کامریڈ جمال الدین بخاری انسانی حقوق کے علمبردار پہلا حصہ

بخاری صاحب سیاست کو عبادت سمجھتے تھے جس کی ہمارے معاشرے کو آج بہت سخت ضرورت ہے

zahedahina@gmail.com

برصغیر نے کمال کی شخصیات پیدا کیں۔ ان میں سے ایک سید جمال الدین بخاری ہیں جنھوں نے اپنی پوری زندگی مظلوم اور محکوم انسانوں کے حق کی خاطر لڑتے ہوئے گزار دی۔

انھوں نے اپنے نظریات پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا لیکن اس کے ساتھ انتہا پسندی سے گریز کرتے ہوئے انسانی رشتوں کے تقدس کو ہمیشہ برقرار رکھا یہی وجہ ہے کہ وہ لوگ جو ان کے نظریات سے مکمل اختلاف رکھتے تھے وہ بھی انھیں بڑی محبت اور عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔

بڑی خوشی ہوئی بخاری صاحب کے فرزند سید مکرم سلطان بخاری نے ان کی شخصیت اور سیاسی جدوجہد کے حوالے سے ایک جامع کتاب مرتب کی ہے۔ اس کتاب میں مختلف الخیال دانشوروں نے بخاری صاحب کے بارے میں اپنے خیالات اور جذبات کا کھل کر اظہار کیا۔ آئیے! دیکھتے ہیں کہ ان کے بارے میں معروف اہل علم کیا لکھتے ہیں۔

ڈاکٹر عبدالمجید میمن، بخاری صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ '' میں نے جو توکل اور ہمت ان میں دیکھی وہ کسی اور میں نہ دیکھ سکا۔ کتنے ہی کٹھن معاملات اور مشکلات ان کے سامنے آئیں، لیکن کبھی بھی پیشانی پر بل نظر نہیں آیا۔ گھر میں کچھ ہے یا نہیں، بچوں کی پرورش اور تعلیم و تربیت کیسے ہوگی۔

ان باتوں کی انھیں کبھی فکر نہیں رہی۔ وہ کبھی بھی مایوس، فکر مند اور پریشان نظر نہیں آئے۔ انھیں ہمیشہ پر امید، با حوصلہ، اٹل اور باہمت دیکھا۔ مجھے یاد نہیں کہ کبھی بھی مجھ سے گفتگو کے دوران کسی کی کوئی شکایت کی ہو یا زمانے کی بے وفائیوں اور ستم ظریفیوں کا رونا رویا ہو، یا زندگی کے اتار چڑھاؤ اور زیادتیوں کا ذکر کیا ہو۔

وہ انسان ذات سے بیحد محبت کرنے والے تھے۔ خاص طور پر غریبوں، ہاریوں اور محنت کشوں کے لیے ان کے دل میں گہرا درد اور پیار تھا اور کسی سے نفرت نہیں تھی۔

وہ وڈیروں، سرمایہ داروں کے علاوہ غریبوں کا استحصال کرنے والی قوتوں کے سخت مخالف تھے اور ان کو ہمیشہ تنقید کا نشانہ بناتے تھے، لیکن ان کے خلاف کبھی نازیبا اور غلط زبان استعمال نہیں کی، وہ اصول اور کردار کے بہت پختہ اور اپنے نظریے سے تادم مرگ سچے تھے۔

ان کے قول و فعل میں کوئی تضاد نہیں تھا۔ جدوجہد اور مقصد سے عشق ان کی زندگی کے بنیادی اصول تھے۔ خود غرضی، خود پرستی، لالچ اور ہوس اقتدار ، بناوٹ اور دکھاؤے کا ان کی زندگی میں کوئی دخل نہ تھا۔

کبھی بھی خود نمائی اور ذاتی تعریف کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی کبھی کسی کی زبان اور قلم سے اپنے کارنامے بیان کرا کر اپنی شخصیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی کوشش کی۔

انتقال سے کچھ دن پہلے بخاری صاحب سیرت النبیؐ کے ایک جلسے میں میرے ساتھ تھے جو 13 دسمبر 1984 کو پاکستان نیشنل سینٹر لاڑکانہ کے ہال میں '' سچل ادبی مرکز'' لاڑکانہ کی جانب سے منعقد کیا گیا تھا۔ اس جلسے میں انھوں نے سیرت النبیؐ پر بڑے جوش و جذبے اور بہت موثر انداز میں تقریر کی اور بڑی محبت اور عشق سے پیارے نبیؐ کے فضائل اور خصائص بیان کیے۔''

معروف سیاسی شخصیت عبدالرزاق سومرو، بخاری صاحب سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

''میں جب کراچی میں زیر تعلیم تھا تو سیاست سے کافی دلچسپی رہی۔ دوستوں کے ہمراہ سیاسی جلسوں اور ایسے دیگر پروگراموں میں شریک ہوتا رہا۔ ہاریوں اور مزدوروں کی بھلائی ہمارے سر پر سوار رہتی تھی۔

اکثر نشستوں میں ان موضوعات پر بحث و مباحثے ہوتے رہتے تھے۔ انھی دنوں میری ملاقات کامریڈ بخاری سے ہوئی اور ان کے ساتھ نشستیں ہوتی رہیں لیکن میرا کمیونسٹ پارٹی سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ البتہ بائیں بازو کی سیاست اور اس سے وابستہ طبقہ سے بہت زیادہ ہمدردیاں رہیں۔

کامریڈ بخاری کا بھی وہ ہی دور تھا۔ کامریڈ سید جمال الدین بخاری نے اپنی تمام زندگی سماجی انصاف اور انسانی بھلائی خصوصاً ہاریوں اور مزدوروں کو ان کے حقوق کے حصول، ان میں شعور اور بیداری پیدا کرنے اور ان کی ہمت افزائی میں گزار دی۔

کامریڈ بخاری نے برصغیر میں ابھرنے والی قومی اور سیاسی تحریکوں میں بھرپور حصہ لیا۔ اس جدوجہد کی پاداش میں اپنی زندگی کا ایک چوتھائی حصہ جیلوں کی صعوبتیں اٹھاتے ہوئے گزار دیا۔


بخاری صاحب سیاست کو عبادت سمجھتے تھے جس کی ہمارے معاشرے کو آج بہت سخت ضرورت ہے۔ کامریڈ بخاری نے ساری زندگی سیاسی شعور اور سیاسی سوجھ بوجھ پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سیاست کو مالی یا ذاتی مفادات کے حصول کا ذریعہ بنانا، اپنی ذات او ر عوام سے دھوکے کے مترادف ہے۔

پسے ہوئے اور پسماندہ طبقات میں سیاسی شعور پیدا کرنا ہی اصل سیاسی خدمت ہے جس پر بخاری صاحب ساری زندگی عمل پیرا رہے۔ بخاری صاحب نہ صرف ایک بڑے مفکر بلکہ ایک استاد اور منجھے ہوئے سیاسی ورکر تھے ۔ انھوں نے اپنی زندگی ایک ماڈل کے طور پر پیش کی اور ثابت کیا کہ سیاست دانوں کے لیے ٹھاٹ باٹھ اور عہدہ رکھنا ضروری نہیں ہے۔

نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ کامریڈ بخاری کی زندگی، جدوجہد اور عوامی خدمت کو مشعلِ راہ بناتے ہوئے سیاسی فکروشعور پیدا کریں اور اس پر عمل کرتے ہوئے ایک اچھے سیاسی ورکر بن کر کامیابی حاصل کریں۔

کتاب میں مشہور ترقی پسند سیاسی رہنما ڈاکٹر اعزاز نذیر نے بخاری صاحب کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں '' بخاری صاحب سے میرا تعلق ان کے ایک ادنیٰ شاگرد اور سپاہی کی طرح کا رہا ۔ جس کا جھنڈا اٹھا کر سترہ ۔ اٹھارہ سال کی عمر میں انھوں نے اپنے اہل خاندان کو خیر باد کہہ دیا تھا۔

ہندوستان پر وہ زمانہ تھا جب اہل ہند ایک پرسکون سمندر کی طرح بظاہر خاموش نظر آتے تھے لیکن برطانوی استعماریت اور اس کی سرگرمیوں کے خلا ف تہہ میں سمندر کی ہلچل پیدا ہورہی تھی جو 1918-1920 میں ایک بپھری ہوئی موج کی طرح اس سمندر سے نمایاں ہوئی۔

محمڈن اینگلو اورنٹیل کالج علی گڑھ میں تعلیم حاصل کرنے والے اس نوجوان کو طالب علمی ہی میں مولانا محمد علی جوہر جیسے اکابرین کی رفاقت حاصل رہی جس کی قدر مشترک بدیسی راج دشمنی تھی، جس کے نتیجہ نے خلافت تحریک سے بخاری صاحب کو وابستہ کیا اور اسی عشق نے انھیں جیل یاترا بھی کروائی۔

جیل یاترا غالباً بخاری صاحب کی زندگی میں ایک نیا موڑ لے آئی۔ یہیں انھیں پتہ چلا کہ جیل ہو یا ریل آسودہ حال طبقات کے لیے جن میں کہ '' رہنمایانِ کرام'' بھی شامل ہیں اور کارکنوں یا عامۃ الناس کے لیے مختلف درجے موجود ہیں۔

رہنما اور مراعات یافتہ طبقہ، اعلیٰ کلاس میں رکھے جاتے ہیں اور ان تمام سہولتوں کے حقدار ہیں جو انھیں گھر میں میسر ہوتی ہیں، مگر کارکنوں کو ذلت کے مارے ہوئے سمجھ کر ان سے مزید تذلیل آمیز رویہ برتا جاتا ہے۔

آباؤ اجداد کے جس جاگیر دارانہ رویہ سے بخاری صاحب نے جان چھڑائی تھی، جیل میں بھی وہ تقسیم ان کے سامنے موجود تھی جس نے انھیں اس بات کا ادراک دیا کہ جس کے درد کے درماں کے لیے وہ سرگرداں ہیں اس کا علاج اونچ نیچ، برتری، کم تری والے طبقاتی سماج میں نہیں بلکہ یہ ایک ایسے سماج میں ہے جہاں چہروں کے بجائے سماج کی کایا پلٹ ہو۔ اقتدار کی باگ ڈور اُن ہاتھوں میں آئے جو ہل کا دستہ پکڑ کر انسان کی بھوک اور مشین کی چرخی پکڑ کر اس کی ضروریات زندگی کی اشیا پیدا کرتے ہیں۔

عوام اقتدار کا سر چشمہ ہیں۔ بخاری صاحب کے لیے عوام کو سحر زدہ کر کے ان کے کاندھوں پر چڑھ بیٹھنے کا شوق نہیں تھا بلکہ وہ اقتدار کو واضح طور پر اوپر سے نیچے جاتا ہوا دیکھنا چاہتے تھے۔

یہ دھندلا خواب جو سترہ سال کی عمر میں بخاری اپنی جاگیردارانہ حویلی میں دیکھا کرتے تھے، اب جب کہ وہ انسانوں کے سمندر میں کود چکے تھے۔

1917 میں انھیں ایک حقیقت کے روپ میں نظر آیا۔ اقتدار کی منتقلی کا یہ عمل بخاری صاحب کی ذات کے لیے کچھ اس قدر تحریک کا ذریعہ بنا جس کا اظہار ان کے اس سفر سے ہوتا ہے جو انھوں نے کابل کے راستے کبھی پیدل اور کبھی خچروں پر سوویت دیس تک کیا تھا۔ سنسکرت، فارسی اور عربی زبانوں پر کامریڈ بخاری کو جو عبور حاصل تھا۔

شاید اس کے نتیجہ میں وہ اپنے رفقا میں '' مولانا '' کے نام سے یاد کیے جاتے تھے اور یہ لفظ ان کی شخصیت کا ایسا حصہ بن گیا جس سے رفقاء میں ان کے لیے ادب و احترام ، توقیر اور فضیلت جھلکتی ہے۔ سندھ سے بخاری صاحب کا تعلق یوں تو آباؤ اجداد کے بخارا سے اچ شریف ہجرت کے وقت ہی قائم ہوگیا تھا۔

جہاں سے وہ بعد ازاں احمد آباد منتقل ہوئے ، لیکن ذاتی طور پر بخاری صاحب مولانا محمد علی جوہر کے ایما پر 1922 میں سندھ آئے تھے اور یہیں پر کچھ عرصے بعد تحریک خلافت میں حصہ لینے کی وجہ سے گرفتار کرکے جیل بھیج دیے گئے تھے۔ اپنے سندھ کے قیام کے دوران جس طرح انھوں نے سندھی زبان کو اپنا لیا تھا وہ ان کی ذہانت سے زیادہ عوام کے ساتھ ان کے لازوال رشتہ کا غماز ہے۔''

(جاری ہے)
Load Next Story