پنشن قربانی اور حج

آپ کو شاید یقین نہ آئے کہ لوگ قربانی کا گوشت ایک سال تک کھاتے ہیں


Raees Fatima June 29, 2023
[email protected]

ہمارے معاشرے میں ایک مظلوم طبقہ ایسا بھی ہے جس کی طرف حکومت کبھی سنجیدگی سے توجہ نہیں دیتی، وہ طبقہ ہے پنشنرز یعنی ریٹائرڈ ملازمین کا۔ بس ہر سال کچھ رقم بجٹ میں بڑھا دی جاتی ہے جو اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مصداق ہے، جب کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں 35 فی صد اضافہ کیا گیا ہے، جب کہ پنشنرز کی پنشن میں 17.50 فی صد کا اضافہ کرکے حاتم طائی کی قبر پہ لات ماری ہے۔

حاضر سروس سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ہر سال دسمبر میں خود کار طریقے سے خود بہ خود اپنے گریڈ کے لحاظ سے بڑھ جاتی ہیں۔ پھر جب بجٹ آتا ہے تب بھی ان کی تنخواہ میں خاطر خواہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ پنشنرز کی پنشن میں بھی اتنا ہی اضافہ کیا جانا چاہیے جتنا کہ حاضر سروس ملازمین کی تنخواہوں میں کیا جاتا ہے۔

اس بات کی طرف قومی اسمبلی میں بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ پنشنرز کی پینشن میں بھی 35 فی صد اضافہ کیا جائے جوکہ ایک جائز مطالبہ ہے۔ریٹائرڈ سرکاری ملازمین ریٹائرمنٹ کے بعد جس اذیت سے گزرتے ہیں وہ انھی کا دل جانتا ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد لوگوں کو کہیں نوکری نہیں ملتی، ہر شخص انھیں بے کار اور ناکارہ سمجھتا ہے۔

رہ گئیں ریٹائرڈ خواتین وہ دہری مشکل کا شکار ہیں، ایک تو بڑھتی عمر کی بیماریاں، شوگر، بلڈ پریشر، دل کے امراض اور جوڑوں کے درد، گھر کا کرایہ، اگر بیٹے بہو کے ساتھ رہائش ہے تو بیٹے نے کرایہ اور گیس بجلی کے بل کی ذمے داری ماں پر ڈال دی ہے۔

اب وہ اپنی دوائیں خریدیں یا ذمے داریاں نبھائیں؟ مہنگائی خوف ناک حد تک بڑھ رہی ہے اور پنشن وہی لگی بندھی! حکومت کو چاہیے کہ پورے ملک کے ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں بھی 35 فی صد اضافہ کیا جائے اور ہر سال کے بجٹ میں پنشنرز اور حاضر سروس ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں یکساں اضافہ کیا جائے۔دوسری طرف قربانی کا معاملہ ہے۔

جانور اس سال بہت مہنگا ہے، لیکن لوگ خرید رہے ہیں، عام سی گائے یا بیل ڈھائی لاکھ کا آ رہا ہے، یہی حال بکروں کا ہے، لیکن گلی گلی گائے، بیل، بکرے بندھے نظر آ رہے ہیں، قربانی اب مذہبی فریضہ نہیں رہی بلکہ اسٹیٹس سمبل بن گئی ہے۔

بچے، جوان اور بڑے فخریہ انداز میں محلے والوں اور رشتے داروں کو جانور کی قیمت بتا کر داد وصول کرتے ہیں، کراچی میں بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ہر سال نہایت لمبے چوڑے اور بھاری بھرکم جانور لے کر آتے ہیں، یہ جانور ہفتوں پہلے آ جاتے ہیں اور ان کے لیے باقاعدہ ٹینٹ لگتے ہیں، روشنیاں لگائی جاتی ہیں اور خوب تماشا ہوتا ہے، دور دور سے لوگ اپنے بچوں کو دکھانے لے کر آتے ہیں، بعض جانوروں کی قیمت ایک جانور ایک کروڑ بیس لاکھ تک ہے۔

یہ سب تین دن میں کٹ کر فریج اور ڈیپ فریزر میں پہنچ جائیں گے۔ اب وہ زمانہ گیا جب گوشت ان رشتے داروں اور غریب لوگوں کے گھر بھیجا جاتا تھا جن کے گھر قربانی نہیں ہوئی، اب تو سالم بکرے ڈیپ فریزر میں ایک سال کے لیے سما جاتے ہیں۔

آپ کو شاید یقین نہ آئے کہ لوگ قربانی کا گوشت ایک سال تک کھاتے ہیں، محرم تک تو عام ہے کہ قربانی کے گوشت کا حلیم اور کھچڑا بنتا ہے، حالانکہ پندرہ دن سے زیادہ گوشت فریز کرنے سے اس میں بیکٹیریا پیدا ہو جاتے ہیں، ہائی بلڈ پریشر ہو جاتا ہے اور دوسرے امراض بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔میرے اپارٹمنٹ کے اوپر ایک فیملی دو سال پہلے رہتی تھی، میرا ان سے اچھا ملنا جلنا تھا، ایک شام وہاں سے خاتون خانہ نے مجھے فون کرکے کہا کہ وہ بریانی پکا رہی ہیں۔

اس لیے میں ان کا انتظار کرلوں اور کھانا جلدی نہ کھاؤں کیوں کہ انھیں معلوم تھا کہ رات کو میں ساڑھے آٹھ سے 9 بجے کے درمیان کھانا کھا لیتی ہوں۔

خیر جناب رات 9 بجے ان کا بیٹا بریانی لے کر آیا، میں نے اندر لا کر رکھا اور پلیٹ میں تھوڑی سی بریانی نکالی، کیوں کہ مجھے بہت کم کسی کے ہاتھ کا کھانا پسند آتا ہے، پلیٹ میں لے کر چمچے سے پہلا نوالہ منہ میں رکھا تو عجیب سی Smelآئی، میں نے چمچے سے بوٹی توڑی تو ایک ناگوار سا بھبکا محسوس ہوا، میں نے چمچہ واپس رکھا اور خاتون کو فون کرکے پوچھا کہ یہ گوشت کون سا ہے۔

اس میں سے تو ناگوار سی بُو آ رہی ہے، اس پر وہ بڑے فخریہ انداز میں بولیں '' نہیں آنٹی! یہ تو ہمارا قربانی کا گوشت ہے، پندرہ دن بعد بقر عید آنے والی ہے اس لیے آج یہ آخری تھیلی نکال کر بریانی بنا لی۔ ہمیں تو کوئی بُو نہیں محسوس ہو رہی، آپ کو وہم ہوا ہوگا۔'' اب بقر عید تو گزر جائے گی، لیکن سارے شہر میں آلائشوں کا ڈھیر ہوگا۔

جس مذہب میں صفائی کو ایمان کا حصہ بنا دیا گیا ہو وہاں اتنی گندگی کہ لوگوں کا گزرنا محال، اور بھی اسلامی ممالک ہیں لیکن وہاں گندگی اور آلودگی کا نام نہیں، شاید سب سے زیادہ بدقسمت شہر اس معاملے میں کراچی ہے، جس کا کوئی والی وارث نہیں۔اب آ جاتے ہیں حج اور عمرہ کی طرف۔ لوگ کئی کئی عمرے اور حج کر لیتے ہیں، جب کہ حج ایک بار فرض ہے۔

اب تو عمرہ اور حج اور بھی مہنگا ہو گیا ہے، ہر کسی کے بس میں نہیں کہ جا سکے، لیکن اس جانب کوئی دیکھتا ہی نہیں، حج بدل کا بہت ثواب ہے، لیکن ایسا کرے کون؟ لوگوں کو نیکی کی طرف لانے والے علما بھی دنیا دار ہوگئے ہیں۔

یہ کالم بقر عید سے پہلے لکھا جا رہا ہے لیکن جن باتوں کی طرف میں نے اشارہ کیاہے کاش لوگ اس پر سوچیں! ایک بار حکیم محمد سعید نے لوگوں سے کہا تھا کہ وہ ایک بار قربانی کریں اور بقیہ سالوں میں اگر جیب اجازت دے تو قربانی کی نیت کرکے وہ پیسہ کسی فلاحی کام میں لگا دیں، لیکن ان کی بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا، دراصل ہمارے ہاں ''اجتہاد'' کا تصور نہیں ہے، اس پر توجہ دینی چاہیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں