پاکستان پوسٹ نے عدم ادائیگی پر جامعہ کراچی کی دستاویزات کی ترسیل روک دی
مستقل ڈائریکٹر فنانس نہ ہونے سے شعبہ مالیات بدانتظامی کا شکار، ایوننگ پروگرام کے اساتذہ بھی معاوضے سے محروم
جامعہ کراچی میں شعبہ مالیات میں بدانتظامی کے باعث 1 کروڑ روپے کی عدم ادائیگی پر پاکستان پوسٹ نے جامعہ کراچی سے ڈگریوں سمیت ہر قسم کی دستاویزات کی ترسیل روک دی ہے۔
اس سے قبل امتحانی کاپیوں کی اسسمنٹ کرنے والے کالج اساتذہ تین چار سال سے اپنے معاوضوں سے محروم ہیں اور عدم ادائیگیوں کی بنا پر اکثر اساتذہ نے جامعہ کراچی سے امتحانی کاپیوں کی اسسمنٹ سے معذرت بھی کر لی ہے ۔
دوسری جانب جامعہ کراچی کے ریونیو کا ایک بڑا وسیلہ قرار دیے جانے والے ایوننگ پروگرام میں بھی اساتذہ کو معاوضوں کی ادائیگی تقریباً بند ہے اور اس کا شکار سب سے زیادہ وزیٹنگ فیکلٹی ہے، کالج اساتذہ اور ایوننگ پروگرام کی عدم ادائیگیوں کی رقم کئی کروڑ روپے تک جاچکی ہے۔
بات صرف یہیں نہیں رہی بلکہ حال ہی میں مارننگ پروگرام میں پڑھانے والے غیر مستقل اساتذہ(ٹیچنگ ایسوسی ایٹس) کو بھی تنخواہوں کا اجرا بند کردیا گیا ہے، مزید برآں بڑے پیمانے پر ترقی پانے والے اساتذہ کی " پے فکسیشن" بھی رکی ہوئی ہے۔
یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ ماہ کی تنخواہوں میں جزوقتی ملازمین کو تنخواہیں بھی جاری نہیں کی گئیں جبکہ عید الاضحی سے قبل تنخواہوں کی ادائیگی کے ضمن میں بھی پینشنرز کو پینشن جاری نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
دوسری طرف یونیورسٹی کیمپس میں مقیم اساتذہ و عملے کو بجلی کے بلوں کی مد میں ماہانہ 3 کروڑ روپے سے زائد کی سبسڈی کا سلسلہ تاحال جاری ہے، کسی بھی بڑے بنگلے سے زیادہ سے زیادہ بجلی کے بل کی مد میں 6 سے 8 ہزار روپے ماہانہ لیے جارہے ہیں۔
ان گھروں پر بجلی کے میٹرکی تنصیب نہیں کی جارہی جس کے سبب کیمپس کے رہائشی 8 ہزار روپے ادا کرکے 4 سے 6 ایئر کنڈیشنر کے ساتھ ماہانہ 50 ہزار روپے سے زائد کی بجلی خرچ کررہے ہیں اور یونیورسٹی کا محکمہ فنانس اس سلسلے میں مسلسل ادائیگیاں کرکے یونیورسٹی کے خزانے کو نقصان پہنچا رہا ہے۔
شعبہ مالیات کی یہ بد انتظامیاں اور عدم ادائیگیوں کا سلسلہ کم از کم گزشتہ ساڑھے 3 سال سے مسلسل جاری ہے اس دوران یونیورسٹی میں دو بار انتظامی سطح پر تبدیلی بھی آچکی ہے تاہم حکومت سندھ کی جانب سے تعینات ڈائریکٹر فنانس اپنی مدت ملازمت پوری کرنے اور ان مالی بد انتظامیوں کے باوجود اپنے عہدے پر موجود ہیں۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ جامعہ کراچی کے ڈائریکٹر فنانس اکثر اپنے دفتر نہیں آتے اور گھر سے بیٹھ کر دفتر چلاتے ہیں اور یونیورسٹی کے مالی امور کی نگرانی کرتے ہیں۔
"ایکسپریس" نے مسلسل دو روز ان کے دفتر جاکر ان معاملات پر شعبہ فنانس کا موقف جاننے کی کوشش کی تاہم عملے کی جانب سے بتایا گیا کہ صاحب دفتر نہیں پہنچے ہیں، ان سے فون کرکے رابطے کی بھی کوشش کی گئی اور ووٹس ایپ پر بھی موقف جاننے کے لیے رابطہ کہا گیا تاہم وہ مسلسل رابطے سے گریز کرتے رہے۔
واضح رہے کہ جامعہ کراچی کے شعبہ فنانس کو ایوننگ پروگرام اور کالج ایجوکیشن سے طلبا کی فیسوں کی مد میں مسلسل کروڑوں روپے کی وصولی ہورہی ہے تاہم اس نظام کو چلانے والے اساتذہ ہی اپنے معاوضوں سے محروم ہیں۔
جامعہ کراچی کے شعبہ فنانس کے ذرائع بتاتے ہیں کہ صرف بی کام اور بی اے ریگولر (ایسوسی ایٹ ڈگری) کی فیسوں کی مد میں شعبہ امتحانات سے 15 مارچ سے 30 مارچ تک 30 لاکھ روپے ،31 مارچ سے 27 اپریل تک 1 کروڑ 12 لاکھ روپے جبکہ اس کے بعد 2 سے 19 مئی تک 1 کروڑ 48 لاکھ روپے وصول کیے گئے۔
شعبہ فنانس نے ان رقوم سے نہ صرف متعلقین کو ادائیگیاں نہیں کی گئی بلکہ پاکستان پوسٹ کی ادائیگی بھی روک دی جس کی رقم تقریباً 1 کروڑ روپے ہے جس کے رد عمل میں پاکستان پوسٹ نے جامعہ کراچی کی سروس معطل کردی۔
اب جامعہ کراچی طلبہ سے اسناد اور مارک شیٹس کے اجراء ، اسناد کی ویریفیکیشن اور دیگر مدوں میں فیس تو لے رہی ہے لیکن طلبا کو ان کی متعلقہ دستاویزات متعلقہ پتوں تک پہنچنے کا سلسلہ رک چکا ہے۔
دستاویزات کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں جسے پاکستان پوسٹ لینے کو تیار نہیں لیکن یونیورسٹی کا شعبہ فنانس اس ادائیگی کے لیے بھی تیار نہیں۔
جامعہ کراچی کے شعبہ امتحانات سے اس معاملے کی تصدیق ہوئی ہے دوسری جانب ٹیچنگ ایسوسی ایٹس اور کالج اساتذہ کی عدم ادائیگیوں کا معاملہ بھی گھمبیر ہوتا جارہا ہے۔ شعبہ بین الاقوامی تعلقات میں ٹیچنگ ایسوسی ایٹ نے "ایکسپریس" کو بتایا کہ "انھیں اپریل سے تنخواہ نہیں ملی ہے، اس کے باوجود وہ تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
مذکورہ استاد نے انکشاف کیا کہ انھیں ایم اے کی امتحانی کاپیوں کی اسسمنٹ کی ادائیگی سال 2021 سے نہیں کی گئی، اگر اسسمنٹ میں تاخیر ہوتی ہے تو شعبہ امتحانات سے نوٹس آجاتا ہے لیکن ہماری ادائیگیاں نہ ہونے پر کوئی نوٹس لینے والا نہیں ہے۔
ٹیچر کا کہنا تھا کہ وہ شعبہ مالیات میں کئی بار جاچکا ہے ہر بار کچھ نیا بہانہ کردیا جاتا ہے اب وائس چانسلر کا دروازہ کھٹکھٹانا باقی رہ گیا ہے"۔ ایک اور کالج استاد کا کہنا تھا کہ "انھوں نے ایسوسی ایٹ ڈگری کی امتحانی کاپیوں واپس کردی اور اب مزید اسسمنٹ نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ادھر شعبہ امتحانات کے ذرائع بھی بتا رہے ہیں کہ اس بار کئی کالج اساتذہ نے امتحانی کاپیوں اسسمنٹ کے بغیر ہی واپس بھجوادی ہیں۔
یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جامعہ کراچی کے ایم فل/پی ایچ ڈی اور بی ایس کے داخلوں کے لیے استعمال ہونے والی پورٹل سروس بھی کئی ماہ سے عدم ادائیگی کے سبب ہی بن پڑی تھی، یہ رقم بھی 1 کروڑ روپے سے زائد ہے۔
اس وجہ سے بورڈ برائے ایڈوانس اسٹڈیز اینڈ ریسرچ کے فیصلوں اور تمام تیاریوں کے باوجود جامعہ کراچی کم از کم دو ہفتے تک ایم فل/ پی ایچ ڈی کے داخلوں کا اعلان نہیں کرسکی اور داخلوں میں بھی تاخیر ہوئی۔
اسی طرح گزشتہ برس مستحق اور ذہین طلبا کی اسکالر شپ کی رقم شعبہ فنانس کی جانب سے طلبا کو دینے کے بجائے مختلف مدوں میں استعمال کرنے کا معاملہ سامنے آچکا ہے۔
یاد رہے کہ سندھ کی 20 سے زائد جامعات کی طرح جامعہ کراچی میں بھی کوئی مستقل ڈائریکٹر فنانس موجود نہیں، قائم مقام ڈائریکٹر فنانس اپنی تین سالہ مدت گزشتہ اکتوبر میں پوری کرچکے ہیں تاہم حکومت سندھ جامعات کو مستقل ڈائریکٹر فنانس دینے کو تیار نہیں۔
ادھر سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز پر بھی الزام عائد کیا جارہا ہے کہ وہ جامعہ کراچی کے قائم مقام ڈائریکٹر فنانس کی پشت پناہی کررہے ہیں جس سے یونیورسٹی میں مشکلات ہیں ۔
اس سلسلے میں سیکریٹری یونیورسٹیز اینڈ بورڈز مرید راہیمو سے جب "ایکسپریس" نے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ "میں کیوں کسی کی پشت پناہی کرنے لگا میرے محکمے نے تو نئے ڈائریکٹر فنانس کی تقرری کی سمری 3 ماہ سے وزیر اعلی کو بجھوارکھی ہے تاہم سمری منظوری نہیں ہوتی۔''
ادائیگیاں نہ ہونے کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ یہ سب کچھ جامعہ کراچی کے لوگوں کے داخلی مسائل کی وجہ سے ہے، میں کیسے یقین کرلوں کہ اساتذہ جو پڑھا رہے ہیں انھیں معاوضہ نہیں مل رہا۔
ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ان اساتذہ سے کوئی پوچھے کہ اپنی حاضری کہاں لگا رہے ہیں، پورے سیمسٹر میں طلبا کی کتنی کلاسز لی ہیں، کتنی ریسرچ کی ہے۔
مرید راہیمو نے سوال کیا کہ اگر ڈائریکٹر فنانس صحیح کام نہیں کررہا تو وائس چانسلر اس معاملے کو سینڈیکیٹ میں پیش کیوں نہیں کرتے، وہ کیوں خاموش ہیں؟