الحج المبرور
ان شاء اﷲ خود نمائی، ریاکاری اور دکھلاوے وغیرہ سے جان چھوٹ جائے گی
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ (دینِ اسلام میں) کون سا عمل زیادہ بہتر ہے ؟ تو آپؐ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: (دل سے) اﷲ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لانا۔ پھر پوچھا گیا: اس کے بعد کون سا عمل؟ تو آپؐ نے ارشاد فرمایا: اﷲ کی راہ میں جہاد کرنا۔ پھر عرض کیا گیا: اس کے بعد کون سا عمل زیادہ بہتر ہے ؟ تو آپؐ نے ارشاد فرمایا: اس کے بعد حج مبرور۔
(صحیح بخاری، باب فضل الحج المبرور)
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں: میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص اﷲ تعالیٰ (کی رضا اور خوش نُودی کو حاصل کرنے) کے لیے حج کرے اور دوران حج (احرام کی حالت میں) اپنی بیوی کے پاس نہ جائے، بیہودہ باتیں یا لڑائی جھگڑا وغیرہ نہ کرے اور (کبیرہ) گناہوں سے بچتا رہے تو وہ حج کرنے کے بعد (گناہوں سے ایسا پاک صاف ہوجاتا ہے) جیسا کہ وہ اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتے وقت پاک صاف تھا۔
(صحیح بخاری)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا، مفہوم: حج کو آنے والے اور عمرہ ادا کرنے والے اﷲ تعالٰی کے معزز مہمان ہیں، اگر وہ اﷲ تعالٰی سے دعا مانگیں تو اﷲ تعالٰی ان کی دعا قبول فرماتا ہے اور اگر وہ گناہوں کی مغفرت طلب کریں تو اﷲ تعالٰی ان کے گناہوں کو بخش دے گا۔ (سنن ابن ماجہ، باب فضل دعاء الحاج)
حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا، مفہوم : '' حج کرنے والا حاجی اپنے قبیلے کے چار سو آدمیوں کی شفاعت کرے گا۔'' (مسند بزار، باب الحاج یشفع)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے دعا دیتے ہوئے فرمایا، مفہوم: ''اﷲ تعالیٰ حج کرنے والوں کی مغفرت فرمائے اور ان کی بھی مغفرت فرمائے جن کے لیے حاجی لوگ اﷲ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا مانگتے ہیں۔''
چند ایسی بنیادی باتیں جن کا خیال کرنا بہت ضروری ہے ورنہ حج کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔
1: نیّت کی درستی: اس عظیم عبادت کی ادائی کے وقت خالص اﷲ کی رضا اور خوش نُودی کی نیّت کریں اور اس کو محض اﷲ کا خاص فضل اور احسان سمجھیں۔ خودنمائی، ریاکاری، دکھلاوا، لوگوں کی واہ واہ لُوٹنے اور خود کو حاجی صاحب کہلانے اور خود پسندی ترک کرکے دل میں صرف اﷲ کی رضا کا جذبہ پیدا کریں۔
البتہ یہاں ایک بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ بسا اوقات عبادات کی ادائی کے وقت خود بہ خود یہ خیال دل میں پیدا ہوتا ہے کہ لوگ مجھے اچھا سمجھیں، میری عزت کریں، میرا احترام کریں، معاشرے میں مجھے قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ اگر ایسے خیالات دل میں آ رہے ہوں تو عبادات کو ہرگز نہ چھوڑیں بل کہ برابر ادا کرتے رہیں۔ یہ کوئی پریشانی والی بات نہیں بل کہ نفس اور شیطان کا اﷲ تعالیٰ کی عبادات سے دور کرنے کے لیے ایک دھوکا اور وسوسہ ہے، اسے دل میں جگہ نہ دیں۔
جوں ہی یہ خیال آنے لگے فوراً اپنی توجہ اﷲ کے فضل و احسان اور اس کی طرف سے ملنے والی بے شمار نعمتوں کی طرف کریں اور اپنے آپ پر غور کریں اور خود کو سمجھائیں کہ یہ سب کچھ مجھ پر محض اﷲ کا فضل اور احسان ہے اس ذات نے مجھ گناہ گار پر اپنا کرم فرمایا، اس میں میرا ذاتی کوئی کمال نہیں۔ ان شاء اﷲ خود نمائی، ریاکاری اور دکھلاوے وغیرہ سے جان چھوٹ جائے گی۔
2: فریضہ حج کی ادائی میں تاخیر نہ کریں : حج فرض ہوجانے کے بعد اس کی ادائی میں تاخیر نہ کریں، آئندہ پر نہ ٹالتے رہیں۔ ہمارے ہاں معاشرے میں یہ بات پھیلی ہوئی ہے کہ پہلے اولاد کی شادیوں سے فراغت مل جائے پھر حج کریں گے، والدین اپنی اولاد کی شادی کو اپنے اوپر فرض کا درجہ دے کر حج میں تاخیر کرتے ہیں یہ غلط سوچ اور اسلامی احکامات اور تعلیمات سے دوری کا نتیجہ ہے۔ اس حوالے سے دو باتیں پیش نظر رہیں۔
ایک تو یہ کہ زندگی کا کچھ بھروسا نہیں، اور نامعلوم آئندہ سال زندہ بھی رہیں یا نہیں ؟ دوسرا وقت گزرنے کے ساتھ انسان میں طاقت کم ہوتی جاتی ہے، بڑھاپا اور ضعف بڑھ جاتا ہے، مناسک حج کی ادائی کے لیے قوت، ہمت اور چستی چاہیے۔
تاخیر کی صورت میں یہ کم زور پڑجاتی ہیں اور انسان میں تن درستی اور چستی کے بہ جائے سستی اور ضعف پیدا ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے عبادات میں وہ لطف نہیں ملتا، جو جوانی کی عبادت میں ملتا ہے۔ مکانات کی تعمیر اور اولاد کی شادی بیاہ وغیرہ جیسے عذر کی آڑ میں فریضۂ حج میں تاخیر کرنا بہت نادانی کی بات ہے۔
3: گناہوں سے اجتناب: تمام عبادات بالخصوص فریضۂ حج کی حقیقت پانے اور صحیح معنوں میں اس کا اجر و ثواب حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان گناہوں سے خود کو بچائے، خصوصاً لڑائی جھگڑا، گالم گلوچ، عیب جوئی اور عیب گوئی، غیبت و تہمت، بہتان طرازی، چغل خوری، دھوکا دہی، چوری چکاری، سیلفیاں لینا، تصویر سازی، بے پردگی، بدنظری، ممنوعات احرام اور مفسدات حج سے خود کو بچائے۔
عموماً دیکھا جاتا ہے کہ حرم کعبہ اور مسجد نبویؐ میں بیٹھ کر بہت سے دین دار بھی غیبت جیسے کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں۔ اس سے بچنے کا سب سے آسان حل ذکر اﷲ اور تلاوت قرآن کریم میں خود کو مشغول کرنا ہے۔
4: بازاروں میں وقت برباد نہ کریں : حرمین شریفین بہت مقدس مقامات ہیں، وہاں کی عبادات کا ثواب عام جگہوں سے کہیں زیادہ ہے۔ انسان کی زندگی میں قسمت سے ایسے مواقع نصیب ہوتے ہیں، اس لیے ان اوقات کو ضایع ہونے سے بچائیں۔
بازاروں کی رونق بننے کے بہ جائے زیادہ وقت عبادات میں گزاریں، طواف کی کثرت کریں، بازار میں خرید و فروخت کو ضرورت کی حد تک رکھیں، کوشش کریں کہ ایک ہی بار اپنی ضروریات کی چیزیں خرید لیں، بار بار بازار نہ جانا پڑے۔
(صحیح بخاری، باب فضل الحج المبرور)
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں: میں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص اﷲ تعالیٰ (کی رضا اور خوش نُودی کو حاصل کرنے) کے لیے حج کرے اور دوران حج (احرام کی حالت میں) اپنی بیوی کے پاس نہ جائے، بیہودہ باتیں یا لڑائی جھگڑا وغیرہ نہ کرے اور (کبیرہ) گناہوں سے بچتا رہے تو وہ حج کرنے کے بعد (گناہوں سے ایسا پاک صاف ہوجاتا ہے) جیسا کہ وہ اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتے وقت پاک صاف تھا۔
(صحیح بخاری)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا، مفہوم: حج کو آنے والے اور عمرہ ادا کرنے والے اﷲ تعالٰی کے معزز مہمان ہیں، اگر وہ اﷲ تعالٰی سے دعا مانگیں تو اﷲ تعالٰی ان کی دعا قبول فرماتا ہے اور اگر وہ گناہوں کی مغفرت طلب کریں تو اﷲ تعالٰی ان کے گناہوں کو بخش دے گا۔ (سنن ابن ماجہ، باب فضل دعاء الحاج)
حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا، مفہوم : '' حج کرنے والا حاجی اپنے قبیلے کے چار سو آدمیوں کی شفاعت کرے گا۔'' (مسند بزار، باب الحاج یشفع)
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے دعا دیتے ہوئے فرمایا، مفہوم: ''اﷲ تعالیٰ حج کرنے والوں کی مغفرت فرمائے اور ان کی بھی مغفرت فرمائے جن کے لیے حاجی لوگ اﷲ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا مانگتے ہیں۔''
چند ایسی بنیادی باتیں جن کا خیال کرنا بہت ضروری ہے ورنہ حج کا مقصد حاصل نہیں ہوتا۔
1: نیّت کی درستی: اس عظیم عبادت کی ادائی کے وقت خالص اﷲ کی رضا اور خوش نُودی کی نیّت کریں اور اس کو محض اﷲ کا خاص فضل اور احسان سمجھیں۔ خودنمائی، ریاکاری، دکھلاوا، لوگوں کی واہ واہ لُوٹنے اور خود کو حاجی صاحب کہلانے اور خود پسندی ترک کرکے دل میں صرف اﷲ کی رضا کا جذبہ پیدا کریں۔
البتہ یہاں ایک بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ بسا اوقات عبادات کی ادائی کے وقت خود بہ خود یہ خیال دل میں پیدا ہوتا ہے کہ لوگ مجھے اچھا سمجھیں، میری عزت کریں، میرا احترام کریں، معاشرے میں مجھے قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ اگر ایسے خیالات دل میں آ رہے ہوں تو عبادات کو ہرگز نہ چھوڑیں بل کہ برابر ادا کرتے رہیں۔ یہ کوئی پریشانی والی بات نہیں بل کہ نفس اور شیطان کا اﷲ تعالیٰ کی عبادات سے دور کرنے کے لیے ایک دھوکا اور وسوسہ ہے، اسے دل میں جگہ نہ دیں۔
جوں ہی یہ خیال آنے لگے فوراً اپنی توجہ اﷲ کے فضل و احسان اور اس کی طرف سے ملنے والی بے شمار نعمتوں کی طرف کریں اور اپنے آپ پر غور کریں اور خود کو سمجھائیں کہ یہ سب کچھ مجھ پر محض اﷲ کا فضل اور احسان ہے اس ذات نے مجھ گناہ گار پر اپنا کرم فرمایا، اس میں میرا ذاتی کوئی کمال نہیں۔ ان شاء اﷲ خود نمائی، ریاکاری اور دکھلاوے وغیرہ سے جان چھوٹ جائے گی۔
2: فریضہ حج کی ادائی میں تاخیر نہ کریں : حج فرض ہوجانے کے بعد اس کی ادائی میں تاخیر نہ کریں، آئندہ پر نہ ٹالتے رہیں۔ ہمارے ہاں معاشرے میں یہ بات پھیلی ہوئی ہے کہ پہلے اولاد کی شادیوں سے فراغت مل جائے پھر حج کریں گے، والدین اپنی اولاد کی شادی کو اپنے اوپر فرض کا درجہ دے کر حج میں تاخیر کرتے ہیں یہ غلط سوچ اور اسلامی احکامات اور تعلیمات سے دوری کا نتیجہ ہے۔ اس حوالے سے دو باتیں پیش نظر رہیں۔
ایک تو یہ کہ زندگی کا کچھ بھروسا نہیں، اور نامعلوم آئندہ سال زندہ بھی رہیں یا نہیں ؟ دوسرا وقت گزرنے کے ساتھ انسان میں طاقت کم ہوتی جاتی ہے، بڑھاپا اور ضعف بڑھ جاتا ہے، مناسک حج کی ادائی کے لیے قوت، ہمت اور چستی چاہیے۔
تاخیر کی صورت میں یہ کم زور پڑجاتی ہیں اور انسان میں تن درستی اور چستی کے بہ جائے سستی اور ضعف پیدا ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے عبادات میں وہ لطف نہیں ملتا، جو جوانی کی عبادت میں ملتا ہے۔ مکانات کی تعمیر اور اولاد کی شادی بیاہ وغیرہ جیسے عذر کی آڑ میں فریضۂ حج میں تاخیر کرنا بہت نادانی کی بات ہے۔
3: گناہوں سے اجتناب: تمام عبادات بالخصوص فریضۂ حج کی حقیقت پانے اور صحیح معنوں میں اس کا اجر و ثواب حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان گناہوں سے خود کو بچائے، خصوصاً لڑائی جھگڑا، گالم گلوچ، عیب جوئی اور عیب گوئی، غیبت و تہمت، بہتان طرازی، چغل خوری، دھوکا دہی، چوری چکاری، سیلفیاں لینا، تصویر سازی، بے پردگی، بدنظری، ممنوعات احرام اور مفسدات حج سے خود کو بچائے۔
عموماً دیکھا جاتا ہے کہ حرم کعبہ اور مسجد نبویؐ میں بیٹھ کر بہت سے دین دار بھی غیبت جیسے کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں۔ اس سے بچنے کا سب سے آسان حل ذکر اﷲ اور تلاوت قرآن کریم میں خود کو مشغول کرنا ہے۔
4: بازاروں میں وقت برباد نہ کریں : حرمین شریفین بہت مقدس مقامات ہیں، وہاں کی عبادات کا ثواب عام جگہوں سے کہیں زیادہ ہے۔ انسان کی زندگی میں قسمت سے ایسے مواقع نصیب ہوتے ہیں، اس لیے ان اوقات کو ضایع ہونے سے بچائیں۔
بازاروں کی رونق بننے کے بہ جائے زیادہ وقت عبادات میں گزاریں، طواف کی کثرت کریں، بازار میں خرید و فروخت کو ضرورت کی حد تک رکھیں، کوشش کریں کہ ایک ہی بار اپنی ضروریات کی چیزیں خرید لیں، بار بار بازار نہ جانا پڑے۔