میں ممکنہ طور پر یہ کہا بھی جاسکتا ہے کہ ان انتخابات کے نتائج کسی ایک پارٹی کے حق میں شاید نہ ہوں اور وفاق میں ایک مخلوط حکومت بنائے جانے کے امکانات دکھائی دیتے ہیں ایسی صورت میں آصف علی زرداری کا جادو اپنا کمال دکھائے گا اور وہ سب کو ساتھ ملا کر بلاول بھٹو کو وزیراعظم بنانے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔
اس ملک نے سیاسی چپقلش اور محاذ آرائی کی سیاست بہت دیکھ لی ہے اور جس کا نتیجہ خود کش تباہی کے سوا کچھ بھی نہ رہا۔ زمانے اور وقت کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ اب یہ مارکٹائی کا دور ختم ہونا چاہیے اور اس ملک کو تیزی کے ساتھ رہتی دنیا سے جوڑ کر اپنی قوم کے لیے ترقی اور خوشحالی کے باب کھولے جائیں۔
جلد سے جلد ترقی کرکے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھائے جائیں اور کاسہ لیسی اور دریوزہ گری کے اس دور انحطاط سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ ملک کے معدنی ذخائر سے استفادہ کر کے غیر ملکی قرضوں سے نجات حاصل کی جائے ۔
عالمی سیاست میں کسی ایک طاقتور ملک کا آلہ کار بننے کے بجائے سب سے محتاط انداز میں روابط استوارکیے جائیں۔ ایک خود مختار اور آزاد خارجہ پالیسی اپنائی جائے اور دنیا سے بھیک مانگنے کا یہ سلسلہ ختم کیاجائے۔ خودی اور انا کے اقبالی تصورکو پروان چڑھایا جائے اور قوموں کی برادری میں ایک عزت یافتہ مقام حاصل کیا جائے۔ تحریک انصاف کا فیکٹر اب تقریباً غیرفعال ہوچکا ہے، جس تیزی سے اس کی پرورش کی گئی تھی، اسی تیزی سے وہ تنزلی کا شکار ہوچکا ہے۔
کہنے کو اس کا ووٹ بینک ابھی بھی قائم و دائم ہے لیکن دیکھا جائے تو کراچی میں بھی الطاف حسین کا ووٹ بینک پہلے کی طرح قائم اور موجود ہے لیکن اس کا ایسا قائم رہنا کس کام کا۔ آٹھ دس سالوں سے وہ کوئی الیکشن بھی جیت نہ سکا۔ اسی طرح چیئرمین تحریک انصاف کا ووٹ بینک اگلے دس سالوں کے لیے منجمد ہوچکا ہے۔
اس کے بعد ملک کا سیاسی منظر نامہ کیا ہوتا ہے ، یہ کسی کو معلوم بھی نہیں ہے۔ ابھی نیا دور بلاول بھٹو کا ہوگا اور اگر انھوں نے ملک اور قوم کی خدمت کر کے عوام کے دلوں میں جگہ بنالی تو پھر چیئرمین تحریک انصاف کا ووٹ بینک بھی اپنا وجود کھو بیٹھے گا۔
وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ چیئرمین تحریک انصاف نے اپنی اننگ غلط طریقوں سے کھیل کر اور بال ٹمپرنگ کرکے سیاست سے خود کو باہر کر دیا ہے۔ اب اُن کے ہاتھ سے گیم نکل چکی ہے، وہ باقی زندگی صرف سیاست کی رننگ کمنٹری کر کے ہی دل بہلا سکیں گے۔