توہم پرستی
ہمارے معاشرے میں جومختلف توہمات رائج ہیں‘ ان سے سیدھے سادے لوگوں کو کتنا نقصان پہنچ رہا ہے
محترم سبط حسن نے مولانا کوثر نیازی کے بارے میں ایک دلچسپ واقعہ لکھا ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ ''اسے اتفاق ہی کہتے ہیں کہ جن دنوں میں نفسیاتی ڈاکٹروں کی کانفرنس کے لیے مقالہ بعنوان تہذیب کا اثر ہمارے خیالات پر لکھ رہا تھا'تو اخبار میں مولانا کوثر نیازی کاایک مضمون نظر سے گزرا'اس مضمون میں مولانا نے مولانا مفتی محمد شفیع مرحوم سے عقیدت میں ایک جن کا قصہ لکھا تھا، قصہ کیا لکھا 'کہ مجھ کو خوباں سے چھیڑ کا بہانہ ہاتھ آگیا ۔
ہمارے معاشرے میں جومختلف توہمات رائج ہیں' ان سے سیدھے سادے لوگوں کو کتنا نقصان پہنچ رہا ہے، کبھی خبر آتی ہے کہ کسی بانجھ عورت نے اپنے پیر کے کہنے میں آکر اپنے پڑوسی کے بچے کو قتل کیا اوراس کے خون سے نہائی'تاکہ صاحب اولاد ہوجائے۔
کہیں جن نکالنے کے لیے بچوں اور بچیوں پر بے رحمانہ تشدد کی خبریں آجاتی ہیں۔یہ دیوانوں کے افعال لگتے ہیںلیکن حقیقت میںایک بڑے سماجی مرض کی نشاندہی کرتے ہیںاور وہ مرض ہے'' توہم پرستی'' کا جو روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔
صرف شہر کراچی میں ذہنی مریضوں کی تعداد لاکھوں میں ہے 'ایک ڈاکٹر صاحب کا قول ہے کہ پاکستان کے معاشرے میں ہر دوسرا شخص نفسیاتی مریض ہے' نفسیاتی الجھنوں میں مبتلا مریضوںکو ان کے رشتے دار 'ایک درگاہ سے دوسری درگاہ اور آسیب اتارنے والے ایک بزرگ یا عامل کے آستانے سے دوسرے آستانے پر لیے پھرتے ہیںاورذہنی امراض کے اسپتال یاڈاکٹر کے پاس آخر میں'اس وقت پہنچتے ہیں جب مریض لاعلاج ہوچکا ہوتا ہے۔
اس ''ترقی یافتہ'' شہر میں آسیب اتارنے والے اصحاب کے اپنے نجی قید خانے بھی ہیں'جس میںہمارے بدنصیب مریض' زنجیروں اور بیڑیوں میں بندھے زمین پر' لاکھوںمکھیوںکے ساتھ بے حس و حرکت پڑے رہتے ہیں۔ طب کی تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ ابتدائی زمانے میں لوگوںکو بیماریوں کے اصل اسباب معلوم نہ تھے۔
ان کا عقیدہ تھاکہ جب انسان کے جسم میں کوئی عفریت یا بھوت داخل ہوجاتاہے تو وہ بیمار پڑ جاتا ہے ' لہٰذا ہر بیماری کا علاج جادو منتروںسے ہوتا تھا'علاج کرنے والے یہ جادو گر، عامل ''طبیب'' عام طور پر عبادت گاہوں کے پروہت ہوتے تھے 'چنانچہ اہل بابل کے عکادی زبان میں طبیب'پروہت اورجادوگرکے لیے ایک ہی اصطلاح استعمال ہوتی تھی مگر جب علم طب نے ترقی کی 'بیماریوں کے اصل اسباب معلوم ہونا شروع ہوئے اوران سے شفاء پانے کے لیے دوائیں دریافت ہوئیں' رفتہ رفتہ جادو منتروں کے ساتھ ساتھ دوائیں بھی استعمال ہونے لگیں اور دواؤں کا پلہ بھاری ہوتا گیالیکن یونانی طب کے فروغ سے قبل تک قدیم مصر اور بابل میں جادو منتر علاج کا لازمی جز سمجھے جاتے تھے۔
مگر جوںجوںعلم طب نے ترقی کی' بیماریوں کے اصل اسباب پتہ چلے اور ان سے شفاء پانے کے لیے دوائیں دریافت ہوتی گئیں تو لوگوں نے اپنے تجربے سے دیکھ لیاکہ بیماریوں کاعلاج جادو منتر 'ٹونے ٹوٹکے 'جھاڑ پھونک سے نہیں ہوتابلکہ دواؤں سے ہوتا ہے'۔
لہٰذا لوگوں کااعتقاد ان توہمات سے اٹھنے لگا'اب بیماری کے بعد لوگ پیرفقیر کے بجائے ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں'لیکن اب بھی ہزاروں لاکھوں بلکہ شاید کروڑوںعقیدت مند ایسے ہیںجو علاج کے قدیم طریقوں پر یقین رکھتے ہیں'نتیجہ یہ ہے کہ آپ کو ہر شہر 'قصبے اوردیہات میں ایسے پیر فقیر اور عامل مل جائیںگے 'جن کا جھاڑ جھنکار کا کاروبارانھیں توہمات کے طفیل چلتا ہے۔
مصر' لبنان'فلسطین'عرب اور ایران 'ہندوستان اور چین 'غرض یہ کہ پرانی دنیا کے تمام دیوی دیوتا جو ہزاروں سال تک اپنے عقیدت مندوں کو اپنے وجود کا ثبوت فراہم کرتے رہے 'آج فقط دیومالائی داستانوں میں زندہ ہیں' کوہ اولمپس کے دیوی دیوتا 'یورپ میں عیسائیت کے رواج پاتے ہی یکسرغائب ہو گئے۔
کسی غیرمرئی شے کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے پنڈتوں ، پروہتوں اور مذہبی شخصیات کی تائیدی شہادتیں کافی سمجھی جاتی ہیںتو کیا ہم مان لیں کہ زمین ساکت و قائم ہے'چاند سورج سیارے 'سب زمین کے گرد گھو متے ہیں'اس لیے کہ کپلر اور گلیلو کی دریافت سے پیشتر عیسائی دنیا یہ بھاری اکثریت یہ عقیدہ رکھتی تھی کہ چاند' سورج'ستارے 'سیارے سب زمین کے گرد چکر لگاتے ہیں اور کائنات کا مرکز زمین ہے۔
غیر مرئی مخلوق اورانسانی عورتوں کے درمیان ''نکاح'' اور ''طلاق'' کی کہانیاں بھی سنائی جاتی ہیں 'معلوم نہیں اس شادی خانہ آبادی سے جو اولاد پیدا ہوگی 'اس کا شمار غیرمرئی مخلوق میںہوگا یا انسانوں میں؟
بہرحال مافوق الفطرت قوتوں کا زمین کی عورتوں سے محبت کی داستانیں بھی دیومالائی دور میں عام تھیں' غیرمرئی مخلوق نیکسی خوبصورت عورت کو باغ میں یا چشمے میں نہاتے ہوئے دیکھا تو جھٹ اس پر عاشق ہوجاتی ہے 'چنانچہ یونان کے کتنے ہی ہیرو ز'زیوس دیوتایا اپالو کی اولاد کہے جاتے ہیں' ہندو دیوتا اور کوہ اولمپس کے دیوتاہمیشہ خوبصورت عورتوں کے ساتھ رشتہ استوار کرتے تھے۔
آج بھی اہل علم ایسی منقولات پر تکیہ کرنے کے بجائے 'سائنسی طرزفکر و عمل اختیار نہیں کرتے بلکہ بھوت پریت وغیرہ کے وجود کو ثابت کرتے ہیں 'ہمیں بتایا جاتا کہ ایسی مخلوق ہوا میں اڑتی ہیںاور ہزاروں میل کا سفر پلک جھپکتے طے کر لیتی ہیں'ان میں بھی عقائد ہوتے ہیں۔
وہ زمینی عورتوں سے شادی کرتے ہیںاور پھر ان کو طلاق بھی دیتے ہیں'اکثر عورتوں پر عاشق ہوکر ان سے چمٹ جاتے ہیںاور پھر ان کو ستاتے ہیںالبتہ یہ نہیں معلوم کہ اس طرز عمل کی غرض وغایت کیا ہوتی ہے' ان کہانیوں کے علاوہ کسی کے پاس ان مخلوقات کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ٹھوس دلیل نہیںہوتی۔ باقی قصہ بعد میں۔
وہ لکھتے ہیں کہ ''اسے اتفاق ہی کہتے ہیں کہ جن دنوں میں نفسیاتی ڈاکٹروں کی کانفرنس کے لیے مقالہ بعنوان تہذیب کا اثر ہمارے خیالات پر لکھ رہا تھا'تو اخبار میں مولانا کوثر نیازی کاایک مضمون نظر سے گزرا'اس مضمون میں مولانا نے مولانا مفتی محمد شفیع مرحوم سے عقیدت میں ایک جن کا قصہ لکھا تھا، قصہ کیا لکھا 'کہ مجھ کو خوباں سے چھیڑ کا بہانہ ہاتھ آگیا ۔
ہمارے معاشرے میں جومختلف توہمات رائج ہیں' ان سے سیدھے سادے لوگوں کو کتنا نقصان پہنچ رہا ہے، کبھی خبر آتی ہے کہ کسی بانجھ عورت نے اپنے پیر کے کہنے میں آکر اپنے پڑوسی کے بچے کو قتل کیا اوراس کے خون سے نہائی'تاکہ صاحب اولاد ہوجائے۔
کہیں جن نکالنے کے لیے بچوں اور بچیوں پر بے رحمانہ تشدد کی خبریں آجاتی ہیں۔یہ دیوانوں کے افعال لگتے ہیںلیکن حقیقت میںایک بڑے سماجی مرض کی نشاندہی کرتے ہیںاور وہ مرض ہے'' توہم پرستی'' کا جو روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔
صرف شہر کراچی میں ذہنی مریضوں کی تعداد لاکھوں میں ہے 'ایک ڈاکٹر صاحب کا قول ہے کہ پاکستان کے معاشرے میں ہر دوسرا شخص نفسیاتی مریض ہے' نفسیاتی الجھنوں میں مبتلا مریضوںکو ان کے رشتے دار 'ایک درگاہ سے دوسری درگاہ اور آسیب اتارنے والے ایک بزرگ یا عامل کے آستانے سے دوسرے آستانے پر لیے پھرتے ہیںاورذہنی امراض کے اسپتال یاڈاکٹر کے پاس آخر میں'اس وقت پہنچتے ہیں جب مریض لاعلاج ہوچکا ہوتا ہے۔
اس ''ترقی یافتہ'' شہر میں آسیب اتارنے والے اصحاب کے اپنے نجی قید خانے بھی ہیں'جس میںہمارے بدنصیب مریض' زنجیروں اور بیڑیوں میں بندھے زمین پر' لاکھوںمکھیوںکے ساتھ بے حس و حرکت پڑے رہتے ہیں۔ طب کی تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ ابتدائی زمانے میں لوگوںکو بیماریوں کے اصل اسباب معلوم نہ تھے۔
ان کا عقیدہ تھاکہ جب انسان کے جسم میں کوئی عفریت یا بھوت داخل ہوجاتاہے تو وہ بیمار پڑ جاتا ہے ' لہٰذا ہر بیماری کا علاج جادو منتروںسے ہوتا تھا'علاج کرنے والے یہ جادو گر، عامل ''طبیب'' عام طور پر عبادت گاہوں کے پروہت ہوتے تھے 'چنانچہ اہل بابل کے عکادی زبان میں طبیب'پروہت اورجادوگرکے لیے ایک ہی اصطلاح استعمال ہوتی تھی مگر جب علم طب نے ترقی کی 'بیماریوں کے اصل اسباب معلوم ہونا شروع ہوئے اوران سے شفاء پانے کے لیے دوائیں دریافت ہوئیں' رفتہ رفتہ جادو منتروں کے ساتھ ساتھ دوائیں بھی استعمال ہونے لگیں اور دواؤں کا پلہ بھاری ہوتا گیالیکن یونانی طب کے فروغ سے قبل تک قدیم مصر اور بابل میں جادو منتر علاج کا لازمی جز سمجھے جاتے تھے۔
مگر جوںجوںعلم طب نے ترقی کی' بیماریوں کے اصل اسباب پتہ چلے اور ان سے شفاء پانے کے لیے دوائیں دریافت ہوتی گئیں تو لوگوں نے اپنے تجربے سے دیکھ لیاکہ بیماریوں کاعلاج جادو منتر 'ٹونے ٹوٹکے 'جھاڑ پھونک سے نہیں ہوتابلکہ دواؤں سے ہوتا ہے'۔
لہٰذا لوگوں کااعتقاد ان توہمات سے اٹھنے لگا'اب بیماری کے بعد لوگ پیرفقیر کے بجائے ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں'لیکن اب بھی ہزاروں لاکھوں بلکہ شاید کروڑوںعقیدت مند ایسے ہیںجو علاج کے قدیم طریقوں پر یقین رکھتے ہیں'نتیجہ یہ ہے کہ آپ کو ہر شہر 'قصبے اوردیہات میں ایسے پیر فقیر اور عامل مل جائیںگے 'جن کا جھاڑ جھنکار کا کاروبارانھیں توہمات کے طفیل چلتا ہے۔
مصر' لبنان'فلسطین'عرب اور ایران 'ہندوستان اور چین 'غرض یہ کہ پرانی دنیا کے تمام دیوی دیوتا جو ہزاروں سال تک اپنے عقیدت مندوں کو اپنے وجود کا ثبوت فراہم کرتے رہے 'آج فقط دیومالائی داستانوں میں زندہ ہیں' کوہ اولمپس کے دیوی دیوتا 'یورپ میں عیسائیت کے رواج پاتے ہی یکسرغائب ہو گئے۔
کسی غیرمرئی شے کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے پنڈتوں ، پروہتوں اور مذہبی شخصیات کی تائیدی شہادتیں کافی سمجھی جاتی ہیںتو کیا ہم مان لیں کہ زمین ساکت و قائم ہے'چاند سورج سیارے 'سب زمین کے گرد گھو متے ہیں'اس لیے کہ کپلر اور گلیلو کی دریافت سے پیشتر عیسائی دنیا یہ بھاری اکثریت یہ عقیدہ رکھتی تھی کہ چاند' سورج'ستارے 'سیارے سب زمین کے گرد چکر لگاتے ہیں اور کائنات کا مرکز زمین ہے۔
غیر مرئی مخلوق اورانسانی عورتوں کے درمیان ''نکاح'' اور ''طلاق'' کی کہانیاں بھی سنائی جاتی ہیں 'معلوم نہیں اس شادی خانہ آبادی سے جو اولاد پیدا ہوگی 'اس کا شمار غیرمرئی مخلوق میںہوگا یا انسانوں میں؟
بہرحال مافوق الفطرت قوتوں کا زمین کی عورتوں سے محبت کی داستانیں بھی دیومالائی دور میں عام تھیں' غیرمرئی مخلوق نیکسی خوبصورت عورت کو باغ میں یا چشمے میں نہاتے ہوئے دیکھا تو جھٹ اس پر عاشق ہوجاتی ہے 'چنانچہ یونان کے کتنے ہی ہیرو ز'زیوس دیوتایا اپالو کی اولاد کہے جاتے ہیں' ہندو دیوتا اور کوہ اولمپس کے دیوتاہمیشہ خوبصورت عورتوں کے ساتھ رشتہ استوار کرتے تھے۔
آج بھی اہل علم ایسی منقولات پر تکیہ کرنے کے بجائے 'سائنسی طرزفکر و عمل اختیار نہیں کرتے بلکہ بھوت پریت وغیرہ کے وجود کو ثابت کرتے ہیں 'ہمیں بتایا جاتا کہ ایسی مخلوق ہوا میں اڑتی ہیںاور ہزاروں میل کا سفر پلک جھپکتے طے کر لیتی ہیں'ان میں بھی عقائد ہوتے ہیں۔
وہ زمینی عورتوں سے شادی کرتے ہیںاور پھر ان کو طلاق بھی دیتے ہیں'اکثر عورتوں پر عاشق ہوکر ان سے چمٹ جاتے ہیںاور پھر ان کو ستاتے ہیںالبتہ یہ نہیں معلوم کہ اس طرز عمل کی غرض وغایت کیا ہوتی ہے' ان کہانیوں کے علاوہ کسی کے پاس ان مخلوقات کے وجود کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ٹھوس دلیل نہیںہوتی۔ باقی قصہ بعد میں۔