دبئی کی ملاقاتیں
پھر ملک میں آیندہ انتخابات کب ہونے ہیں مقتدر حلقوں کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا
کیا پاکستان کی سیاست کے اہم فیصلے دبئی میں ہو رہے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ پاکستان کی سیاست کا ایسا کوئی فیصلہ ہے جو دبئی میں ہو سکے۔
کیا پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) ایسی کسی پوزیشن میں ہیں کہ دونوں بیٹھ کر ملک کے بڑے سیاسی فیصلے لے سکیں۔
اس لیے پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن ) کی قیادت کے درمیان ملاقاتیں باہمی تنازعات کے حل کے لیے تو ہو سکتی ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ مستقبل کا کوئی منظر نامہ تو طے کر سکتی ہیں۔ لیکن اس سے آگے دونوں اکٹھے بیٹھ کر کوئی فیصلے نہیں کر سکتے۔
کیا پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی یعنی نواز شریف اور آصف زرداری ملکر یہ طے کر سکتے ہیں کہ ملک میں آیندہ انتخابات کب ہونے ہیں۔ نہیں یہ دونوں ملکر یہ بات طے نہیں کر سکتے۔ اس کھیل میں یہ دونوں اکیلے کھلاڑی نہیں ہیں۔ کس کو نہیں معلوم یہ دونوں کسی بات پر متفق بھی ہو جائیں تو یہ کافی نہیں۔ ملک میں انتخابات کب ہونے ہیں اس کھیل کے اور بھی اہم کھلاڑی ہیں۔
جن کے بغیر یہ فیصلہ ممکن نہیں۔ یہ دونوں جماعتیں ان کھلاڑیوں کو مائنس کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ ن لیگ کے لیے مولانا فضل الرحمٰن کو مائنس کرنا ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح پیپلزپارٹی کے ساتھ بھی کچھ قوتیں ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ نواز شریف اور زرداری اس لیے مل رہے ہیں کہ طے کریں کہ ملک میں کب انتخابات ہونے ہیں۔ درست نہیں ہے۔
اس کام کے لیے دونوں کا دیگر اسٹیک ہولڈرز کے بغیر ملنا فضول ہے۔ پھر ملک میں آیندہ انتخابات کب ہونے ہیں مقتدر حلقوں کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ ملک کے باقی منظر نامہ کا اس میں بہت عمل دخل ہے۔ اس لیے اسٹبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔ یہ بات بھی غلط ہے کہ دونوں سیاسی جماعتیں ملک میں اگلی نگران حکومت کا فائنل کرنے کے لیے مل رہے ہیں۔ دونوں مل کر نگران حکومت بھی فائنل نہیں کر سکتے۔
اس کھیل میں بھی اسٹبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر کچھ ممکن نہیں۔ کیا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف اور زرداری مل کر اگلے نگران وزیر اعظم کا نام فائنل کر لیں گے۔ ممکن نہیں ہے۔ اس لیے کب انتخابات ہونے ہیں اور کون نگران وزیر اعظم ہوگا یہ فیصلے دبئی میں ممکن ہی نہیں ہیں۔ پھر ایسی کہانیاں کیوں چلائی جا رہی ہیں۔ سیاست کی عام فہم سمجھ رکھنے والوں کو بھی اندازہ ہے کہ یہ فیصلے یہ دونوں لیڈر اکیلے بیٹھ کر نہیں کر سکتے۔ پھر اگر باقی اسٹیک ہولڈر موجود نہیں ہیں تو ان دونوں کا ملنا بھی ضروری نہیں ہے۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ دونوں جماعتیں اگلا انتخاب ملکر لڑنا چاہتی ہیں اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے دونوں رہنماؤں کی ملاقات ہوئی ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے درمیان آیندہ انتخابات میں کسی بھی قسم کی سیٹ ایڈ جسٹمنٹ ممکن ہے۔ پیپلزپارٹی سندھ میں ن لیگ کے ساتھ کوئی ایڈجسٹمنٹ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ پھر ن لیگ انھیں کیوں پنجاب میں ایڈجسٹ کرے گی۔ وہ دن گئے جب پی ڈی ایم والے مل کر انتخابات لڑ رہے تھے۔
اب اس کی کوئی سیاسی ضرورت نہیں۔ وہ ضمنی انتخابات تھے۔ یہ عام انتخابات ہیں۔ عام انتخابات میں کوئی جماعت بھی کسی دوسری جماعت کو ایک سیٹ کی بھی رعایت دینے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ اس لیے جب وہ سندھ میں سے کچھ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں تو یہ پنجاب سے کیوں دیں گے۔ پھر پیپلزپارٹی کا پنجاب میں ایسا کوئی ووٹ بینک نہیں ہے جہاں یہ کہا جا سکے کہ دونوں مل کر سیٹ نکال سکتے ہیں۔ یہی صورتحال سندھ میں ن لیگ کی ہے۔ پھر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کیوں ہوگی۔ اکٹھے انتخابات تو تب لڑا جائے جب سامنے کوئی بڑا سیاسی دشمن موجود ہو۔
جب مقابلے پر موجود سیاسی دشمن ہی مر گیا ہے تو اکٹھے لڑنے کا کیا جواز ہے۔ جن کا خیال ہے کہ نواز شریف اور آصف زرداری کسی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے مل رہے ہیں مجھے نہیں لگتا۔ یہ سننے میں شاید اچھا لگے لیکن ممکن نہیں ہے۔ دونوں نے ایک دوسرے کے مقابلے پر الیکشن لڑنا ہے۔
پنجاب اور سندھ کو چھوڑ دیا جائے تو کے پی اور بلوچستان میں بھی دونوں کے درمیان کوئی سیاسی اتحاد سیٹ ایڈجسٹمنٹ ممکن نہیں۔ کے پی میں ن لیگ نے جے یو آئی (ف) کے ساتھ ملکر الیکشن لڑنا ہے۔جب کہ پیپلزپارٹی نے کے پی میں اے این پی کے ساتھ ملکر چلنا ہے۔ اس لیے دونوں جماعتیں سندھ اور پنجاب سے باہر بھی اکٹھے نہیں چل سکتیں۔
ان کے درمیان کے پی میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ ممکن نہیں ہے۔ پھر یہ دونوں کیا بات کر سکتے ہیں۔ بلوچستان کی بھی یہی صورتحال ہے۔ وہاں بھی دونوں کے اکٹھے چلنے کا کوئی امکان نہیں۔ دونوں اپنا اپنا کھیل بنا چکے ہیں۔ اس لیے پورے ملک میں مجھے کہیں بھی ان دونوں جماعتوں کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ اس لیے اس کا کوئی امکان نہیں۔
کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ آگے پی ٹی آئی کے چیئرمین کا کیا کرنا ہے۔ دونوں یہ طے کر رہے ہیں۔ یہ بھی ممکن نہیں۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین اب کوئی سیاسی مسئلہ نہیں رہا ہے کہ ملک کی سیاسی قوتیں اس کے بارے میں کوئی فیصلہ کریں۔
اس کے بارے میں جو بھی فیصلہ کرنا ہے وہ اسٹبلشمنٹ نے کرنا ہے۔ یہ دونوں رہنما اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ اسٹبلشمنٹ کو کہہ سکیں کہ یہ کریں یہ نہ کریں۔ اس لیے یہ مفروضے بھی غلط ہیں۔ ان دونوں کی رائے کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی۔ پاک فوج نے نو مئی کے ملزمان سہولت کاروں اور منصوبہ سازوں کو سزا دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ دونوں جماعتیں اس کی راہ میں حائل رکاوٹیں تو دور کریں گی۔ لیکن اس میں ان کی مرضی کم ہی چل سکتی ہے۔
اس لیے یہ دونوں رہنما آپس میں اندرونی اختلافات تو ختم کرنے کے لیے مل سکتے ہیں۔ لیکن بڑے سیاسی فیصلے کرنے کے لیے ان کے پاس آپشن کم ہیں۔ ملک کا اگلا وزیر اعظم کون ہوگا۔ یہ بھی یہ دونوں طے نہیں کر سکتے۔ اس میں ایک تو اگلے انتخابات کے نتائج کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ایسی میٹنگ تو انتخابات کے بعد ممکن ہے جب نتائج سامنے ہوں۔
اس لیے میری نظر میں یہ خیر سگالی میٹنگ ہی ہے۔ حال ہی میں جو تقاریر کی گئی ہیں اس کے بعد معاملات نارمل کیے جا رہے ہیں۔ ایک دوسرے سے معذرت ہو سکتی ہے۔ میرا یہ مطلب نہیں تھا۔ آیندہ ایسا نہیں ہوگا۔ کوڈ آف کنڈکٹ پر بات ہو سکتی ہے کہ آیندہ اختلاف میں ایسے نہیں کیا جائے گا۔ اختلاف کی حدود پر بات ہو سکتی ہے۔ اس سے آگے بات کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔
کیا پاکستان پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) ایسی کسی پوزیشن میں ہیں کہ دونوں بیٹھ کر ملک کے بڑے سیاسی فیصلے لے سکیں۔
اس لیے پیپلزپارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن ) کی قیادت کے درمیان ملاقاتیں باہمی تنازعات کے حل کے لیے تو ہو سکتی ہیں۔ ایک دوسرے کے ساتھ مستقبل کا کوئی منظر نامہ تو طے کر سکتی ہیں۔ لیکن اس سے آگے دونوں اکٹھے بیٹھ کر کوئی فیصلے نہیں کر سکتے۔
کیا پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی یعنی نواز شریف اور آصف زرداری ملکر یہ طے کر سکتے ہیں کہ ملک میں آیندہ انتخابات کب ہونے ہیں۔ نہیں یہ دونوں ملکر یہ بات طے نہیں کر سکتے۔ اس کھیل میں یہ دونوں اکیلے کھلاڑی نہیں ہیں۔ کس کو نہیں معلوم یہ دونوں کسی بات پر متفق بھی ہو جائیں تو یہ کافی نہیں۔ ملک میں انتخابات کب ہونے ہیں اس کھیل کے اور بھی اہم کھلاڑی ہیں۔
جن کے بغیر یہ فیصلہ ممکن نہیں۔ یہ دونوں جماعتیں ان کھلاڑیوں کو مائنس کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ ن لیگ کے لیے مولانا فضل الرحمٰن کو مائنس کرنا ممکن نہیں ہے۔ اسی طرح پیپلزپارٹی کے ساتھ بھی کچھ قوتیں ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ نواز شریف اور زرداری اس لیے مل رہے ہیں کہ طے کریں کہ ملک میں کب انتخابات ہونے ہیں۔ درست نہیں ہے۔
اس کام کے لیے دونوں کا دیگر اسٹیک ہولڈرز کے بغیر ملنا فضول ہے۔ پھر ملک میں آیندہ انتخابات کب ہونے ہیں مقتدر حلقوں کی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ ملک کے باقی منظر نامہ کا اس میں بہت عمل دخل ہے۔ اس لیے اسٹبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔ یہ بات بھی غلط ہے کہ دونوں سیاسی جماعتیں ملک میں اگلی نگران حکومت کا فائنل کرنے کے لیے مل رہے ہیں۔ دونوں مل کر نگران حکومت بھی فائنل نہیں کر سکتے۔
اس کھیل میں بھی اسٹبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر کچھ ممکن نہیں۔ کیا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف اور زرداری مل کر اگلے نگران وزیر اعظم کا نام فائنل کر لیں گے۔ ممکن نہیں ہے۔ اس لیے کب انتخابات ہونے ہیں اور کون نگران وزیر اعظم ہوگا یہ فیصلے دبئی میں ممکن ہی نہیں ہیں۔ پھر ایسی کہانیاں کیوں چلائی جا رہی ہیں۔ سیاست کی عام فہم سمجھ رکھنے والوں کو بھی اندازہ ہے کہ یہ فیصلے یہ دونوں لیڈر اکیلے بیٹھ کر نہیں کر سکتے۔ پھر اگر باقی اسٹیک ہولڈر موجود نہیں ہیں تو ان دونوں کا ملنا بھی ضروری نہیں ہے۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ دونوں جماعتیں اگلا انتخاب ملکر لڑنا چاہتی ہیں اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے دونوں رہنماؤں کی ملاقات ہوئی ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے درمیان آیندہ انتخابات میں کسی بھی قسم کی سیٹ ایڈ جسٹمنٹ ممکن ہے۔ پیپلزپارٹی سندھ میں ن لیگ کے ساتھ کوئی ایڈجسٹمنٹ کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ پھر ن لیگ انھیں کیوں پنجاب میں ایڈجسٹ کرے گی۔ وہ دن گئے جب پی ڈی ایم والے مل کر انتخابات لڑ رہے تھے۔
اب اس کی کوئی سیاسی ضرورت نہیں۔ وہ ضمنی انتخابات تھے۔ یہ عام انتخابات ہیں۔ عام انتخابات میں کوئی جماعت بھی کسی دوسری جماعت کو ایک سیٹ کی بھی رعایت دینے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ اس لیے جب وہ سندھ میں سے کچھ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں تو یہ پنجاب سے کیوں دیں گے۔ پھر پیپلزپارٹی کا پنجاب میں ایسا کوئی ووٹ بینک نہیں ہے جہاں یہ کہا جا سکے کہ دونوں مل کر سیٹ نکال سکتے ہیں۔ یہی صورتحال سندھ میں ن لیگ کی ہے۔ پھر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کیوں ہوگی۔ اکٹھے انتخابات تو تب لڑا جائے جب سامنے کوئی بڑا سیاسی دشمن موجود ہو۔
جب مقابلے پر موجود سیاسی دشمن ہی مر گیا ہے تو اکٹھے لڑنے کا کیا جواز ہے۔ جن کا خیال ہے کہ نواز شریف اور آصف زرداری کسی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے لیے مل رہے ہیں مجھے نہیں لگتا۔ یہ سننے میں شاید اچھا لگے لیکن ممکن نہیں ہے۔ دونوں نے ایک دوسرے کے مقابلے پر الیکشن لڑنا ہے۔
پنجاب اور سندھ کو چھوڑ دیا جائے تو کے پی اور بلوچستان میں بھی دونوں کے درمیان کوئی سیاسی اتحاد سیٹ ایڈجسٹمنٹ ممکن نہیں۔ کے پی میں ن لیگ نے جے یو آئی (ف) کے ساتھ ملکر الیکشن لڑنا ہے۔جب کہ پیپلزپارٹی نے کے پی میں اے این پی کے ساتھ ملکر چلنا ہے۔ اس لیے دونوں جماعتیں سندھ اور پنجاب سے باہر بھی اکٹھے نہیں چل سکتیں۔
ان کے درمیان کے پی میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ ممکن نہیں ہے۔ پھر یہ دونوں کیا بات کر سکتے ہیں۔ بلوچستان کی بھی یہی صورتحال ہے۔ وہاں بھی دونوں کے اکٹھے چلنے کا کوئی امکان نہیں۔ دونوں اپنا اپنا کھیل بنا چکے ہیں۔ اس لیے پورے ملک میں مجھے کہیں بھی ان دونوں جماعتوں کے درمیان سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ اس لیے اس کا کوئی امکان نہیں۔
کچھ دوستوں کا خیال ہے کہ آگے پی ٹی آئی کے چیئرمین کا کیا کرنا ہے۔ دونوں یہ طے کر رہے ہیں۔ یہ بھی ممکن نہیں۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین اب کوئی سیاسی مسئلہ نہیں رہا ہے کہ ملک کی سیاسی قوتیں اس کے بارے میں کوئی فیصلہ کریں۔
اس کے بارے میں جو بھی فیصلہ کرنا ہے وہ اسٹبلشمنٹ نے کرنا ہے۔ یہ دونوں رہنما اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ اسٹبلشمنٹ کو کہہ سکیں کہ یہ کریں یہ نہ کریں۔ اس لیے یہ مفروضے بھی غلط ہیں۔ ان دونوں کی رائے کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی۔ پاک فوج نے نو مئی کے ملزمان سہولت کاروں اور منصوبہ سازوں کو سزا دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ دونوں جماعتیں اس کی راہ میں حائل رکاوٹیں تو دور کریں گی۔ لیکن اس میں ان کی مرضی کم ہی چل سکتی ہے۔
اس لیے یہ دونوں رہنما آپس میں اندرونی اختلافات تو ختم کرنے کے لیے مل سکتے ہیں۔ لیکن بڑے سیاسی فیصلے کرنے کے لیے ان کے پاس آپشن کم ہیں۔ ملک کا اگلا وزیر اعظم کون ہوگا۔ یہ بھی یہ دونوں طے نہیں کر سکتے۔ اس میں ایک تو اگلے انتخابات کے نتائج کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ایسی میٹنگ تو انتخابات کے بعد ممکن ہے جب نتائج سامنے ہوں۔
اس لیے میری نظر میں یہ خیر سگالی میٹنگ ہی ہے۔ حال ہی میں جو تقاریر کی گئی ہیں اس کے بعد معاملات نارمل کیے جا رہے ہیں۔ ایک دوسرے سے معذرت ہو سکتی ہے۔ میرا یہ مطلب نہیں تھا۔ آیندہ ایسا نہیں ہوگا۔ کوڈ آف کنڈکٹ پر بات ہو سکتی ہے کہ آیندہ اختلاف میں ایسے نہیں کیا جائے گا۔ اختلاف کی حدود پر بات ہو سکتی ہے۔ اس سے آگے بات کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔