خواتین اور موٹر سائیکل

پڑوسی ملک بھارت میں خواتین کا موٹر سائیکل چلانا معمول کی بات ہے

tauceeph@gmail.com

سیما لیاقت سماجی کارکن ہیں، انھوں نے کراچی یونیورسٹی سے سوشل سائنس میں ایم فل کی سند حاصل کی ہے۔

ان کی کتاب ''پاکستان کے سماجی مسائل'' 2019 میں شایع ہوئی تھی'ان کا بیانیہ ہے کہ اس وقت ہر خاندان کا ایک اہم مسئلہ پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی ہے، سیما نے اس کا حل نکالااور موٹرسائیکل سیکھی، اب وہ اپنے گھر ناظم آباد سے اپنے دفتر شہید ملت روڈ موٹر سائیکل چلا کر آتی ہیں اور گھر جاتی ہیں، یوں وقت اورپیسہ کی بچت بھی ہوتی ہے۔

سیما لیاقت ایک غیر سرکاری تنظیم اربن ریسورس سینٹر U.R.C میں کام کرتی ہیں۔ اس ادارہ نے کراچی میں کچی آبادیوں کے مسائل، پبلک ٹرانسپورٹ، پانی اور دیگر مسائل پر سائنٹیفک تحقیق کی ہے۔ سیما لیاقت نے اپنے دفتر میں خواتین کو موٹر سائیکل چلانے کی تربیت دینے والے غیر سرکاری نمایندوں کو مدعوکیا۔

اس مجلس میں بتایا گیا کہ کراچی میں اس وقت 9 ہزار 50 کے قریب خواتین موٹر سائیکل چلا رہی ہیں۔خواتین کو موٹر سائیکل چلانے کی تربیت دینے والا ادارہ خطیر معاوضہ لیتا ہے۔ اس محفل میں انعم بتول نے کہا کہ میں برسوں سے اپنے علاقہ میں رہتی رہی ہوں۔

اس علاقہ میں رہتے ہوئے میں نے اسکول اور کالج کی تعلیم حاصل کی مگر کبھی کسی نے میری طرف نہ دیکھا مگر جب سے میں موٹر سائیکل چلا رہی ہوں ہر شخص مجھے دیکھتا ہے۔ کئی خواتین مجھ سے کہتی ہیں کہ اگر وہ موٹر سائیکل چلائیں گی تو لوگ دیکھیں گے۔

کچھ جملے کسیں گے اور کچھ اپنے ذہنوں میں برا تاثر قائم کریں گے مگر ان خواتین کو میں بتاتی ہوں کہ پہلے میرا ٹرانسپورٹ کا خرچ 35 ہزار روپے تھا جو اب کم ہوگیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جب آپ موٹر سائیکل یا کار چلاتی ہیں اور آپ کی گاڑی خراب ہو جائے یا کوئی حادثہ ہو جائے تو لوگ آپ کی مدد کے لیے بڑھیں گے، وہ گھوریں گے نہیں۔ ایک سماجی تنظیم '' پیغام کرم '' نے خواتین کو موٹر سائیکل چلانے کی تربیت دینے کے لیے پنک رائیڈر نامی ادارہ قائم کیا۔

ا س ادارہ کے بانی نے کہا کہ چھ سات سال پہلے یہ تصور نہیں کیا جاسکتا تھا کہ پاکستان میں خواتین بھی موٹر سائیکل چلائیں گی۔ خواتین بھی پہلے موٹر سائیکل چلانے میں زیادہ دلچسپی نہیں لیتی تھیں مگر پھر حالات تبدیل ہونے لگے۔

کئی تعلیم یافتہ خواتین کو اچھی ملازمت کی پیشکش ہوئی مگر ٹرانسپورٹ کے مسئلہ کی بناء پر وہ اس پیشکش سے مستفید نہ ہوسکیں۔ بہت ساری خواتین دفتروں میں کام پر جانے، خریداری کے لیے، بازار جانے، اسپتال اور ریسٹورنٹ جانے پر ماہانہ 40ہزار روپے تک خرچ کرتی تھی مگر اب یہ اخراجات کم ہوگئے ہیں۔ پیغام کرم کے بانی نے مزید کہا کہ تین ماہ پہلے ایک ماں نے ان سے رابطہ کیا کہ ان کے بچے مختلف اسکولوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں۔

یہ خاتون ٹرانسپورٹ پر 60 ہزار روپے ماہانہ خرچ کرتی ہیں، یوں ان کے اخراجات میں خاطر خوا کمی ہوتی ہے، جو خواتین محض ٹرانسپورٹ کی بناء پر اپنے شوہر، والد یا بھائیوں کے ساتھ اپنے تعلیمی اداروں، دفاتر، اسپتال یا شاپنگ پر جانے پر مجبور ہوتی تھیں۔ اب وہ موٹر سائیکل پر آسانی سے کہیں بھی پہنچ سکتی ہیں۔

ریسرچ اسکالر فاطمہ متانت نے امریکا کی اسٹین فورڈ یونیورسٹی کی Women's Mobility کے بارے میں تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے شرکاء محفل کو بتایا کہ امریکا میں خواتین کو موٹر سائیکل چلانے کے لیے رعایت دی جاتی ہے ۔

اسلام آباد کی مکین عیشا اور ان کی بہن ایمن اسکوٹی چلاتی ہیں۔ ان بہنوں کا کہنا ہے کہ اب گھر کے کام کے لیے انھیں اب کسی پر انحصار نہیں کرنا پڑتا، حتیٰ کہ انھیں کسی کو اسپتال بھی لے جانا ہو یا دوا لانی ہو تو وہ اسکوٹی پر جاکر فوراً یہ کام کرلیتی ہیں۔


عیشا کے بقول ہم پہلے پانچ سو روپے میں اسکوٹی کا ٹینک پورا بھرواتے تھے جو اب آٹھ سو سے ایک ہزار کا پڑتا ہے۔ ملک میں الیکٹرک اور پٹرول پر چلنے والی دونوں قسم کی اسکوٹیاں دستیاب ہیں۔ پٹرول سے چلنے والی اسکوٹی قیمت ایک لاکھ دس ہزار روپے سے ایک لاکھ بیس ہزار روپے کے قریب ہے جب کہ الیکٹرک اسکوٹی کی قیمت ایک لاکھ پچیس ہزار روپے سے ایک لاکھ اسی ہزار روپے کے قریب ہے۔

الیکٹرک اسکوٹی چار سے چھ گھنٹے تک چارج رہتی ہے۔ یہ بائیک 65 سے 75 کلومیٹر تک چل سکتی ہے اور بجلی کا 1.5 یونٹ خرچ کرتی ہے۔ خواتین کا اسکوٹی چلانے کا معاملہ محض بڑے شہروں تک محدود نہیں ہے بلکہ دوسرے شہروں میں بھی خواتین اسکوٹی چلانے میں دلچسپی لے رہی ہیں۔ گورنمنٹ کالج لاڑکانہ کی روشن خیال پرنسپل نے اپنے کالج کی طالبات کو موٹرسائیکل چلانے کی تربیت دینے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔

ٹاؤن پلانر اورآرکیٹیکٹ عارف حسن نے خواتین کے موٹر سائیکل چلانے کے رجحان کو مثبت رویہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ آٹھ دس سال بعد خواتین کا موٹر سائیکل چلانا معمول بن جائے گا، یوں والدین اور شوہر بھی خواتین کے اس عمل کو معمول کے مطابق لیں گے۔

پڑوسی ملک بھارت میں خواتین کا موٹر سائیکل چلانا معمول کی بات ہے۔ بھارت کے مختلف شہروں میں خواتین آزادی سے موٹر سائیکل جسے اسکوٹی کہا جاتا ہے سفرکرتی ہیں، یوں ان کے لیے تعلیم کے مواقع بہتر ہوگئے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ روزگار کے ذرایع بھی بہتر ہوئے ہیں۔ یوں خواتین کی ترقی سے نچلے متوسط طبقہ میں خوشحالی آرہی ہے۔

اس صدی میں مسلمان ممالک میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ سعودی عرب میں ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے سعودی معاشرہ کو جدید بنانے کے لیے بہت سے بنیادی اقدامات کیے۔

ان میں ایک خواتین کو محرم کے بغیر گھر سے نکلنے پر پابندی کا خاتمہ اور خواتین کا تنہا کار چلانے کا حق شامل تھا، یوں سعودی خواتین میں روشن خیالی کی ایک نئی لہر پیدا ہوئی۔ اب خواتین نے تعلیم حاصل کرنے کے بعد ملازمتیں اور کاروبار شروع کر دیے ہیں۔

شہزادہ محمد بن سلمان نے ثقافتی گھٹن ختم کرنے کے لیے سینما ہاؤس کھلنے کی اجازت دی ہے۔ سعودی معاشرے میں ان مثبت تبدیلیوں سے تعلیم یافتہ نوجوانوں میں گھٹن کم ہوئی۔ اب سعودی معاشرہ میں خواتین زندگی کے ہر شعبہ میں متحرک نظر آتی ہیں۔

وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا فرض ہے کہ خواتین کے ٹرانسپورٹ کے مسئلہ کے حل کے لیے سستی اسکوٹی کی فراہمی پر توجہ دیں۔ حکومت کو کمرشل بینکوں سے مذاکرات کرنے چاہئیں کہ بینک اسکوٹی کی خریداری کے آسان شرائط پر قرضے فراہم کریں۔

موٹر سائیکل چلانے والے مرد و خواتین کے لیے ضروری ہے کہ سڑ ک کی بائیں جانب موٹر سائیکل کے لیے مختص لین بنائی جائے۔

جینڈر گلوبل انڈکس 2023 کی رپورٹ کے مطابق 146 ممالک میں پاکستان کا 143واں نمبر ہے۔ اس رپورٹ سے خواتین کی پسماندگی کا اظہار ہوتا ہے اور جہاں اس معاشرہ میں خواتین پسماندہ ہوتی ہیں وہاں غربت کی شرح انتہائی بڑھ جاتی ہے۔ خواتین کا موٹر سائیکل چلانا اور آزادانہ سفر غربت کے خاتمہ اور حالات کار بہتر بنانے کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
Load Next Story