عید کی یادیں

اب تو عیدیں بالکل بے مزہ اور بے رنگ ہیں، رات بھر جاگتے رہو اور دن بھر سوتے رہو


راضیہ سید June 28, 2023
بچپن کی عیدیں ہمیشہ خوشگوار یاد بن کر دستک دیتی رہتی ہیں۔ (فوٹو: فائل)

میرے ذہن کے پردوں پر بچپن کی عیدیں ہمیشہ خوشگوار یاد بن کر دستک دیتی رہتی ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یادوں کے در پرانے اور بوسیدہ مکانات کے دروازوں کے کواڑ کی طرح چرمرا کر کھلنے لگے ہوں۔ ایسا وقت جب عید واقعی عید ہوا کرتی تھی اور حقیقی معنوں میں اس کی خوشی دل سے محسوس کی جاسکتی تھی۔


مجھے اپنے ننھیال میں گزاری عیدیں اب تک نہیں بھولیں۔ ہم سب بہن بھائیوں کو عید کے آنے کا بہت انتظار رہا کرتا تھا، لیکن اس سے بھی زیادہ منتظر ہمارے ماموں اور خالہ ہوا کرتی تھیں۔ ابو سرپرائز دینے کےلیے ریل کے ٹکٹ پہلے لے آتے تھے اور ہم بچوں کو منہ بسورنے اور کئی مرتبہ رونے کے بعد اصل پروگرام سے آگاہ کیا جاتا تھا۔ امی سب بچوں کے کپڑے گھر پر خود ہی سی لیا کرتی تھیں۔ کبھی گوٹا کناری والے فراک پاجامہ تو کبھی کرتا اور تنگ شلوار، غرارہ، پشواز، امی سبھی گھر پر ہی تیار کرلیتی تھیں۔ حتیٰ کہ چھوٹے بھائی کی نیکر شرٹ بھی باہر سے خریدنے کی ضرورت بھی پیش نہیں آتی تھی۔


اس وقت بوسکی، ٹشو، بروکیڈ والے کپڑوں کی دھوم ہوتی تھی اور زرق برق مہنگے کپڑے پہننے والے بچے خود کو بڑا بابو تصور کرتے تھے۔ ریڈی میڈ ملبوسات کا اتنا رواج نہ تھا۔ ہماری امی ہماری فرمائش پر اپنی بروکیڈ اور شیفون کی ساڑھیوں سے کپڑے تیار کردیا کرتی تھیں۔ جو چچا زاد بہن بھائی ساتھ رہا کرتے تھے کہ کسی طرح ان کو ہمارے کپڑوں کا پہلے سے ہی پتہ لگ جائے، لیکن ہم بھی اپنی ضد کے پورے ہوتے تھے۔ ان کے کپڑے دیکھے بغیر ان کو کبھی اپنے عید کے جوڑے نہیں دکھاتے تھے۔


لاہور جاتے تو اس وقت موٹاپے کا یہ عالم نہ تھا۔ ماموں جان ہمیں ریل گاڑی کے کھلے شیشوں سے پکڑ کر پلیٹ فارم پر اتار لیتے تھے۔ سارے راستے میری بڑی بہن کاپی پینسل تھامے راولپنڈی سے لاہور تک کے تمام اسٹیسشنوں کے نام لکھتی جاتی تھی۔ باقی رہے ہم دونوں بہنیں اور ہم سے چھوٹے دو بھائی، ہمارا زور کھانے پر ہوتا۔ شیزان کی ٹھنڈی ٹھار بوتل، گرما گرم نان پکوڑے اور چپس وغیرہ سب بہت مزیدار لگتے۔


لاہور میں خالہ منتظر ہوتیں، گویا عید سے پہلے ہی عید ہوجاتی۔ بڑی خالہ نے چکن پلاؤ، زردہ، قورمہ، کھیر اور نجانے کیا کچھ بنایا ہوتا۔ اسی دن سے ہماری خاطر مدارت شروع ہوجاتی۔ چھوٹی عید پر ڈھیر سارے سویوں کے ڈونگے تیار ہوتے۔ چھوٹے بچوں کےلیے جوس، چپس، ابلے انڈے، جیلی سب پہلے سے تیار ہوتے تاکہ بچے بھوک محسوس نہ کریں۔ لاہور کی گرمی میں عید کے کپڑے چبھتے بھی لیکن ہم تازہ دم ہی رہتے اور کئی مرتبہ تو کاٹن ملبوسات بھی پہن لیتے۔


بڑے ماموں، منجھلے ماموں سب ہی عیدی دیتے، وہ بھی 50 اور 100 روپے کے کرارے نوٹ، جو ہمیں لاکھوں روپے معلوم ہوتے۔ شام کو ماموں اور خالہ ہمیں پارک لے جاتے۔ ہم شالامار باغ میں خوب پینگیں لیتے اور پھر آئس کریم کھاتے ہوئے واپس ہوتے۔


عید قرباں ابو ہر مرتبہ دھدھیال میں ہی کرتے تھے کیونکہ ہم نے قربانی کرنا ہوتی تھی۔ پیارے پیارے سفید دنبے جب ذبح ہونے لگ جاتے تو سب بچے اداس اور رونے والے ہوجاتے۔ کتنی ہی معصوم آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے اور پھر خود ہی چپ بھی ہوجاتے تھے۔ کیا معصومیت کا دور تھا، جب آنسو بھی خالص ہوتے تھے۔


میری والدہ کے ذمے گوشت کی دھلائی کا کام ہوتا تھا جو کہ بہت زیادہ مقدار میں پراتوں میں ہوتا تھا۔ وہ سارا دن بہت تھک جاتی تھیں۔ بڑے چچا تکے بناتے اور چھوٹے مہمانوں اور بچوں کی خبر گیری کرتے تھے۔


پھوپھو اور تائی، چچی گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹایا کرتی تھیں لیکن قربانی کی عید مجھے اس لیے عجیب لگتی تھی کہ ہر گلی محلے میں جانوروں کی آلائشیں پڑی ہوتی تھیں اور خون بکھرا دکھائی دیتا تھا۔ اس وقت ہم پرانے محلے میں رہا کرتے تھے جو شہر کا اندرون محلہ کہلاتا تھا۔ بچے گلی محلوں میں جانوروں کو لے کر گھوما کرتے تھے اور انھیں اس بات کا کوئی خیال تک نہ ہوتا تھا کہ تنگ گلیوں سے خواتین، بزرگ اور بیمار افراد بھی گزر رہے ہیں۔ ہماری دادی اماں کے گھر کی ڈیوڑھی میں تین چار بکرے بندھے ہوئے ہوتے تھے کیونکہ کئی دفعہ پھوپھو وغیرہ بھی پنڈی میں ہی عید کرتے تھے، سو ان کے قربانی کے جانور بھی وہیں ہوتے تھے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ ڈیوڑھی میں سے ہی گزر کر صحن میں جایا جاسکتا تھا۔ سب بچے بکروں سے بہت ڈرتے تھے، باوجود چھوٹی پھوپھو کے کہنے کہ کچھ نہیں ہوتا میں گزروا دوں گی، ہم سب بچے گلی میں پریشان کھڑے رہتے اور میں تو زور زور سے بھاں بھاں کرنے لگتی۔


قربانی کا دن بھی بہت یادگار ہوتا تھا۔ پرانی بان کی چارپائی پر بکروں کے گوشت کا ڈھیر لگا ہوتا۔ پھوپھو اور امی شاپنگ بیگ یا تھالیوں میں گوشت ڈال کر محلے والوں میں بٹواتی تھی۔ لیکن تمام غریبوں کے گھر میں زیادہ گوشت بھجوایا جاتا تھا کہ ہم تو تقریباً سارا سال ہی کھاتے رہتے ہیں ان کا بھی حق بنتا ہے۔ عیدین کی کون سی ایسی باتیں تھیں جو مجھے اب تک یاد نہیں۔ تیار ہوکر فوٹو اسٹوڈیو جاکر تصویریں بنانا، عید کارڈز خریدنا، لاٹری کھلوانی، پان کھانا اور قلفیاں خریدنا، یہ سب گویا اب کسی خواب کی طرح ہے۔


اب تو عیدیں بالکل بے مزہ اور بے رنگ ہیں۔ رات بھر جاگتے رہو اور دن بھر سوتے رہو۔ عید کارڈرز تو دور رہے، پہلے پہل ایس ایم ایس کیے جاتے تھے اب اس کی جگہ اسٹیٹس لگائے جاتے ہیں۔ زیادہ تر احباب عید مبارک فار آل کا اسٹیٹس لگا کر فرض پورا کرلیتے ہیں کیونکہ آخر لوگ ہمارا اسٹیٹس ہی تو دیکھتے ہیں۔ فون پر بات کرنا سب کےلیے محال ہوتا ہے، کئی لوگوں سے بات کےلیے لائن فری رکھی جاتی ہے اور کہیں رسمی سلام دعا سے ہی کام چلا لیا جاتا ہے۔


حتیٰ کہ ایک گھر میں رہنے والے افراد بھی ایس ایم ایس کا ہی سہارا لیتے ہیں۔ کبھی ملنے چلے جاؤ تو یہی سننے کو ملتا ہے، ارے آپ کو عید مبارک بھجوائی تو تھی۔ اب عید کے کپڑے بھی نئے ہوتے ہیں لیکن نماز میں بھی وہ خلوص نہیں رہا۔ بچوں کو عیدی ہزاروں میں بھی دے دی جائے تو وہ خوش نہیں ہوتے، عیدی بھی اتنی ہی دی جاتی ہے جتنا کوئی دوسرا رشتے دار آپ کو دیتا ہے۔ ٹی وی کے پروگرام بھی بور ہوتے ہیں، اس لیے اکثر افراد عید کے دن بھی موبائل پر پروگرام دیکھتے رہتے ہیں۔ موبائل ہر کسی کے ہاتھ میں نظر آتا ہے، حتیٰ کہ بڑے چھوٹے کی موجودگی کا کوئی لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ نوجوان اگر فون پر مصروف ہوں تو انھیں سوشل میڈیا کے استعمال کا طعنہ دیا جاتا ہے، اگر نوجوان بچوں کے ساتھ بیٹھ جائیں تو یہی سننے کو ملتا ہے کہ بچوں کے ساتھ تم تو بچہ مت بنو، بزرگوں میں رہو تو کہا جاتا ہے کہ آپ کا بڑوں میں کیا کام؟ اب بے چارے نوجوان جائیں تو کہاں جائیں؟


قربانی پر پورا کا پورا بکرا ران روسٹ کرکے کھا لیا جاتا ہے، پائے فلاں کے گھر، سری کسی کو، کھال اپنے فرقے کے مدرسے کو اور تو اور، فقرا اور مساکین کی عید کے دن بھی کوئی شنوائی نہیں ہوتی، تھالی میں رکھی دو بوٹیاں اور ہڈیوں پر مشتمل گوشت انھیں دے دیا جاتا ہے۔ رشتے داروں کے ہاں شاپر بھی سوچ سمجھ کر ہی بھیجے جاتے ہیں۔


کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ عید اب اس لیے بے مزہ ہوگئی کیونکہ ہم نے دل کے بجائے دماغ سے فیصلے شروع کردیے ہیں۔ عمدہ ملبوسات، زیورات اور تمام تر اشیا کے باوجود ہم کیوں اداس ہیں، کیونکہ اب عید اور دل دونوں کی موت ہوگئی ہے۔ رشتے مرگئے ہیں، احساس و مروت اور اخلاقیات ختم ہوگئے ہیں، کیونکہ نہ عید زندہ رہی ہے اور نہ ہی دل۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔


تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں