9 مئی کسی کو سزائے موت نہیں ہوگی ملزمان وکیل بھی کرسکیں گے حکومت کی یقین دہانی
حکومتی یقین دہانی پر چیف جسٹس نے فوجی عدالتوں کی کارروائی فوری طور پر روکنے کی استدعا ایک بار پھر مسترد کردی
حکومت نے سپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی ہے کہ نو مئی کے ملزمان کو فوجی عدالت سے سزائے موت نہیں دی جائیگی اور انہیں وکیل مقرر کرنے کا موقع دیا جائیگا، اس یقین دہانی پر عدالت نے آئندہ سماعت تک فوجی عدالتوں کی کارروائی روکنے کی استدعا مسترد کریں۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں چھ رکنی لارجر بینچ نے سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف درخواستوں کی سماعت کی۔
حکومت کی عدالت کو تین یقین دہانیاں
دوران سماعت اٹارنی جنرل نے فوج کے زیر حراست افراد سے متعلق تین یقین دہانیاں کروا دیں۔ زیر حراست کسی فرد کا فوری ٹرائل ہوگا نہ ہی سمری ٹرائل ہوگا، کسی بھی زیر حراست شخص کو سزائے موت نہیں دی جائے گی، وکیل مقرر کرنے کا موقع دیا جائے گا اور اہل خانہ کو بیان کی کاپی بھی فراہم کی جائے گی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ قانون کے مطابق ٹرائل کے تمام تقاضے پورے کیے جائیں گے اور ابھی ملزمان کے حوالے سے تحقیقات جاری ہیں، تحقیقات حتمی ہو بھی جائیں تو پھر بھی ٹرائل میں وقت درکار ہوگا، سمری ٹرائل نہیں کیا جائے گا اور ٹرائل شروع ہو بھی گیا تو ملزمان کو وکلاء کرنے کی مہلت دی جائے گی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم آپ کے اس بیان کو عدالتی آرڈر کا حصہ بنائیں گے۔ چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ ملزمان کو چارج کی نقول فراہم کی جائیں۔
آئندہ سماعت تک فوجی عدالتوں کی کارروائی روکنے کی استدعا مسترد
درخواست گزار وکلاء نے استدعا کی عدالت آئندہ سماعت تک فوجی عدالتوں کی کارروائی روک دے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ابھی ہم حکم امتناعی نہیں دے رہے، میں عید کے فوری بعد دستیاب ہوں گا، کوئی اہم پیش رفت ہوتی ہے تو مجھے آگاہ کیا جا سکتا ہے۔
قبل ازیں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں اٹارنی جنرل نے سویلینز کے ٹرائل شروع ہونے پر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت کسی سویلین کا ٹرائل نہیں چل رہا۔
درخواستوں کی سماعت شروع ہوئی تو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری روسٹرم پر آئے اور کہا کہ ہم نے بھی اس معاملے پر درخواست دائر کی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپکی درخواست کا نمبر لگ گیا ہے؟ انہوں نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں خوشی ہے کہ سپریم کورٹ بار کی جانب سے بھی درخواست آئی، اچھے دلائل کو ویلکم کیا جائے گا اور جب درخواست کو نمبر لگے گا تب دیکھ لیں گے۔
چیٸرمین پی ٹی آئی کے وکیل دلائل
چیٸرمین پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں، میرے دلائل صرف سویلین کے ملٹری ٹرائل کے خلاف ہوں گے جبکہ فوجیوں کے خلاف ٹرائل کے معاملے سے میرا کوئی لینا دینا نہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر نے کل پریس کانفرنس میں کہا کہ ٹرائل جاری ہے اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس اٹارنی جنرل کے بیان سے متضاد ہے۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میں آج بھی اپنے بیان پر قائم ہوں، ابھی تک کسی سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل شروع نہیں ہوا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں آپ کی بات پر یقین ہے۔
وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ پارلیمنٹ بھی آئینی ترمیم کے بغیر سویلین کے ٹرائل کی اجازت نہیں دے سکتا، اکیسویں ترمیم میں یہ اصول طے کر لیا گیا ہے کہ سویلین کے ٹرائل کے لیے آئینی ترمیم درکار ہے۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ اگر اندرونی تعلق کا پہلو ہو تو کیا تب بھی سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہو سکتا؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ اندرونی تعلق کے بارے میں جنگ کے خطرات دفاع پاکستان کو خطرہ جیسے اصول اکیسویں ترمیم کیس کے فیصلے میں طے شدہ ہیں جبکہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ آئی ایس پی آر کی گزشتہ روز کی پریس کانفرنس کے بعد صورتحال بالکل واضح ہے، کیا اندرونی تعلق جوڑا جا رہا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ابھی جو کارروائی چل رہی ہے وہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ (ٹو ڈی ون) کے تحت ہے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے اٹارنی جنرل کو روسٹرم پر بلا لیا اور استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل بتاٸیں کہ ملزمان کے خلاف کون سا قانون استعمال کیا جا رہا ہے؟
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ نو مٸی واقعات سے جڑے ملزمان کے خلاف 2ڈی ٹو کے تحت کارروائی کی جا رہی ہے، 2ڈی ون کے تحت ان ملزمان کا ٹراٸل ہوتا ہے جن کا کسی طرح فوج کے ساتھ تعلق ہو۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ دلچسپ بات یہ ہے کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ ہمارے پاس دستیاب نہیں، ایکٹ کی عدم دستیابی کے باعث ہوا میں باتیں ہو رہی ہیں، لیاقت حسین کا کن دہشت گردوں تعلق تھا، دہشت گردوں کا فوج سے کوٸی براہ راست تعلق نہیں تھا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ہم ماضی میں سویلین کے خلاف فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی مثالوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے، ماضی کی ایسی مثالوں کے الگ حقائق اور الگ وجوہات تھیں۔
وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ اکیسویں آئینی ترمیم کا اکثریتی فیصلہ بھی یہی شرط عائد کرتا ہے کہ جنگی حالات ہوں تب ہوگا، آئین کا آرٹیکل 175 تھری جوڈیشل اسٹرکچر کی بات کرتا ہے، آئین کا آرٹیکل 9 اور 10 بنیادی حقوق کی بات کرتے ہیں اور یہ تمام آرٹیکل بھلے الگ الگ ہیں مگر آپس میں ان کا تعلق بنتا ہے۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ بنیادی حقوق کا تقاضا ہے کہ آرٹیکل 175 تھری کے تحت تعینات جج ہی ٹرائل کنڈکٹ کرے، سویلین کا کورٹ مارشل ٹرائل عدالتی نظام سے متعلق اچھا تاثر نہیں چھوڑتا اور کسی نے بھی خوشی کے ساتھ اس کی اجازت نہیں دی۔
جسٹس عائشہ ملک نے اسفتسار کیا کہ افراد کی حوالگی سے پہلے فیصلہ کون کرے گا کہ ان کو حوالہ کیا جانا ہے۔ وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ ملزمان کو فوجی عدالتوں میں حوالگی سے پہلے ہی فیئر ٹرائل سمیت تمام حقوق ملنے چاہیے۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ اگر ایمرجنسی نافذ نہیں اور تمام حقوق قائم ہیں تو آئین پر عمل ہی واحد آپشن ہے۔
وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ 175/3 بنیادی طور پر 9/10 آرٹیکل سے مطابقت رکھتا نہیں ہے، آرٹیکل 9-10 بنیادی حقوق کی بات کرتا ہے، فوجی اہلکاروں کو بنیادی حقوق فراہم کیے جائیں گے یا نہیں علحیدہ سوال ہے، سویلینز کو آئین میں دیے گئے بنیادی حقوق سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ میں صرف ایک جگہ 59/4 تمام افراد پر لاگو کرنے کا کہا گیا ہے۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ ایف آئی آر میں بھی سیکریٹ ایکٹ کے نفاذ کا ذکر نہیں کیا گیا، آرمی ہاکی ٹیم سپورٹس میں ہے اگر وہاں کوئی بات ہوتی ہے تو اس کا مطلب آفیشل سیکریٹ نہیں ہوگا۔
جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ ٹو ون ڈی صرف ان افراد پر لگے گا جن کے لیے ایکٹ بنایا گیا جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ایکٹ کو پورا پڑھا جائے تو یہ تب لاگو ہوتا ہے جب دشمن کو فائدہ دینے کے لیے کچھ کیا جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ افسران میں سب سے اہم چیز مورال ہوتی ہے، کوئی عمل جو آرمی افسر کا مورال کم کرے وہ دشمن کو فائدہ پہنچاتی ہے۔
وقفے کے بعد سماعت
جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ کیا آفیشل سیکریٹ کی سزا میں ضمانت ہوسکتی ہے؟
وکیل درخواست گزار عزیر بھنڈاری نے بتایا کہ جی آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی سزا میں ضمانت ہوسکتی ہے، ایف آئی آر میں تو آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا ذکر ہی نہیں ہے، ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے تحفظ پاکستان ایکٹ کو ضم کرکے انسداد دہشتگردی کی دفعات شامل کی گئیں۔ 2017 میں ترمیم کرکے 2 سال کی انسداد دہشتگردی کی دفعات کو شامل کیا گیا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ شواہد کے بغیر کیسے الزامات کو عائد کیا جاتا ہے؟ یہ معاملہ سمجھ سے بالاتر ہے اور سقم قانون میں ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ریکارڈ ظاہر کرتا ہے کہ کیا الزام لگایا گیا یہ تفصیل موجود ہی نہیں۔ عزیر بھنڈاری نے کہا کہ آرمی افسران کی جانب سے ملزمان کی گرفتاری غیر قانونی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کسی شخص پر شواہد کے بغیر الزام لگانا بے کار ہے، اٹارنی جنرل ہم نے ایسی معلومات منگوائی ہیں جو تمام والدین کے لیے فائدہ مند ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ ان مقدمات میں تو ملزمان پر الزام ہی نہیں تھا، ان مقدمات میں ملزمان پر پاکستان پینل کوڈ کے الزامات ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ یہ تو سمجھ آتی ہے کہ پہلے گرفتار کرتے ہیں پھر تحقیقات کرتے ہیں۔
وکیل چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ اس کیس میں بہت سے حقائق تسلیم شدہ ہیں، اور تسلیم شدہ حقائق سے بدنیتی اخذ کی جا سکتی ہے، چیئرمین پی ٹی آئی کا میڈیا پر مکمل بین ہے، اوپن پبلک ٹرائل ہونا چاہیے اور صحافیوں کو ٹرائل کی رپورٹنگ کی اجازت ہونی چاہیے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملزم کی تعریف نہیں کی گئی، سپریم کورٹ نے 1975 کے فیصلے میں طے کیا کہ جوڈیشل سائیڈ پر طے ہوگا ملزم کون ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل عزیر بھنڈاری کے دلائل مکمل ہوگئے جبکہ درخواست گزار ذمان وردگ نے تحریری دلائل جمع کروا دیے۔
اٹارنی جنرل کے دلائل
جسٹس یحیحی آفریدی نے اٹارنی جنرل کو ہدایات کی کہ آپ ہمیں مکمل حقائق دیں۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ میں نے تحریری معروضات سمیت تمام تفصیلات فراہم کر دی ہیں، نو مئی کا واقعہ جس کے بعد ملزمان کی حوالگی کا عمل شروع ہوا اور ساری کارروائی کا بیشتر حصہ رولز میں موجود ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا حراست میں لینے کے عمل میں قانونی تقاضے پورے کیے گئے؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ٹرائل کا طریقہ اور حقوق سے متعلق تفصیل بتاوں گا۔
زیر حراست افراد ہفتے میں ایک بار اہل خانہ سے مل سکیں گے، اٹارنی جنرل
اس موقع پر اٹارنی جنرل نے سفید فائل چیف جسٹس کے حوالے کر دی اور بتایا کہ 102 افراد کی مکمل تفصیل اس میں موجود ہے، اہلخانہ کی زیر حراست افراد سے ہفتہ کی بنیاد پر ملاقات ہوسکتی ہے اور والدین اہلخانہ ہفتے میں ایک بار متعلقہ افسر کو درخواست دیکر ملاقات کر سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں نے جیلوں کا دورہ کیا وہاں بھی ملزمان کو اہلخانہ سے بات کرنے کی اجازت دی جاتی ہے، ہر ملزم کو بات کرنے کے لیے کچھ منٹس دیے جاتے ہیں اور آپ نے خود کہا کہ ملزمان پر ابھی الزامات نہیں لگائے۔
جسٹس یحیحیٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ ملزمان پر چارج نہیں تو انہیں نامزد کیسے کیا گیا؟ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ملزمان کو خوراک کی فراہمی کا کوئی ایشو نہیں۔
جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیوں خفیہ رکھا جارہا ہے کہ 102 کونسے ملزمان ہیں؟ کیا ملزمان کے نام پبلک کرنے میں کوئی مسئلہ ہے؟ فہرست دیکھ کر ہر کوئی اپنے افراد کا حراست میں ہونے یا نہ ہونے کا کہہ سکتا ہے، سادہ سوال ہے کیوں فہرست پبلک نہیں کی جا رہی؟
اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ میری درخواست ہے اس تفصیل کو خفیہ رکھا جائے، ہم 102 افراد کے اہلخانہ کو الگ الگ فون کرکے آگاہ کر دیں گے اور یہ عمل 24 گھنٹوں میں مکمل کرلیں گے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ فہرست پبلک ہوجائے گی تو تشویش ختم ہوجائے گی کہ کون گرفتار ہے جبکہ جسٹس یحیحیٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ مسئلہ یہ ہے کہ فہرست پبلک ہوگئی تو اہلخانہ کی تشنگی بڑھ جائے گی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ اچھی بات ہے کہ عید سے پہلے اہلخانہ کو اطلاع مل جائے۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ فہرست پبلک کرنے سے متعلق ایک گھنٹے میں آگاہ کروں گا البتہ صحت کی سہولیات دی جا رہی ہیں اور ڈاکٹر موجود ہیں، صحافیوں اور وکلاء سے متعلق کچھ واقعات ہوئے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وکلاء کو مکمل تحفظ ہونا چاہیے، عمران ریاض لاپتہ ہیں، کیا عمران ریاض آپ کی تحویل میں نہیں ہیں؟ عمران ریاض کو تلاش کریں اور بازیاب کریں۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ عمران ریاض ہماری تحویل میں نہیں ہے لیکن وفاقی حکومت عمران ریاض کی بازیابی کے لیے مکمل تعاون کر رہی ہے۔
کوشش کریں عمران ریاض عید اپنے گھر والوں کے ساتھ کریں، چیف جسٹس
چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل کی طرف سے دی گئی 102افراد کی فہرست اٹارنی جنرل کو واپس کر دی۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ کوشش کریں عمران ریاض عید اپنے گھر والوں کیساتھ کریں، صحافیوں اور وکلاء سمیت ریاست کا ہر شہری عزت اور احترام کا مستحق ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ عمران ریاض سے متعلق مجھے میرے موبائل پر واٹس ایپ کے ذریعے ایک خط ملا، خط میں مجھے کہا گیا میں کچھ نہیں کر رہا۔ شہریوں سے متعلق سب سے پہلی ذمہ داری ریاست کی ہے، حکومت عوام کے خدشات دور کرنے کے لیے تعاون کرے، حکومتی تعاون سے عوامی اعتماد بڑھتا ہے اور دوسری صورت میں خدشات بڑھتے ہیں۔
بعدازاں سپریم کورٹ نے سماعت جولائی کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کر دی۔
دوران سماعت دو دلچسپ مکالمے
فوج کے زیر حراست افراد یہ نہ کہہ دیں کہ ہمیں مزید قیام کرنا ہے، جسٹس مظاہر
دوران سماعت دو دلچسپ مکالمے ہوئے۔ پہلا مکالمہ اٹارنی جنرل اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے درمیان ہوا جب بہتر سہولیات کے بارے میں اٹارنی جنرل کے دلائل پر جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ کہیں فوج کے زیر حراست افراد یہ نہ کہہ دیں کہ ہمیں مزید قیام کرنا ہے اس پر اٹارنی جنرل بولے اگر ایسا کہا گیا تو ان کی خواہش پوری کردی جائے گی۔
ہدایات یہاں سے نہیں کہیں اور سے آتی ہیں، اٹارنی جنرل
ایک اور موقع پر جب ایڈووکیٹ لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہاں ایک صاحب موجود ہیں ان سے ہدایات لے لیں جس پر اٹارنی جنرل بولے کہ ہدایات یہاں سے نہیں بلکہ کہیں اور سے آتی ہیں۔ اس پر کمرہ عدالت میں مسکراہٹیں بکھر گئیں۔