سکھائے کس نے اسمعیلؑ کو آدابِ فرزندی۔۔۔۔۔
حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی ذات مومنِ حقیقی کی زندہ و جاوید مثال ہے
ایمان محض زبانی دعوی کرنے کا نام نہیں ہے، بل کہ ایمان کے ساتھ اخلاص نیّت، یک سوئی اور عمل کا ہونا بھی اشد ضروری ہے، جبھی مسلمان صحیح معنوں میں ایک بندہ مومن بن سکتا ہے۔
ایمان محض ماننے کی حد تک محدود نہیں ہونا چاہیے بل کہ اسے بہ حیثیت بندۂ مومن جس پر ایمان لایا ہے اس کے احکامات کو اپنے دل و دماغ اور جسم و روح پر نافذ کرتے ہوئے تمام عالم میں جاری و ساری کرنے کی جہد مسلسل میں ہمہ تن مصروف رہنے کی سعی کرنا بھی شامل ہے۔
حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی ذات مومنِ حقیقی کی زندہ و جاوید مثال ہے۔حضرت ابراہیم علیہ السلام نہایت حلیم الفطرت تھے۔
وہ مشرکانہ ماحول میں پلنے بڑھنے کے باوجود کبھی بھی بتوں کے قریب نہ پھٹکے۔ بل کہ صغر سنی میں ہی تلاشِ حق میں رہے اور جب انہوں نے حق کو پالیا تو بہ بانگِ دہل بت پرستی سے انکار اور توحید کا اقرار کرنے لگے۔ حق پرستی کی پاداش میں انہیں اپنے قریبی رشتہ داروں اور سماج کی سخت مخالفت سہنا پڑی اور گھر بار چھوڑنا پڑا۔
ان کی قوم نے انہیں بت پرستی سے انکار کے جرم میں آگ کے میں ڈال دیا، مگر بھڑکتی ہوئی آگ گل زار بن گئی اور اﷲ تعالی نے اپنے خلیلؑ کو محفوظ رکھا۔ قرآن پاک میں ارشاد کا مفہوم: ''ہم نے کہا کہ اے آگ! ٹھنڈی ہوجا اور سلامتی بن جا ابراہیم پر۔''
ایک انسان کو اپنی زندگی میں تین رشتے سب سے زیادہ محبوب ہوتے ہیں، یعنی اپنی زندگی، والدین اور اولاد۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے یہ تینوں محبوب رشتے راہ خدا میں قربان کر دیے۔ اسی لیے اﷲ رب العزت نے انہیں ''خلیل اﷲ'' یعنی اپنے دوست کے اعزاز سے نوازا۔سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو وطن سے بے دخل کر دیا گیا اور وہ صرف اﷲ اور اس کی رضا کے لیے وہاں سے ہجرت کرگئے۔
گویا ایمان کی خاطر ابراہیم علیہ السلام نے اپنا تن من دھن سب کچھ قربان کر دیا، دراصل یہی تو اﷲ سبحانہ و تعالی سے حقیقی محبت کا تقاضا تھا اور پھر جب بڑھاپے میں ابراہیم خلیل اﷲ علیہ السلام نے اﷲ سے یہ دعا مانگی تھی، مفہوم : اے رب! مجھے صالح (نیک) اولاد عطا فرما۔''پھر انہیں حضرت اسمٰعیلؑ جیسے صالح و سعادت مند بیٹے سے نوازا گیا۔ اب ایک اور آزمائش خلیل اﷲ علیہ السلام کی منتظر تھی۔
اﷲ جل جلالہ نے سیدنا ابراہیم خلیل اﷲ کو خواب کے ذریعے حکم دیا کہ وہ اپنی سب سے محبوب ترین شے کو اﷲ کی راہ میں قربان کردیں۔ لگا تار ایک ہی خواب دیکھنے کے بعد خلیل اﷲ علیہ السلام نے اپنے فرزند عزیز حضرت اسمٰعیل علیہ السلام سے تذکرہ کیا تو بیٹے نے لبیک کہا اور اپنا سر خم کر دیا۔
یہ فیضانِ نظر تھا یاکہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسمعیلؑ کو آدابِ فرزندی
حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اﷲ سبحانہ و تعالی کی منشا اور خوش نُودی کے لیے اپنے سعادت مند بیٹے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی قربانی اس ایثار و فرماں برداری سے کی کہ رب العالمین کو اپنے فرماں بردار بندے کی یہ ادا بھاگئی۔
خلیل اﷲ علیہ السلام نے اپنی آنکھوں پر پٹی باندھ کر اپنے لخت جگر کو زمین پر لٹا کر اپنے ہاتھوں سے ذبح کرنے لیے چھری پھیر دی تھی کہ اﷲ تعالی نے عین اسی وقتِ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی جگہ ایک دنبہ بھیج دیا۔ اﷲ نے باپ بیٹے کی قربانی قبول کرلی اور ابراہیم علیہ السلام کو خوش خبری سنائی گئی کہ ان کی قربانی قبول کرلی گئی اور وہ دونوں اﷲ سبحانہ و تعالی کی طرف بھیجی گئی اس آزمائش میں میں پورے اتر ے ہیں۔
رب العزت نے اپنے اولوالعزم بندے کو اس سخت آزمائش میں کام یاب فرما کر امت مسلمہ کے لیے اس سنتِ ابراہیمی کی اتباع کو لازم و پسندیدہ فرمایا اور تاقیامت عیدالاضحی منانے اور حج و قربانی جاری رکھنے کا اعلان فرما دیا۔