مزدور اور کم ازکم اجرت کا قانون

کم از کم اجرت کے قانون کے تحت اعلان کی گئی تنخواہ میں اضافے کا عام مزدور کو کبھی بھی فائدہ نہیں ہوا


جاوید نذیر July 01, 2023
حکومت کا غریبوں کو چھوڑ کر اشرافیہ کو مراعات دینا عوام کے ساتھ صریحاً ناانصافی ہے۔ (فوٹو: فائل)

چند دن پہلے مصدقہ ذرائع سے خبر سامنے آئی کہ ملک میں پالیسیاں بنانے والے ادارے سینیٹ کے ممبران کی تنخواہوں اور دیگر مراعات میں اضافے کا بل پاس ہوگیا ہے اور حیرت انگیز طور پر یہ بل چند گھنٹوں میں ہی پاس ہوگیا۔ اس بل کی تفصیلات سے عوام آگاہ ہوہی چکے ہیں کہ کون کون سی مراعات سینٹرز کو دی گئی ہیں۔


اس حوالے عوام میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے کہ ایک طرف تو حکومت قرضوں کے بوجھ کا رونا رو رہی ہے اور دوسری طرف اپنے ہی وزرا اور مشیروں کو ہی نواز رہی ہے، جن کا غربت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں۔ اس ضمن میں پاکستان پیپلز پارٹی نے بیان ضرور دیا اور کہا جارہا ہے کہ پارٹی کے شریک چیئرمین نے سینیٹ کے پی پی پی کے عہدیدار فیصل کریم کنڈی کی سرزنش بھی کی کہ ایسے بل کی حمایت پاکستان پیپلز پارٹی نے کیوں کی؟ لیکن عوام سوال کررہے ہیں کہ اگر پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹرز ان مراعات کو لینے سے انکار کردیں تب تو زرداری کا احتجاج سمجھ میں آتا ہے کیونکہ موجودہ صورتحال میں جب عوام مہنگائی کی چکی میں بری طرح پس رہے ہیں، ایسے میں اشرافیہ کو اس طرح کی مراعات دینا غریب عوام کے ساتھ زیادتی اور صریحاً ناانصافی ہے۔


دوسری طرف بعض صحافی بھی سوال اٹھا رہے ہیں کہ یہ بل بھی پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹرز نے ہی پیش کیا تھا۔ عام مزدور سوال کررہا ہے کہ حکومت ہر سال بجٹ میں کم از کم اجرت کے قانون کے تحت تنخواہ میں اضافے کا اعلان کرتی ہے۔ اس طرح وہ دنیا کو یہ باور کرانے میں کامیاب تو ہو جاتی ہے کہ رواں سال انہوں نے اپنے مزدوروں کی تنخواہ میں اتنے فیصد اضافہ کردیا ہے لیکن حکومت کبھی یہ نہیں بتاتی کہ ان مزدوروں کو اس ''اضافے'' کے پیسے کب ملیں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ کم از کم اجرت کے قانون کے تحت اعلان کی گئی تنخواہ میں اضافے کا عام مزدور کو کبھی بھی فائدہ نہیں ہوا۔


عام مزدور کہتا ہے کہ جن اداروں میں مزدوروں کی یونین موجود ہے وہاں تو یونین اپنی طاقت کے بل بوتے پر شاید اضافے کی رقم حاصل کرلے لیکن جن اداروں میں یونینز نہیں، وہاں ان مراعات کو حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ اس لیے برس ہا برس سے وہ مزدور پچھلے سال کی تنخواہوں پر ہی اکتفا کررہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے مزدور کی مشکلات میں ہر سال اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے کیونکہ اس کی تنخواہ سابقہ برسوں والی رہتی ہے جبکہ مہنگائی کی شرح میں اضافہ بے تحاشا ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہی بنیادی وجہ ہے کہ ہمارے ملک کا مزدور دنیا بھر کے مزدوروں کی نسبت مشکل حالات میں زندگی بسر کر رہا ہے۔


آپ حکومتی سرکاری اداروں اور غیر سرکاری اداروں، کمپنیوں اور کارخانوں کی سالانہ رپورٹیں اٹھا کر دیکھ لیجیے، انہیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے ہمارے ملک کے مزدور کو دنیا بھر کی مراعات حاصل ہیں اور جو کچھ ان اداروں نے اپنے بائی لاز میں لکھ دیا ہے وہ انہیں آسانی سے حاصل ہورہا ہے۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ ان تمام اداروں میں مزدوروں کو اپنے جائز حقوق لینے کےلیے بھرپور جدوجہد کرنی پڑتی ہے جو اکثر اوقات مزاحمتی جدوجہد کی شکل اختیار کرجاتی ہے۔


اپنے حقوق کی جدوجہد کےلیے جب وہ عدالتوں کا سہارا لیتے ہیں تو وہاں انہیں اور زیادہ صبر و تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرنا پڑتا ہے، کیونکہ انصاف کی تیزی سے فراہمی کا نعرہ اور 'انصاف عوام کی دہلیز پر' کے نعرے دھرے کے دھرے ہی نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو اس ملک کے عدالتی نظام کی صورتحال ہے ایک مزدور اپنے جائز حقوق کےلیے بھی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے سے پہلے سو بار سوچتا ہے۔ کتنے ہی کیسز انصاف کےلیے فائل میں پڑے پڑے ہی انتظار کی سولی پر لٹک رہے ہیں اور جو اِن کیسوں کو فائل کرنے والے اور پیروی کرنے والے تھے، وہ بھی انصاف کا انتظار کرتے کرتے مر کھپ چکے ہیں۔ انصاف کی ایسی صورت حال کے بعد مزدوروں میں انصاف کے حوالے سے بے یقینی کی کیفیت کا پیدا ہونا یقینی امر ہے۔ عدالتیں سو موٹو ایکشن کا نعرہ لگاتی ہیں تو مزدور اس ضمن میں یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا سوموٹو ایکشن صرف سیاستدانوں، امرا اور طاقتور لوگوں کےلیے ہے؟ کیا عام آدمی سوموٹو ایکشن کی دسترس سے باہر ہے؟


گزشتہ چند سال میں ملک میں مہنگائی کی بلند ترین شرح نے جہاں پورے ملک کو متاثر کیا، وہاں غریبوں اور مزدروں کا تو بھرکس نکال کر رکھ دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بڑا گوشت اور بکرے کا گوشت تو وہ صرف عید پر ہی کھانے کا خیال کرسکتے تھے لیکن مہنگائی کی بے لگام اڑان کی وجہ سے مرغی کا گوشت بھی ان کی پہنچ سے باہر ہوچکا ہے۔ عوام کا کہنا ہے کہ جب بھی آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو ملک میں نئے ٹیکسوں کی شکل میں مہنگائی کا جن بوتل سے باہر آجاتا ہے۔ عوام حالیہ مہنگائی کا ذمے دار بھی آئی ایم ایف اور موجودہ حکومت کے مذاکرات کو ہی گردان رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حکومت بجٹ سے پہلے بڑی بڑی ڈینگیں مار رہی تھی لیکن بجٹ کے بعد ٹیکسوں کے بوجھ نے عوام کا جو حال کیا ہے وہ مرے ہوئے کو مزید مارنے کے مترادف ہے۔


گزشتہ دنوں حکومت نے عوام کو ایک اور لالی پاپ دیتے ہوئے کہا کہ تیل اور گیس کے جہاز روس سے پاکستان پہنچ گئے ہیں اور اب عوام کو تیل اور گیس سستا دستیاب ہوگا، جس کے نتیجے میں مہنگائی کی شرح میں کمی آئے گی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن ہوا اس کے برعکس۔


عام آدمی سوچ میں ڈوبا ہے کہ کیا الیکشن ہونے سے مہنگائی کی شرح کم ہوگی۔ وہ یہ سوچ رہا ہے کہ شاید ان سیاسی جماعتوں کے پاس مہنگائی ختم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں اور یہ ملک کو چلانے کےلیے آئی ایم ایف کے ہمیشہ محتاج رہیں گے۔ اس لیے لگتا ہے کہ شاید عوام کی دلچسپی الیکشن میں کم ہوچکی ہے۔ انھیں تو فکر ہے کہ کسی طرح اس مہنگائی کے عفریت سے ان کی جان چھوٹ جائے اور یوٹیلٹی بلوں میں جو ٹیکسوں کی بھرمار ہے اس کا خاتمہ ہو۔ عام آدمی یہی سوچ رہا ہے کہ جو سیاسی جماعت مہنگائی کو ختم کرنے یا کم کرنے کےلیے کوئی منصوبہ دے گی تو وہی اس ملک میں کامیاب ہوسکتی ہے۔


آپ پرائیویٹ اسپتالوں، اسکولوں، دفاتر، دکانوں پر کام کرنے والوں کی تنخواہیں دیکھیں تو بندہ حیران ہوجاتا ہے کہ ایک بی اے، ایم اے پاس شخص محض چند ہزار روپے کی نوکری چار و ناچار کرنے پر مجبور ہے۔ ایسے میں وہ اپنے خاندان کو ان مشکلات سے نکالنے کےلیے صحیح اور غلط کی تمیز کیے بغیر دوسرے ملکوں میں جانے کی غیر قانونی کوشش کرتا ہے، جس کے نتیجے میں یونان کے سمندر میں کشتی الٹ جانے کے باعث سیکڑوں نوجوانوں کے ہلاک ہونے جیسے واقعات سامنے آتے ہیں۔ اگر آپ ان ہلاک ہونے والے نوجوانوں کے خاندانوں سے پوچھیں تو ہر کسی کے پاس کم و بیش ایک جیسی ہی کہانی ہے، جس کے تانے بانے اپنے خاندانوں کو ان مالی مشکلات سے نکالنے اور ان کو ترقی یافتہ بنانے کی فکر سے ہی ملتے ہیں۔


حکومت سے استدعا ہے کہ آپ ان مزدوروں کا بھی خیال کیجیے جو اسپتالوں، اسکولوں، دکانوں اوردوسروں کے گھروں میں کام کررہے ہیں۔ اُن کو بھی کم از کم اجرت کے قانون میں شامل کریں اور ان اداروں کو پابند کریں کہ آپ نے اپنے پاس ملازمت کرنے والے شخص کو کم از کم تنخواہ جو مہنگائی کو مدِنظر رکھتے ہوئے اور کم ازکم اجرت کے قانون کے مطابق حکومت طے کرے گی، وہ ادا کرنے کے مجاز ہوں گے، ورنہ ان کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے گی۔


اس ضمن میں مزدوروں کےلیے بنائی جانے والی انصاف کی عدالتوں کو پابند کریں کہ مزدروں کے کیسوں کو فوری طور پر حل کریں اور مزدوروں کو فوری انصاف دینے کے حوالے سے اعلیٰ مثالیں قائم کریں۔ یہ تمام اقدامات کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ عام آدمی کی تان انصاف کی دہلیز پر ہی آکر ٹوٹتی ہے اور اگر اسے وہاں سے بھی انصاف نہ ملے تو وہ کہاں جائے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اگر حکومت چاہتی ہے ہمارے ملک کی حالت زار بھی بہتر ہو، ہمارا مزدور بھی عالمی سطح کے مزدوروں کی صف میں کھڑا ہو، اُس کے بچے بھی ترقی کریں تو حکومت کو صدق دل اور خلوص نیت سے کم ازکم اجرت کے قانون کی رسائی کو عام مزدور تک پہنچانا ہوگا اور اس کےلیے ایسا نظام وضع کرنا ہوگا کہ ہر سال کم از کم اجرت کے قانون کے تحت بڑھنے والی تنخواہ اور دیگر مراعات کےلیے اسے انتظار نہ کرنا پڑے اور نہ اسے اس کےلیے علیحدہ سے جدوجہد کرنی پڑے بلکہ وہ مالی مراعات آسانی سے اس مزدور کو مل سکیں جس کےلیے وہ قانون بنایا گیا ہے۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔


تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں