ماسک کے پیچھے پاکستان

الماتہ ڈیکلریشن میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ صحت کی سہولتیں علاقائی مقامی سطح پر فراہم کی جانی چاہئیں

tauceeph@gmail.com

صحت عوام کا حق ہے۔ پاکستان کے آئین کے تحت ریاست ہر شہری کو صحت کے معیار کو بلند کرنے کے لیے تمام سہولتوں کی فراہمی کی ذمے دار ہے مگر ریاست نے کبھی عوام کے بنیادی حق کی تسکین کے لیے بنیادی پالیسیاں نہیں بنائیں۔

پیپلز پارٹی نے 1970کے انتخابات میں اپنے منشور میں وعدہ کیا تھا کہ عوام کو صحت کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لیے بڑے اقدامات کیے جائیں گے۔

پیپلز پارٹی کے بانی اور پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقارعلی بھٹو نے سوشلسٹ رہنما شیخ رشید کو صحت کی وزارت تفویض کی تھی۔ شیخ رشید کی تیار کردہ صحت پالیسی میں ادویات کی جنرک ناموں سے فراہمی، ملک کے چاروں صوبوں میں میڈیکل کالجوں کا قیام اور بڑے اسپتالوں کی تعمیر تھی۔ ادویات کی جنرک نام سے تیاری سے قیمتوں میں نمایاں کمی پیدا ہوئی تھی۔

جنرل ضیاء الحق نے اقتدار میں آتے ہی جنرک اسکیم کو منسوخ کیا۔ پیپلز پارٹی کی تیسری حکومت محترمہ بے نظیر بھٹو کی قیادت میں 1994 میں برسرِ اقتدار آئی۔ اس حکومت نے شہروں اور خاص طور پر دیہی علاقوں کے لوگوں کو خاص طور پر خواتین کو صحت کے بارے میں بنیادی معلومات کی فراہمی، پیدا ہونے والے بچوں کو بنیادی ٹیکے لگانے اور پولیو مرض کے خاتمہ کے لیے ہر بچہ کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلوانے کے لیے لیڈی ہیلتھ ورکرز کی اسکیم شروع کی۔ پہلے مرحلہ میں 30ہزار خواتین کو لیڈی ہیلتھ ورکرز کے طور پر مقررکیا گیا۔

لیڈی ہیلتھ ورکرزکی تعداد ایک لاکھ پچیس ہزار کے قریب پہنچ گئی، یوں زرعی شعبہ کو چھوڑ کر شعبہ صحت میں اتنی ساری خواتین ملازمت پیشہ بن گئیں۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کے تقرر کا مقصد صحت کی انڈکس کو بلند کرنا، زچہ و بچہ کی اموات کی شرح کو کم کرنے، شادی شدہ جوڑوں کو خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں سے آگہی دینا اور بچوں کو پولیو کے قطرے وغیرہ پلانا تھا۔ پاکستان میں اس وقت فی فرد پر 9.31 ڈالر سالانہ خرچ ہوتے ہیں۔

صحت کے عالمی ادارہ (W.H.O) کے مقررکردہ معیار کے مطابق ہر ریاست کو صحت کی مد میں فی فرد 60 ڈالر سالانہ خرچ کرنے چاہئیں۔ حکومت کی فراہم کردہ رقوم کی بناء پر صحت کی سہولتیں آبادی کے 21.92 فیصد حصہ کو میسر ہیں۔

اس وقت آبادی کی اکثریت کی آمدنی فی کس 2 ڈالر سے کم ہے، یوں فنڈز کی کمی کی بناء پر پاکستان ملینیئم ڈیویلپمنٹ گول سے پیچھے ہے، اگرچہ صحت کے کچھ انڈیکس بہتر نظر آنے لگے ہیں مگر مجموعی طور پر صحت کا شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے۔

اس تناظر میں صحت کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں لیڈی ہیلتھ ورکرز L.H.W کا کردار انتہائی اہم ہوگیا ہے۔ اس پروگرام کو الماتہ ڈیکلریشن کے تحت شروع کیا گیا تھا۔ الماتہ میں صحت کی سہولتوں کے بارے میں بین الاقوامی کانفرنس ستمبر 1978 میں منعقد ہوئی تھی مگر جنرل ضیاء الحق حکومت نے الماتہ کانفرنس کے ڈیکلریشن کی توثیق کے باوجود کانفرنس میں منظور کردہ ڈیکلریشن پر عملدرآمد کے لیے کوئی پالیسی نہیں بنائی تھی۔


الماتہ ڈیکلریشن میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ صحت کی سہولتیں علاقائی مقامی سطح پر فراہم کی جانی چاہئیں۔ ان سہولتوں میں فزیشن، نرسیں، مڈوائف، معاون اورکمیونٹی ورکرز کی فراہمی شامل ہے۔ اس کے ساتھ ہی صحت کی سہولتوں کی فراہمی نے روایتی کرداروں Traditional Practitioners شامل ہیں۔لیڈی ہیلتھ ورکرزکو مختلف قسم کے دباؤ اور جنسی ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز کا کہنا ہے کہ ان کی ساتھیوں کو جنسی ہراسگی اور دھمکیوں و دھونس جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

لیڈی ہیلتھ ورکرز نے ملک کے مختلف شہروں میں مہینوں احتجاج کیا۔ پریس کلبوں کے سامنے بھوک ہڑتالیں کیں۔ پولیس نے انھیں منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس استعمال کی مگر کارکنوں کے جوش و جذبہ نے ان مشکلات کو آسان کردیا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو کچھ مطالبات ماننے پڑے۔

ایک غیر سرکاری تنظیم پبلک سروس انٹرنیشنل پی ایس آئی نے پاکستان کے پہلے آن لائن انٹر ایکٹو دستاویزی فلموں کا آغاز کیا ہے جو لیڈی ہیلتھ ورکرز کی زندگیوں کے بارے میں ہے۔ لیڈی ہیلتھ ورکرز نے پولیو ویکسین کی فراہمی، قبل از وقت پیدائش کی آگاہی اور دیہی ماؤں کے لیے صحت کی دیکھ بھال اور صحت کی تعلیم اور فروغ خاندانی منصوبہ بندی کے علاوہ گزشتہ برسوں کوویڈ 19 کی وباء کے دوران اہم کردار ادا کیا ہے۔

کئی اقساط کی ایک سیریز پر مشتمل '' ماسک کے پیچھے پاکستان'' پاکستان میں صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں کو درپیش جدوجہد پر توجہ مرکوزکرتا ہے اور ان کو درپیش مشکلات اور ان کی زندگیوں پر کووڈ 19 کے ثمرات کا احاطہ کرتا ہے۔ اس ادارہ نے ایک دستاویزی فلم پاکستانی خاتون حسینہ کے بارے میں بنائی ہے جنھوں نے لیڈی ہیلتھ ورکرز کو منظم کرکے یونین بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔

حسینہ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر کام کے بہتر حالات اور اجرتوں کی مہم کے لیے آل سندھ لیڈی ہیلتھ ورکرز اینڈ ایمپلائز یونین (ASLHWEU) قائم کی۔ ''ماسک کے پیچھے پاکستان'' کے ساتھ پی ایس آئی سیلاب سے نجات، ہیلتھ ورکرز کے لیے ہیلتھ رسک الاؤنس کی بحالی، لیڈی ہیلتھ ورکرزکے لیے سروس اسٹرکچرکی فراہمی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے پاکستان پر اثرات کے نتیجہ میں بیرونی قرضوں کی منسوخی اور تلافی کی مہم چلا رہا ہے۔

درحقیقت پولیو، ہیضہ،کووڈ 19 جیسی بیماریوں کے خلاف جنگ میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کے فرنٹ لائن کردار کے باوجود انھیں ہراساں کیے جانے، کام کے خوفناک حالات، کم تنخواہ، مہنگائی اور اجرت میں جمود کی بھرتیوں کی کمی کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی ضروریات پولیو ورکرز کے طور پر خطرات، ویکسین کی کمی اور عدم مساوات کا سامنا ہے۔

جب سے اس دستاویزی فلم کو فلمایا گیا ہے، صحت کی دیکھ بھال کرنے والے کارکنوں کے لیے ہیلتھ رسک الاؤنس واپس لے لیا گیا ہے جو مسلسل خطرات میں رہنے کے باوجود مہلک بیماریوں کا علاج کر رہے ہیں۔

تباہ کن سیلاب نے صحت کے نئے بحرانوں کو جنم دیا ہے۔ یہ دستاویزی فلم ورکرز ایجوکیشن اینڈ ریسرچ آرگنائزیشن کے تعاون سے تیار کی گئی ہے۔ عوام کو صحت کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی میں لیڈر ہیلتھ ورکرز کا کردار انتہائی اہم ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ان ورکرز کے تمام مطالبات حل کیے جائیں۔
Load Next Story