بارشیں اور انتظامی اداروں کی ناقص کارکردگی

کوئی بڑا آبی ذخیرہ نہ ہونے کا ہی نتیجہ ہے کہ اب ہر سال ہمیں سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے


Editorial June 27, 2023
کوئی بڑا آبی ذخیرہ نہ ہونے کا ہی نتیجہ ہے کہ اب ہر سال ہمیں سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ فوٹو : اسکرین گریب

ملک کے بیشتر علاقوں میں شدید بارش اور آندھی سے مواصلات کا نظام درہم برہم ہوگیا ہے، آسمانی بجلی گرنے کے باعث دس سے زائد افراد جاں بحق ہوچکے ہیں، خیبر پختون خوا کے اکثر علاقوں میں موسلا دھار بارش کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر تباہی اور جانی و مالی نقصانات سامنے آرہے ہیں۔

مزید برآں این ڈی ایم اے نے شدید گرمی کی لہر کے باعث برفانی علاقوں میں گلیشیئر پگھلنے کا بھی امکان ظاہر کیا ہے۔

جمالیاتی پہلو کو مدنظر رکھا جائے تو پری مون سون کے موسم کو بلاشبہ پسند کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں، سب سے اہم یہ ہے کہ یہ چلچلاتی گرمی کے خاتمے کا عارضی سہی لیکن سبب بنتا ہے اور تیز دھوپ سے ضروری راحت فراہم کرتا ہے۔

گزشتہ روز کی بارش سے جو تقریبا مزید چار دن تک وقفے وقفے سے جاری رہے گی، گرمی کے ستائے اور لوڈ شیڈنگ سے گھبرائے ہوئے عوام نے سُکھ کا سانس لیا ہے، مرجھائے ہوئے چہرے کھل اُٹھے ہیں، درجہ حرارت کم ہو گیا اور ہوا میں خنکی پیدا ہو گئی، سڑکوں پر جو پانی جمع ہو گیا تھا۔

اُس نے اُترتے ہوئے کئی گھنٹے لگا دیے، جو علاقے نشیب میں ہونے کی وجہ سے روایتی طور پر پانی میں ڈوب جاتے ہیں اُنہیں تو ڈوبنا ہی تھا، تیز بارش کی وجہ سے جدید اور پوش آبادیوں کی سڑکوں پر بھی پانی کھڑا ہو گیا اور اُس کے نکاس میں کافی وقت لگ گیا۔ دیہی علاقوں کے کچے گھروں کی چھتیں گرنے سے ملبے تلے دب کر جاں بحق ہونے کے واقعات بھی رپورٹ ہورہے ہیں۔

ہمارے پاس سرکاری انتظامی اداروں کی کمی نہیں ہے، ان میں سیکڑوں ملازمین تنخواہیں اور مراعات وصول کرتے ہیں، ان اداروں کی جانب سے ہر برس مون سون بارشوں سے پہلے بڑے بڑے دعوے سامنے آتے ہیں، لیکن جب بارشیں ہوتی ہیں تو تمام دعوؤں کی قلعی کھل جاتی ہے۔

خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کی مسلسل پونے نو برس تک قائم رہی، لیکن آج بارشوں کے نتیجے میں ہونیوالے نقصانات کو دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ انفرا اسٹرکچر کی بہتری پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی ،جس کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں۔

وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی و ماحولیاتی رابطہ سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا ہے کہ شدید گرمی کے باعث گلیشیئرز پگھلنے کی وجہ سے گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا میں سیلاب کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔ ٹوئٹر پر جاری اپنے ایک بیان میں انھوں نے کہا کہ گلگت بلتستان اور کے پی میں درجہ حرارت معمول سے 4 تا 6 ڈگری زیادہ رہنے کی وجہ سے دونوں خطوں میں سیلاب اور گلیشیئر لیک آؤٹ برسٹ فلڈ (گلوف) کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔

ممکنہ صورتحال کے پیش نظر ضلعی انتظامیہ، مقامی ادارے اور کمیونٹیز چوکس رہیں اور احتیاطی تدابیر اختیار کریں خاص طور پر عید الاضحی کے موقع پر جب چھٹیوں کی وجہ سے شمالی علاقہ جات میں سیاحوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگا تو زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوگی۔

فی زمانہ ہمارے ملک کو جن بڑے اور اہم مسائل کا سامنا ہے ان میں ایک پانی کی شدید قلت بھی ہے جس کی ایک وجہ بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے حصے میں آنے والے دریاؤں پر پانی ذخیرہ کرنے کی منصوبہ بندی اور اقدامات ہیں، تاہم اس کا سب سے بڑا سبب اب تک پاکستان میں قائم رہنے والی حکومتوں کی جانب سے کسی بڑے آبی ذخیرہ کی تعمیر کے سلسلے میں مجرمانہ غفلت بھی ہے۔

اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سال بھر میں مختلف مہینوں میں ہونے والی بارشوں اور موسم گرما میں پگھلنے والے گلیشیئرز سے حاصل ہونے والے پانی کی کافی بڑی مقدار کوئی بڑا آبی ذخیرہ نہ ہونے کی وجہ سے بہہ کر سمندر میں غرق ہو جاتی ہے۔

بلاشبہ غربت و مہنگائی کے ستائے عوام پاکستان مزید کسی نئے بحران کو جھیلنے کی سکت نہیں رکھتے۔ انتظامیہ کی جانب سے صفائی ستھرائی کے نظام کو بہتر بنانے کے دعوؤں کے باوجود پاکستان کے تمام چھوٹے، بڑے شہروں میں اکثریتی علاقے گندگی اور گندے پانی کی لپیٹ میں ہیں۔

مون سون کی بارشیں زرعی خطوں کے لیے باعث رحمت سمجھی جاتی ہیں، کیونکہ یہ بارشیں آبی ذخیرے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں اور زمین کی زرخیزی کو بڑھاتی ہیں لیکن بڑھتی ہوئی گلوبل وارمنگ، موسمیاتی تغیر اور خطے کی آب و ہوا میں تبدیلی کے باعث ماہرین کے مطابق بارشوں کی شدت میں اضافہ اور سیلاب کے خطرات بڑھتے جارہے ہیں، مزید یہ کہ بھارت کی جانب سے اچانک پانی چھوڑے جانے پر سیلاب کا خطرہ مزید بڑھ سکتا ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان ممکنہ حالات سے بچاؤ کے لیے پاکستان کی حکومت نے اب تک کیا حکمت عملی اختیار کی ہے۔ پاکستان میں عوام کے تحفظ کے لیے مناسب اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں، اعلیٰ حکومتی شخصیات اور اداروں کی غفلت و لا پرواہی کے نتائج گزشتہ سالوں میں آنے والے سیلاب کے دوران قوم بھگت چکی ہے۔صفائی ستھرائی کی ناگفتہ بے صورتحال عوام کے لیے مشکلات کا باعث بنی ہوئی ہے۔

کیا بارش کے پانی کی نکاسی کا کوئی نظام موجود ہے، اگر موجود ہے تو ندی، نالوں اور گٹروں کی صفائی بلدیاتی اداروں اور صوبائی حکومتوں نے شروع کردی ہے، تو جواب نفی میں ہے، بلدیاتی اداروں کی کارکردگی اور قبل از وقت حفاظتی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔مون سون کی تیز بارشیں سیلاب کا سبب بنتی ہیں، جس میں سب سے زیادہ نقصان کسانوں کو ہوتا ہے۔ بہتر ہے کہ حکومت کم پریمیم کی بنیاد پر زرعی انشورنس کا نظام لائے، تاکہ کسانوں کے نقصان کا ازالہ ہوسکے۔

دوسری طرف شہروں میں بارش کے پانی کے نکاس کے نظام کو پورا سال جاری رکھا جائے اور بارش کے پانی کی گزرگاہوں کو صاف ستھرا اور ان کے اطراف درخت لگا کر خوبصورت بنایا جائے۔ شہر میں بارش کی چھوٹی گزرگاہوں پر ڈھکن لگائے جائیں۔

گندے پانی اور بارش کے پانی کے نکاس کا انتظام علیحدہ علیحدہ رکھا جائے، تو عوام بھی بارش سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں، لیکن یہ سب باتیں صرف کتابوں اور اخبارات کی حد تک خوش کن اور دلفریب لگتی ہیں۔

جب پری مون سون سیزن کے دوران تباہی و بربادی ہوچکی ہوتی ہے تو حسب روایت حکومتی مشنری حرکت میں آ جاتی ہے اور قومی خزانے سے کروڑوں روپے محض آنیوں اور جانیوں پر خرچ کر دیے جاتے۔ اگر یہی وسائل بارشوں اور سیلابی بربادی سے پہلے منصوبہ بندی کے تحت لگائے جائیں اور ماہر انجینئرز اور سائنسدانوں اور ماہر تعمیرات کے تجربات سے استفادہ کیا جائے تو یقیناً یہ حکومت کا سب سے احسن اقدام ہو گا۔ مون سون کے موسم میں سڑکوں پر حادثات کافی عام ہیں، اسی لیے ڈرائیوروں کو اس موسم میں انتہائی احتیاط برتنے کی ضرورت ہے، چونکہ گیلے ٹریک پر پھسلن ہوسکتی ہے۔

اس لیے تیز رفتاری اور ٹیل گیٹنگ (آگے کی گاڑی کے انتہائی قریب چلنے) سے گریز کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے،کوئی بھی اچانک موڑ کاٹنے سے بھی گریز کیا جائے۔

بارش کے دوران موٹرسائیکل چلانے سے ہوشیار رہیں ،کیونکہ موٹر سائیکل سوار گیلی سڑکوں پر آسانی سے پھسل کر گرتے ہیں، اگر بارش کے موسم میں روڈ سیفٹی کے سب سے اہم نکات میں سے ایک یہ ہے کہ بھاری گاڑیوں سے دور رہیں اور اپنی ہیڈ لائٹس کو آن کریں تاکہ موسلادھار بارش کے باوجود گاڑی نظر آئے۔ ایسے موسم میں گاڑی چلانے سے پہلے اپنے ایندھن، بریک، ٹائر اور وائپر چیک کرنا نہ بھولیں۔

بارش کے موسم میں برقی حفاظتی نکات میں سے ایک بجلی کے تاروں کو نہ چھونے کے علاوہ شدید بارش کے دوران الیکٹرانک آلات کو ان پلگ کرنا ہے۔ اس کی وجہ وولٹیج کا اتار چڑھاؤ اور لوڈ شیڈنگ ہے۔ انتہائی زیادہ یا کم وولٹیج ممکنہ طور پر مہنگے برقی آلات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ وائرنگ فضا میں نمی یا بارش کے پانی کی وجہ سے گیلی ہو جاتی ہے تو کسی کے لیے بھی ان آلات کو چھونا خطرناک ہو سکتا ہے۔

ایک تو شہری آبادیوں کے ارد گرد موجود نالوں اور پہاڑی علاقوں میں بنی قدرتی آبی گزرگاہوں کی گہرائی تک صفائی کا بندوبست ازحد ضروری ہو چکا ہے، اس طرح پانی اوورفلو نہیں ہو گا اور زیادہ بارشوں سے بھی سیلابی کیفیت پیدا نہیں ہو گی، دوسرے ملک میں بڑے آبی ذخیروں کی تعمیر کی منصوبہ بندی ہونا چاہیے کیونکہ اس طرح کم از کم پنجاب اور سندھ کو ان تباہ کُن سیلابوں سے بچایا جا سکے گا جو ہر سال سیکڑوں قیمتی انسانی جانیں اور اربوں روپے کا سامان اپنے ساتھ بہا لے جاتے ہیں۔

مختلف شہروں کی مقامی انتظامیہ کو بھی مقامی سطح پر بارشوں کی تباہ کاریوں سے بچاؤ کے لیے اپنے حصے کی ذمے داریاں پوری کرنا چاہیے کیونکہ یہ واضح ہے کہ تھوڑی سی مخلصانہ توجہ دے کر بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کو مکمل ختم نہ بھی کیا جا سکے ان کی شدت ضرور کم کی جا سکتی ہے۔

کوئی بڑا آبی ذخیرہ نہ ہونے کا ہی نتیجہ ہے کہ اب ہر سال ہمیں سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کی طرف سے ہمارے پانیوں پر ڈیم بنانے کے عمل کو روکنے کی پالیسی غیر موثر نظر آتی ہے، علاوہ ازیں پاکستان کی چھوٹے ڈیم تعمیر کرنے کی پالیسی سے مسائل حل نہیں ہوں گے۔

اس ساری صورتحال کا تقاضا ہے کہ حکومت پانی کا ذخیرہ بڑھانے کے لیے کثیر جہتی پالیسی مرتب کرے اور پھر فوری طور پر اس پر عمل درآمد بھی شروع کیا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں