عید قرباں اور ہماری ذمے داریاں

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ایثار و قربانی اور حصول رضائے الٰہی کا جذبہ ہی تھا

فوٹو: ایکسپریس

عید قرباں، اسلام کا عظیم تہوار ہے جو اپنی اہمیت، فضیلت، معنویت اور روحانیت کے حوالے سے منفرد شناخت اور خصوصیات کا حامل ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ایثار و قربانی اور حصول رضائے الٰہی کا جذبہ ہی تھا، جس کی بنیاد پر ابراہیم علیہ السلام نے گھر، وطن، دولت تو چھوڑی ہی بادشاہ وقت سے بھی بغاوت کی، پھر اللہ کی خاطر بیوی اور ننھے سے دودھ پیتے بچے کو بے آب و گیاہ میدان میں بے سہارا چھوڑ آئے اور خود آگ کے دہکتے الاؤ میں ڈالے گئے، یہاں تک کہ اپنی جان ہی نہیں لخت جگر کی قربانی کے آخری حکم کی بھی تعمیل کی۔

اخلاص و سچائی اور ایثار و قربانی کا یہ ایسا بے نظیر واقعہ ہے، جس کی مثال آج تک تاریخ پیش نہیں کرسکی، اسی لیے اللہ نے اس بلند ترین عمل کو قیامت تک کے لیے ایک فریضہ کی حیثیت دے دی، تاکہ عید قرباں کی تاریخی حیثیت پر نگاہ رکھتے ہوئے بندہ مومن اپنے اندر بھی وہی جذبہ پیدا کرے اور رضائے الٰہی کے حصول کے لیے وہ سب کچھ قربان کردے جو میسر ہو، لیکن افسوس کا مقام ہے کہ لوگوں نے اسے بھی رسم بنا ڈالا، نہ اس کی حقیقت کو پہچانا اور نہ اس کے تقاضے کو سمجھا۔ ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کو نہ جانور کا گوشت اور نہ اس کا خون چاہیے بلکہ مومن کا تقویٰ اور رضائے الٰہی مطلوب ہے۔

قرآن کی آیات مبارکہ اور احادیث نبوی سے واضح ہوتا ہے کہ جس طرح قربانی کا مقصد جانور قربان کر کے گوشت تقسیم کرنا ہے، اسی طرح قربانی کی اصل روح اور فلسفہ حاصل کرنا بھی ضروری ہے، وہ یہ ہے کہ قربانی کا جانور ذبح کرنے کے ساتھ ساتھ انسان کا اپنی انا، خود غرضی، مطلب پرستی، نفسانی خواہشات کو بھی ذبح کرنا ہے۔

یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بناء پر انسان غرور اور تکبر کا شکار ہے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں اپنی زندگی کے شب و روز بسر کر رہا ہے۔

چند سالوں سے ہمارے شہری و دیہی معاشروں میں قربانی کے گوشت کو فریز کرنے کا کلچر رواج پا گیا ہے، اس کلچر سے نجات پانے کی بھی ضرورت ہے، اسوہ حسنہ کے مطابق قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کرنا چاہیے۔

ایک حصہ اپنے لیے، ایک عزیز واقارب کے لیے اور ایک غربا کے لیے۔ ہم میں بہت سے لوگ غریبوں، ناداروں، یتیموں اور ضرورت مندوں کو خالص گوشت تو تقسیم کرتے ہی ہیں لیکن یہ بات قابلِ غور ہے کہ جن کے پاس تیل مسالہ خریدنے کے لیے پیسے نہیں ہوتے وہ مختلف پکوانوں کا ذائقہ نہیں لے سکتے، اگر گوشت کے ساتھ اپنی حیثیت کے مطابق کچھ رقم بھی صدقہ جاریہ کے طور پر دے دی جائے تو یقیناً اُنہیں دُگنی خوشی مِلے گی اور وہ بھی ہمارے ساتھ عید کی مسرتوں کا لطف اٹھا پائیں گے۔

آج بہت سے لوگ گوشت ریفریجریٹر میں محفوظ کر کے کئی مہینوں تک استعمال کرتے ہیں، جب کہ اللہ نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ قربانی کے گوشت کا تیسرا حصہ قربانی کی استطاعت نہ رکھنے والوں میں تقسیم کیا جائے، غریبوں کا خاص خیال رکھا جائے۔ فریضہ قربانی ادا کرنے کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اِسی بہانے غریب بھی گوشت کھا سکیں۔ اِس معاملے میں قرابت داروں کو بھی یاد رکھیں کہ اسلام میں صِلہ رحمی پر بہت زور دیا گیا ہے۔

عید الاضحی سے قبل اشیائے ضروریہ، سبزیوں اور مصالحہ جات کی گراں فروشی عروج پر پہنچ گئی۔ سبزی منڈیوں میں بھی قیمتیں آسمان پر جا پہنچی ہیں، جس کی وجہ سے خریداری کے لیے آنے والے شدید پریشان دکھائی دیے، گزشتہ سال کی نسبت امسال مختلف اشیائے ضروریہ اور خصوصاً مصالحہ جات کی قیمتوں میں 70سے100فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔

گھریلو بجٹ کم ہونے کی وجہ سے مختلف اشیائے ضروریہ اور مصالحہ جات کی کم تعداد اور کم مقدار میں خریداری کی گئی ہے۔ دوسری جانب سبزی منڈیوں میں سبز مصالحوں کی قیمتیں انتہائی زیادہ ہیں، ادرک 750 سے 800 روپے کلو تک فروخت کیا جارہا ہے، اسی طرح لہسن اور سبز مرچوں کی قیمتیں بھی انتہائی زیادہ ہیں۔ دکانداروں نے سرکاری نرخ نامے کے بجائے گراں فروشی کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔


اس فریضے کی ادائیگی کرتے ہوئے بلکہ جانور کی خریداری سے لے کر ذبیحہ کے وقت تک و مابعد ہم اپنے ہی دین کے اس درس کا کہ صفائی نصف ایمان ہے، جس طرح خلاف ورزی کررہے ہوتے ہیں اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ قربانی کے جانور لانے کے بعد ہم چند دن صفائی رکھنے کی ذمے داری سے جو غفلت برتتے ہیں یہ بڑی تکلیف کا باعث امر ہے جس کے باعث گھر محلے اور گلی میں ہی سڑاند نہیں پھیلتی بلکہ اس غفلت کے باعث نالیوں کی بھی بندش کی نوبت آتی ہے۔

گلی محلے میں ہر طرف گوبر پھیلائے بغیر بھی جانور کو دو چار دن رکھ کر قربان کیا جا سکتا ہے، بس تھوڑی سی مشقت اٹھانی پڑے گی۔

تھوڑی سی اس ضمن میں بھی قربانی دی جائے تو یہ قربانی کے حقیقی مقصد کے قریب ہونے کا باعث بنے گا ہر سال عیدالاضحی کی آمد کے موقع پر ہر کونے میں قربانی کے جانوروں کی انتڑیاں اور دیگر باقیات کا پھیلاؤ اور اس کی صفائی کا خیال نہ رکھنے کے باعث ہفتہ بھر جو فضا طاری رہتی ہے، کاش ایسا نہ ہوتا۔ رواں برس جون، جولائی کی یہ گرمی پھر موسم برسات اور ایسے میں ماحول کو آلودہ بنانے کا نتیجہ متعدی بیماریاں پھوٹ پڑنے کا سبب بن سکتا ہے۔

ہوائی اڈوں کے اردگرد فضلے کو ٹھکانے لگانے اور غلط طریقے سے باقیات کو تلف کرنے سے پرندوں کی یلغار اور اس جانب متوجہ ہونے سے ہوائی ٹریفک متاثر اور حادثات کا خطرہ ہوتا ہے، ہر سال اپیل کی جاتی ہے مگر کم ہی کان دھرا جاتا ہے۔ بطور مسلمان کسی کو ہمیں صفائی کا درس دینے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے اور ہمیں اپنی شہری ذمے داریوں سے خود آگاہ اور اس پر پورا پورا عمل درآمد کرنا چاہیے۔

اس عظیم مذہبی فریضے کی ادائیگی کے بعد صفائی ستھرائی حفظان صحت کے اصولوں کا خیال رکھنے اور ہوائی ٹریفک کو محفوظ بنانے میں رکاوٹوں سے گریز کرنا چاہیے۔ ہر سرکاری ادارے کی طرح میونسپل خدمات انجام دینے والے محکمے اور اس کے کارکنوں سے بہت اعلیٰ درجے کی خدمات کی توقع تو نہیں ہونی چاہیے لیکن حقیقت یہ ہے کہ عید الاضحی کے موقع پر بلدیاتی اداروں کے حکام کی عملی طور پر یہ نمایاں کوشش ہوتی ہے کہ سارا سال برتی گئی کوتاہی کا ازالہ کیا جائے، عملہ بھر پور کوشش میں نظر آتا ہے ان کی جستجو اور انتظامات اس وقت تک ادھورے اور ناکامی کا شکار ہوں گے۔

جب تک ہر فرد ہر شخص اور ہر گھرانہ تعاون کا مظاہرہ نہ کرے اور مقررہ مقامات پر آلائشیں پھینکنے اور تھیلوں کو ترجیحی استعمال نہ کرے ، ہوسکے تو شہریوں کو تھیلوں کی فراہمی کی جانی چاہیے، شہری اپنے طور پر آٹے کے تھیلوں کا ہی کم از کم استعمال کریں اور وقت سے پہلے ان کا انتظام کرکے رکھیں پلاسٹک کے بڑے تھیلوں کا انتظام ہو تو احسن ہوگا۔

جہاں کوئی شخص ہزاروں یا پھر لاکھوں تک میں جانور خریدنے اور دیگر انتظامات پر رقم خرچ کر سکتا ہے، اس کے لیے دوچار تھیلیوں کا انتظام کوئی مشکل کام نہیں بلکہ اس خرچے کو بھی قربانی کے لیے مختص رقم کا حصہ سمجھنا چاہیے۔

عیدالاضحی کے موقع پر تیز بارش کی صورت میں خون اور آلائشوں کی صفائی میں بڑی مشکل ہوجاتی ہے ۔صفائی کے حوالے سے شہری اداروں کو عوام کو متوجہ کرنے کی مہم شروع کرنی چاہیے، مانیٹرنگ کا سخت طریقہ کار بھی ضروری ہے اور اصول و ضوابط طے کر کے ان کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا بھی کوئی انتظام اور طریقہ کار ہونا چاہیے۔

قربانی کے جانوروں کے اعضا اور باقیات کو اگر اس طرح سے تلف کرنے اور ٹھکانے لگانے کا بندوبست ہوکہ اسے قدرتی کھاد میں تبدیل کیا جاسکے اور پولٹری فیڈ بنانے کے لیے بروئے کار لایا جائے تو یہ ہم خرما و ہم ثواب کے مصداق ہوگا۔ اس مسئلے کا ایک اجتماعی حل اجتماعی قربان گاہ قائم کرکے نکالا جا سکتا ہے جہاں ایک ہی جگہ سارے انتظامات ہوں جیسے عید گاہ، جنازہ گاہ ہوتی ہے اس طرح قربان گاہ بھی مختص کی جائے تو یہ آسانی کا باعث ہوگا اور بہت سے شہری مسائل پیدا ہی نہیں ہوں گے، ایک ایسی جگہ ہونی چاہیے جہاں شہریوں کو بھی سہولیات میسر آئیں اور صفائی کے مسائل بھی گھمبیر نہ ہوں ۔

صفائی و ستھرائی اور طہارت و پاکیزگی سلیم الطبع انسان کی پہچان اور شخصیت کا آئینہ ہوتی ہے ظاہر اور باطن دونوں کی صفائی بہت ضرور ی چیز ہے۔ اسلام میں صفائی کا حکم صرف انسان کی ذات تک محدود نہیں ہے بلکہ انسان کا جس چیز سے بھی تعلق اور واسطہ پڑتا رہتا ہے ان تمام چیزوں کو صاف ستھرا رکھنے کا حکم دیا گیا ہے جیسے مکان و دکان، مسجد و مدرسہ، گلی و محلہ اور بازار و سڑک نیز میلا کچیلا رہنے اور اپنے ارد گرد کے ماحول کو گندہ و آلودہ کرنے والوں کو سخت انداز میں تنبیہ کی گئی ہے۔

حکومتی اداروں اور محکموں کے ساتھ ساتھ اہل وطن کی بھی ذمے داری ہے کہ ہم اس عید قربان کے موقع پر خاص طور پر صفائی کا خیال رکھیں اور دوسروں کے لیے زحمت کا باعث بننے سے گریز کریں یہ بھی کار ثواب اور عبادت ہی ہے۔ اللہ پاک ہماری قربانیوں کو قبول فرمائے اور ہمیں اِس کا بہترین اجر نصیب فرمائے۔ (آمین)
Load Next Story