قتلام کے میلے پھانسیوں کی نیرنگیاں
کہتے ہیں کہ دلی کے غنڈوں لفنگوں میں ایک وہ تھا جو گامی بدماش کے نام سے جانا جاتا تھا۔ ۔۔۔
کل ایک خبر پڑھ کر ہم حق دق رہ گئے۔ قاہرہ کی عدالت نے فیصلہ سنایا۔ پھانسیوں کا فیصلہ ؎
ایک دو تین چار پانچ چھ سات
آٹھ نو دس تلک تو تھی اک بات
یاں اکٹھی چھ سو تراسی پھانسیوں کا حکم نامہ۔ یہ خبر پڑھ کر ہماری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ یکمشت چھ سو تراسی پھانسیاں۔ تب ایک عزیز نے زہر خند کیا اور کہا کہ اے بے خبر۔ شاید پچھلے مہینے جو خبر آئی تھی تو نے وہ نہیں پڑھی۔ یہ یکمشت پھانسیوں کی دوسری قسط ہے۔ پچھلے مہینے اسی عدالت نے جو فیصلہ سنایا تھا اس میں پانچ سو انتیس پھانسیوں کی خوشخبری تھی۔
ہم ابھی قاہرہ کے اس قہر پر ششدر تھے کہ پھانسیوں کا ایک اور موسم یاد آ گیا۔ یہ موسم ادھر اپنے علاقہ میں دلی میں آیا تھا۔ خیر دلی میں ایسے کئی موسم اور بھی آئے تھے پھر ایسے ہی کچھ اور موسم بھی یاد آئے۔ ایک موسم کونسے شہر میں۔ کوفہ میں۔ وہ وقت یاد کیجیے جب دنیائے اسلام کے اس نامی گرامی شہر میں بغاوت کا مادہ اس طرح پک رہا تھا جیسے دیگ دم میں آ گئی ہو اور ابلنے کے لیے تیار ہو۔ عین اس ہنگامہ ایک نقاب پوش سوار سپاہیوں کے جلو میں اس شہر میں داخل ہوتا ہے۔
مجھے حیران کہ ایسے عالم میں یہ غیبی امداد اچانک کس سمت سے آئی ہے۔ یہ شہسوار اپنے سواروں کے جلو میں آگے آگے۔ باغیوں کا ایک بڑا مجمع یا ہجوم پیچھے پیچھے۔ دارالامارہ کے سامنے پہنچ کر وہ رکا۔ چہرے سے نقاب اٹھائی۔ فوراً ہی شمشیر نیام سے نکالی۔ اسے ہوا میں لہرایا۔ مجمعے کو قہر آلود نظروں سے دیکھا اور کڑک کر کہا ''میں دیکھ رہا ہوں کہ سروں کی فصل پک چکی ہے۔ اسے کاٹنے کا وقت آ گیا ہے''۔
مجمعے پر ایک بجلی سی گری۔ خوفزدہ مخلوق نے ایک دوسرے کے کان میں کہا کہ ارے یہ تو ابن زیاد ہے۔ الاماں' الاماں۔ آگے کیا ہوا۔ وہ تاریخ میں پڑھو۔
مطلب یہ کہ پھانسیوں پر موقوف نہیں۔ موت کا بازار ہمیشہ ایک رنگ سے گرم نہیں ہوتا۔ اس کے نت نئے رنگ ہیں۔ سروں کی فصل دلی میں کس طرح گرم ہوئی۔ پہلے علامہ اقبال کے یہ شعر سن لیجیے؎
کڑکا سکندر بجلی کی مانند
تجھ کو خبر ہے' اے مرگ ناگاہ
نادر نے لوٹی دلی کی دولت
اک ضرب شمشیر' افسانہ کوتاہ
نادر شاہ کی ضرب شمشیر' خدا کی پناہ۔ ارے دلی کی دولت تو اس نے پہلے ہی لوٹ لی تھی۔ باقی کیا رہ گیا تھا۔ سروں کی فصل البتہ اسے امنڈی ہوئی نظر آئی۔ مزاج میں اچانک درہمی آئی۔ نیام سے تلوار نکال کر ہوا میں لہرائی اور قتل عام کا حکم دیا۔ بس پھر چل سو چل۔ سروں کی فصل کٹنے لگی۔ دلی لہولہان ہو گئی۔
اس واسطے سے مرحوم صفدر میر نے زہر خند کے رنگ میں رنگا ہوا ایک لطیفہ سنایا۔ وہ اس طرح ہے کہ نادر شاہی قتل عام کی خبر جب لاہور پہنچی تو کسی مسخرے نے از راہ زہر خند یاروں سے کہا کہ یار دلی میں قتلام کا میلہ لگا ہوا ہے۔ چلو چل کے یہ میلہ دیکھیں۔
اور اب غالب کا بھی اس باب میں ایک مصرعہ سن لیجیے ع
شامت اعمال ما صورت نادر گرفت
نادر شاہ نے شمشیر سے سروں کی فصل کاٹی۔ اس مرد مسلمان نے دلی کے مسلمانوں سے خوب انصاف کیا۔ اس سے بڑھ کر فرنگی نکلے۔ سن ستاون کے معرکہ میں جب فرنگیوں نے پلٹ کر دلی پر یلغار کی تو خدا کی پناہ پہلے توپ بندوق۔ جب شہر فتح ہو گیا تب عدالت بیٹھی اور شہر میں جا بجا پھانسیوں کے تختے نصب کیے گئے کہ مجرموں کو سزا دی جائے۔ ارے قاہرہ کا قاضی کیا بیچتا ہے۔ فرنگیوں نے جس طرح انصاف کیا وہ دیدنی تھا۔
کہتے ہیں کہ دلی کے غنڈوں لفنگوں میں ایک وہ تھا جو گامی بدماش کے نام سے جانا جاتا تھا۔ اس نے فرنگیوں کا عجب رنگ سے اعتبار حاصل کیا۔ کسی بھی شریف آدمی کا پتہ بتاتا کہ فلاں بھی باغیوں میں شامل تھا۔ وہ کہتا فرنگی حکام اس شریف آدمی کو پکڑ بلاتے اور پھانسی کے تختے پر چڑھا دیتے۔ غالب نے احوال کچھ یوں بیان کیا ''ہے ہے کیونکر لکھوں۔ حکیم رضی الدین خاں کو قتل عام میں ایک خاکی نے گولی مار دی اور احمد حسین خاں' ان کے چھوٹے بھائی اسی دن مارے گئے۔ طالع یار خاں کے دونوں بیٹے رخصت لے کر آئے تھے۔ غدر کے سبب نہ جا سکے۔ بعد فتح دلی دونوں بے گناہوں کو پھانسی ملی۔ میر چھوٹو نے بھی پھانسی پائی''۔
چاندنی چوک اب چاندنی چوک نہیں رہا تھا۔ پھانسی چوک بنا ہوا تھا۔ بیچ چوک میں پھانسی گڑی تھی۔ جو ادھر سے گزرا' پھنس گیا اور پھانسی چڑھ گیا۔ لیجیے پھانسی کے ارد گرد ایک مجمع اکٹھا ہے۔ انھیں میں مولانا محمد حسین آزاد بھی ہیں ان کے والد بزرگوار پھانسی مجرموں کی قطار میں کھڑے ہیں۔ بیٹے سے آنکھیں چار ہوتی ہیں۔ اشاروں اشاروں میں کہتے ہیں کہ خاندان کو سمیٹو اور فوراً شہر سے نکل جائو۔
پھانسیاں اور بھی ہیں۔ ایک لمبا سلسلہ ہے۔ جتنا کریدو اتنا کرکرا۔ فرنگی راج کا یہ کمال بھی داد چاہتا ہے کہ وفاداروں اور باغیوں دونوں نے مل کر اس راج کو رونق بخشی۔ سو خان صاحبوں اور خان بہادروں نے بھی بہت عروج پایا۔ اور باغی بھی اپنا طنطنہ دکھاتے رہے۔ ایک پورا عہد بغاوت اس مقبول عام شعر میں سمٹ آیا ہے۔ شعر پڑھئے اور یاد کیجیے بھگت سنگھ کو؎
سر کٹانے کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
یہ تمنا بھی پھانسیوں کی صورت پروان چڑھتی رہی۔ اور برکات سلطنت انگلشیہ کا وظیفہ بھی جاری رہا۔
برطانوی راج کے انجام کے بعد اس برصغیر میں پھانسیوں پر اچھی خاصی اوس پڑ گئی۔ لے دے کے ایک پھانسی ہے جو ضیاء الحق کے نام لکھی گئی۔
اب مصر سے جو پھانسیوں کی خبر آئی ہے تو اس سے پتہ چلا کہ پھانسیاں کچھ فرنگی دور ہی کا طرہ امتیاز نہیں تھیں۔ ہمارے دور میں بھی وقتاً فوقتاً اسے رونق بخشنے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔ مگر اس کے عروج کا زمانہ وہی پچھلا زمانہ تھا۔
ہاں ہمارا ایک شاعر بھی تو ایک شعر کہہ کر پھانسی کا مستحق ٹھہرا تھا وہ تھا جعفر زٹلی۔ اس نے شاہ فرخ سیر کی شان میں یہ شعر لکھا؎
سکہ زد برگندم و موٹھ و مٹر
بادشاہِ تسمہ کش فرخ سیر
فرح تسمہ کشی کو بھی پھانسی کی ایک شکل جانئے۔ تسمہ چمڑے کی ڈوری جو ڈیڑھ دو انچ چوڑی ہوتی تھی۔ فرخ سیر نے اپنے بعض معتوبین کو تسمہ سے گلا گھونٹ کر مروایا تھا جعفر زٹلی ایک شعر کہہ کر اس نرالی پھانسی کا مستحق قرار پایا۔
قصہ کوتاہ' قتلام کے میلے' پھانسیوں کی ہلچل۔ پرانے زمانوں میں بہت رہی۔ مگر فی زمانہ ہم بھی اس کھیل میں نامور بننے کے لیے ہاتھ پیر مار رہے ہیں۔