موت کا سفر

میں اور چند دوست بھی ایڈونچر کے شوق میں صحرائے چولستان میں پھنس گئے تھے

ٹائی ٹینک جہاز کا ملبہ دیکھنے کے لیے جانے والی ٹائٹین آبدوز میں سوار مسافروں کی دلدوز ہلاکت کا سانحہ،مجھے سترہ سال قبل خود پر اور چند دوستوں پر گذرا خوفناک واقعہ یاد آگیا، میں اور چند دوست بھی ایڈونچر کے شوق میں صحرائے چولستان میں پھنس گئے تھے۔

اس ایڈونچر کے تمام مناظر فلم کی طرح دماغ میں چل رہے ہیں۔اس واقعہ میں گرمی ، پیاس ، بھوک کی وجہ سے میرے ایک ساتھی سابق ایم پی اے خلیل اللہ لابر کی موت ہوگئی تھی جب کہ چند روز قبل اپنے ملازم کے ہاتھوں قتل ہونے والے میاں محمد حسین عرف منا شیخ ، مرتضیٰ کھر اور میں ریگستان میں زندگی کی آخری سانسیں لے رہے تھے کہ موت سے چند لمحے قبل ہمیں نیم مردہ حالت میں ریسکیو کر لیا گیا تھا۔

یہ انیس سو اٹھانوے کی بات ہے، موسم شدید گرم تھا جب کہ چولستانشدید قحط سالی کا شکارتھا ۔ ہم تمام دوست سابق ایم پی اے ملک فاروق کھر کے گھر ڈنر پر مدعو تھے۔ گفتگو کے دوران ہی چولستان میں شکار کا پروگرام بن گیا، یوں ہم کچھ لوگ اسی رات ملتان سے چولستان روانہ ہوگئے۔ رات قلعہ دراوڑ میں گزاریاور صبح ناشتہ کرنے کے بعد دو مقامی گائیڈز کے ہمراہ شکار کے لیے روانہ ہوگئے، چند کلومیٹر دور پہنچے تو قافلہ کی ایک گاڑی خراب ہوگئی۔

اس گاڑی کو آگے لے جانے کا رسک نہیں لیا جاسکتا تھالہٰذا طے ہوا کہ ملک فاروق کھر مرحوم ، ملک مونی اور ایک گائیڈ واپس چلے جاتے ہیں۔ دوسری گاڑی جسے ملک مرتضی کھر ڈرائیو کر رہے تھے وہ سفر جاری رکھے ۔ اس فیصلے کے بعد میں ، مرتضی کھر ، ملک خلیل اللہ لابر اور ایک گائیڈ آگے روانہ ہوئے، صحرا میں جہاں کہیں ہرن دکھائی دیتے، ان پر فائر کرتے مگر کوئی نشانہ کارگر نہہوا ۔ ہم آگے بڑھتے گئے۔

آخر کار صحرائی سڑک ختم ہو گی ، ہمارے سامنے ایک ریت کا بہت بلند ٹیلا۔ مرتضی کھر نے ہاتھ کھڑے کردیے کہ وہ ریت کے اس ٹیلے پر جیپ چڑھا سکتے ہیں نہ دوسری جانب اتار سکتے ہیں۔ منا شیخ نے ہمت کی اور کہا کہ جیپ سے اترجائیں۔

ہم سب جیپ سے اتر گئے،منا شیخ نے جیپ کو پہلے ٹیلے پر چڑھایا اور پھر جیپ کو بحفاظت اتارنے میں کامیاب ہوگئے،اب ڈرائیونگ سیٹ مناشیخ نے سنبھالی، چند کلومیٹر کا فاصلہ طے ہوا تھا کہ جیپ کے انجن سے شعلہ نکلا اورانجن بند ہوگیا۔جیپ اسٹارٹ کرنے کی کوششیں ناکام ہوگئیں۔

سورج صحرائے چولستان میں آہستہ آہستہ غروب ہو رہا تھا۔ پاک بھارت بارڈر کی لائٹسں آن ہوچکی تھیں۔ ہم تمام لوگ اب گائیڈ کے رحم وکرم پر تھے جس کا نام حکیم تھا۔ کچھ دوستوں کی رائے تھی کہ ہمیں اپنے آپ کو رینجرز کے حوالے کردینا چاہیے۔

ملک خلیل اللہ لابر کا خیال تھا کہ ہمیں گاڑی کے پاس ہی رہنا چاہیے۔ مگر ہمارا گائیڈ بضد تھا کہ ہمیں یہ جگہ فوراً چھوڑ دینی چاہیے ، قریب ہی ایک کھیر سر نام کی بستی ہے، ہمیں وہاں جانا چاہیے، اگر ہم اس وقت روانہ ہوںگے تو صبح تک وہاں پہنچ جائیں گے،اگر یہاں سے فوری نہیں نکلتے تو صبح جب سورج نکلے گا تو ہم تمام لوگ مارے جائیں گے۔


یہ جملہ بول کر گائیڈ نے ہمیں چھوڑ کر چلنا شروع کردیا۔ ہم نے منت سماجت کرکے اسے تھوڑی دیر کے لیے روکا۔ آخر کار گاڑی سے پانی کا کین اور کولراٹھایا اور پھر نامعلوم منزل کی طرف پیدل روانہ ہوگئے جہاں راستے میں موت ملک خلیل اللہ لابر کا انتظار کررہی تھی۔ پانی کا کین اٹھانے کی ذمے داری مجھے سونپی گئی۔

کیونکہ میں سب چھوٹا اور توانا تھا، کولر منا شیخ کے حصے میںآیا۔ ہم ریت کے سمندر میںچل رہے تھے۔ پاؤں سوج رہے تھے اور پانی ختم ہوتا جارہا تھا۔ مرتضی کھر اور خلیل اللہ لابر نے ہاتھ کھڑے کیے اور کہا کہ ہم اب مزید نہیں چل سکتے، ہمیں دو گلاس پانی ہے تو دے دو ورنہ اﷲ حافظ۔ اتنہائی دکھ دل اور بھیگی آنکھوں سے ان دونوں کو اﷲ وہیں چھوڑ دیا ۔ منا شیخ، میں اور گائیڈ حکیم بستی کھیر سر جانے کے لیے روانہ ہوگئے۔

ہم نے ایک گھنٹہ پیدل سفرکیا ہوگا کہ ریت کے ٹیلے پر منا شیخ بھی ہمت ہار گئے۔ انھوں نے بھی ایک گلاس پانی مانگا اور مایوسی کے عالم میںکہا، پیدل چلنے کے بعد بھی مرنا ہے تو کیوں نہ یہیں لیٹ کر دم دے دوں ۔گائیڈ نے میری طرف دیکھا اور پوچھا، کیا پروگرام ہے؟ میں نے کہا کہ میں تمھارے ساتھ چلوں گا۔ یوں اب ہم دو افراد نے بستی کھیر سر کا سفر شروع کیا۔

ہمارے پاس ایک سے دو گلاس پانی باقی رہ گیا تھا۔رات گزر گئی ، سورج نکل چکا تھا لیکن بستی کھیر سر کا کوئی نام و نشان دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ سراب کسے کہتے ہیں،اس سفر میں نے سراب کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ سراب مسافر کو امید دلاتا ہے اور لگتا ہے کہ منزل قریب آگئی ہے، میں بھی سراب دیکھتااور گائیڈ سے پوچھتا ، '' بستی کھیر سر کدھر ہے''۔ گائیڈ سراب کو دیکھ کر کہتا کہ وہ جو سامنے جگہ دکھائی دے رہی ہے وہ بستی کھیر سر ہے۔آخر کار ہم بستی کھیر سر پہنچنے میں کامیاب ہوگئے، بستی،گاؤں یا گوٹھ میں جانور مرے پڑے تھے۔

لوگ قحط سالی کی وجہ سے نقل مکانی کر چکے تھے۔ ایک گھر کا تالا اس آس پر توڑا کہ شاید پانی مل جائے۔ مگر گھر میں پانی کے سوا ہر چیز موجود تھی۔ اس وقت ذہن میں خیال آیا کہ اس طرح نہیں مرنا، زندہ رہنے کے لیے آخری سانس تک کوشش کرنی ہے، ایک گھر سے ایک خالی برتن اٹھایا اور پانی کی تلاش کے لیے بستی کی گلیوں میں نکل پڑے، ایک جگہ پلاسٹک ٹینکیاں نظر آئیں،قریب گئے ایک ٹینکی میں مٹی میں ملا گاڑھا گدلا پانی پڑا تھا۔

احتیاط سے ٹینکی کو سیدھا کیا، مٹی بیٹھنے کا انتظار کرنے لگے تاکہ کچھ پانی اوپر آجائے، تھوڑی دیر میں مٹی نیچے بیٹھ گئی تو گھونٹ گھونٹ پانی پی کر موت کا انتظار کرنے لگے کیونکہ اب نہ تو چلنے کی ہمت باقی رہی تھی اور نہ ہی جسم ساتھ دے رہا۔ گائیڈ نے نیم مردہ حالت میںکہا کہ دعا کریں کہ کوئی شکاری ادھرآجائے کیونکہ شکاریوںکو یہی معلوم ہے کہ بستی کھیر سر کا ٹوبہ پانی سے بھرا رہتا ہے اور ہرن پانی پینے کے لیے یہاں آتے ہیں۔

اچانک گھر کے باہر گاڑی کے ہارن کی آواز سنائی دی، میں ہمت کی،اور لڑکھڑاتے ہوئے باہر آیا، سامنے دو گاڑیاں نظر آئیں، ایک میں سابق ایم پی اے ملک خلیل اللہ لابر کی ڈیڈ باڈی رکھی تھی دوسری گاڑی میں منا شیخ اور ملک مرتضی کھر بے ہوشی کی حالت میںلیٹے تھے۔

ہوا یوں تھا کہ ہمارے جو ساتھی ابتدا میں گاڑی خراب ہونے کی وجہ سے واپس قلعہ دراوڑ آگئے تھے ، وہ ہماری واپسی کا انتظار کررہے تھے، 22 گھنٹے گزرنے کے بعد جب ہماری واپسی نہ ہوئی تو انھوں نے مقامی لوگوں سے رابطہ کیا، مقامی کھوجیوں کی خدمات لی گئیں، ہمارے پاؤں کے نشانوں پر ہماری تلاش کرکے ہمیں ریسکیو کرلیا گیا مگر سمندر کی تہہ میں میں اترنے والی جدید ٹیکنالوجی سے لیس ٹائٹین کو نہ تو ٹیکنالوجی نے ریسکیو کیا اور نہ ہی اوشن گیٹ کمپنی نے۔

دعا ہے کہ اﷲ پاک ہمارے دوست خلیل اللہ لابر کو چند دن قبل ملازم کے ہاتھوں قتل ہونے والے منا شیخ کو جنت میں جگہ دے، شہزادہ داود اور ان کے بیٹے سلمان داود کو جنت عطا فرمائے ۔
Load Next Story