عوام کے لیے بلدیاتی انتخابات اہم ہیں

عوام کا زیادہ واسطہ ارکان اسمبلی سے نہیں بلدیاتی عہدیداروں سے پڑتا ہے جو ہر وقت مسائل کے حل کے لیے موجود ملتے ہیں


Muhammad Saeed Arain June 28, 2023
[email protected]

پنجاب میں ابھی بلدیاتی انتخابات نہیں ہوئے ہیں جب کہ سندھ، بلوچستان اور کے پی میں بلدیاتی انتخابات کا عمل مکمل ہو چکا ہے ۔

2015 کے آخر میں چاروں صوبوں میں جو بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے 'وہ اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے حکم پر ہوئے تھے اور اس وقت پنجاب میں مسلم لیگ (ن)، سندھ میں پیپلز پارٹی، کے پی میں پی ٹی آئی اور بلوچستان میں مخلوط حکومت تھی۔ وہ بلدیاتی انتخابات پہلی بار جماعتی بنیاد پر ہوئے تھے۔

پنجاب میں مسلم لیگ (ن) نے بھاری اکثریت حاصل کی تھی جب کہ پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کو برائے نام کامیابی ملی تھی۔ سندھ میں دیہی علاقوں سے پیپلز پارٹی اور شہری علاقوں میں ایم کیو ایم کامیاب ہوئی تھیں۔

پہلی بار سکھر کی میئر شپ پی پی کو اور کراچی اور حیدرآباد کی میئرشپ ایم کیو ایم کو ملی تھیں اور ایم کیو ایم پہلے بھی متعدد بار سندھ کے ان دونوں بڑے شہروں میں بلدیاتی حکمرانی کر چکی ہے مگر پیپلز پارٹی نے جان بوجھ کر اپنی سندھ حکومت میں بلدیاتی اداروں کو آئین کے مطابق بلدیاتی اختیارات نہیں دیے تھے جس کے خلاف میئر کراچی اور جماعت اسلامی نے اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کیا مگر بلدیاتی عہدیداروں کی مدت پوری ہوگئی ۔

ایم کیو ایم کا میئر کراچی چار سال اختیارات نہ ہونے کا رونا روتا رہا ،جماعت اسلامی بھی بلدیاتی اختیارات کا مطالبہ کرتی رہی مگر کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی اور ان بلدیاتی اداروں کی مدت پوری ہوگئی تھی اور پیپلز پارٹی کی حکومت نے سندھ میں بلدیاتی مدت ضرور پوری کرائی تھی اور پنجاب کے سوا دیگر صوبوں میں بھی بلدیاتی مدت مکمل ہوئی تھی۔

ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں اکثریت مسلم لیگ (ن) نے 2018 میں حاصل کی تھی مگر ایک منصوبے کے تحت پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت قائم کرائی گئی تھی جو خود کو جمہوری اور عوام کو اختیارات نچلی سطح پر فراہم کرنے کی دعویدار تھی مگر پنجاب کی نام نہاد جمہوری حکومت نے آتے ہی سب سے پہلے وار پنجاب کے منتخب بلدیاتی اداروں پر کیا۔

پہلے (ن) لیگی بلدیاتی عہدیداروں کے ترقیاتی فنڈز روکے گئے ان کے اختیارات کم کیے گئے اور چند ماہ بعد ہی پنجاب کے تمام بلدیاتی ادارے توڑ کر عوام کی نمایندگی کرنے والے (ن) لیگی بلدیاتی عہدیداروں کی جگہ سرکاری ایڈمنسٹریٹر مقرر کیے گئے۔

جس کے خلاف پنجاب کے بلدیاتی عہدیداروں نے لارڈز میئر لاہور کی قیادت میں لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور پھر سپریم کورٹ میں پنجاب حکومت کے خلاف اپیل کی تو ایک سال سے زیادہ کیس چلنے کے بعد سپریم کورٹ نے پنجاب کے بلدیاتی ادارے بحال کرنے کا حکم دیا۔

جسے بزدار حکومت نے اپنے وزیر اعظم کی ہدایت پر سات ماہ تک عمل نہ کیا جس پر کیس کی کارروائی میں پھر 6 ماہ مزید لگے اور سپریم کورٹ نے دوبارہ بلدیاتی ادارے بحال کرنے کا حکم دیا تو بلدیاتی اداروں کی مدت ختم ہونے میں دو ماہ باقی رہ گئے تھے جس کی وجہ سے منتخب بلدیاتی عہدیدار پنجاب میں بہ مشکل دو سال بھی کام نہ کرسکے مگر عدالتی حکم نہ ماننے پر پنجاب کی پی ٹی آئی حکومت کے خلاف کوئی بھی کارروائی نہ کی گئی اگر وزیر اعلیٰ پنجاب کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہو جاتی اور پنجاب کے بلدیاتی ادارے بروقت بحال کرا دیے جاتے تو پنجاب کے (ن) لیگی بلدیاتی حکام پی ٹی آئی کے سیاسی انتقام سے کچھ محفوظ رہتے۔

آئین میں ملک میں بااختیار مقامی حکومتوں کے قیام کا حکم موجود ہے مگر سیاسی حکومتیں بااختیار بلدیاتی عہدیداروں کے بجائے ارکان اسمبلی کو ترجیح اور سیاسی رشوت کے طور پر غیر قانونی ترقیاتی فنڈز دیتی ہیں جو بلدیاتی اداروں کا حق ہے مگر انھیں حکومتی گرانٹ خیرات کے طور پر اور من پسند ارکان اسمبلی کو سیاسی رشوت اور مال کمانے کے لیے دی جاتی ہے کیونکہ حکومتیں ارکان اسمبلی کے ذریعے بنتی ہیں۔

بلدیاتی عہدیداروں کو ارکان اسمبلی سے کم تر سمجھا جاتا ہے حالانکہ عوام کا زیادہ واسطہ ارکان اسمبلی سے نہیں بلدیاتی عہدیداروں سے پڑتا ہے جو ہر وقت مسائل کے حل کے لیے موجود ملتے ہیں جب کہ ارکان اسمبلی منتخب ہو کر عوام سے دور ہو جاتے ہیں وہ تو اکثر اسمبلیوں میں ہی نہیں آتے جب کہ کسی بلدیاتی ادارے میں کبھی بھی کورم کا مسئلہ پیدا نہیں ہوا جو عوام کی دسترس میں ہوتے ہیں اور لوگ دن رات انھیں اپنے کاموں کے لیے پکڑ بھی لیتے ہیں۔

جس طرح پنجاب اسمبلی کے انتخابات کے لیے عدالتی ایکشن لیا گیا اگر ایسے فیصلے اور کارروائی کبھی بلدیاتی اداروں کے الیکشن اور آئینی اختیارات دلانے اور بحالی کے سلسلے میں ہوتے تو عوام کے مسائل جلد حل ہوتے۔ باقاعدہ بلدیاتی الیکشن ہوتے اور ملک میں بلدیاتی نظام مضبوط ہو چکا ہوتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں