سیاست کے ستارے

بقول ولی خان کے تختہ دار پر چڑھنے والا بھٹو زندہ بھٹو سے زیادہ خطرناک ثابت ہو گا ۔۔۔


Anis Baqar May 02, 2014
[email protected]

پاکستان کے نظریاتی پہلو کا اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ دنیا میں صرف دو ممالک ایسے ہیں جو نظریاتی بنیادوں پر تخلیق کیے گئے ہیں ایک براہ راست انگریز کی اپنی تدبیر تھی، جس کو اسرائیل کہا گیا جب کہ دوسرا پاکستان جو برصغیر کی مسلم آبادی کی جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ اول الذکر اسرائیل کو علاقے کے ممالک نے آسانی سے تسلیم نہ کیا اور زبردستی پڑوسی ممالک کو مغربی ممالک اور امریکا نے تسلیم کرایا جب کہ پاکستان کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ ایسا معاملہ نہ رہا کیونکہ ایک تو بھارت نے خود تسلیم کیا۔ دوئم بقیہ افغانستان اور ایران کے ساتھ پاکستان کے کشیدہ حالات نہ تھے البتہ افغانستان ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرنے کے لیے فراخ دلی سے تیار نہ تھا البتہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ میں ایران نے پاکستان کی مدد کی تھی۔

شہنشاہ ایران کے دور تک پاک ایران تعلقات نہایت بہتر رہے مگر شہنشاہیت کے خاتمے کے بعد ایران سعودی تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوئی کیونکہ ایران اور امریکا تعلقات میں عرصہ دراز تک تناؤ رہا۔ ہماری خارجہ پالیسی کے احوال کچھ ایسے ہیں لگتا ہے کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن کا تنازعہ کھٹائی میں پڑ گیا اور کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے، دوسری جانب افغانستان میں عبداللہ عبداللہ کی آمد پر ایک نئے بارڈر پر تناؤ میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ ایسے موقعے پر جب کہ پاکستان میں طالبان، حکومت کی متوازی قوت کے طور پر ابھرے ہیں گو کہ دونوں میں نظریاتی اختلاف کم ہی ہے مگر بعض معاملات پر نظری اختلافات ہیں یہ بھی ایک تضاد ہے۔

دوئم ایسے موقعے پر افغانستان سے تناؤ کوئی اچھی خبر نہ ہو گی اگر ہم ماضی کی طرف رخ کریں تو معلوم ہو گا کہ سوویت یونین جو اب رشین فیڈریشن ہے۔ اس کے ماضی کے صدر اسٹالن جو کمیونسٹ تھے انھوں نے بھی تقسیم ہند کی تائید اور پاکستان بننے کے لیے ہاں کا لفظ استعمال کیا اور علاقے کی کمیونسٹ پارٹی جو اس وقت ایک مضبوط قوت تھی۔ اس نے قیام پاکستان کی حمایت کی اور بھارتی کمیونسٹ پارٹی نے سر وزیر حسن کے صاحبزادے سید سجاد ظہیر کو جو بھارتی ریاست یوپی کے وزیر اعلیٰ سید حسن ظہیر کے بھائی تھے پاکستان کی کمیونسٹ پارٹی کا سربراہ مقرر کیا وہ ایک الگ بات ہے کہ پاکستان نے ان کی یہاں رہائش پر اعتراض کیا۔

1952ء میں پارٹی پر پابندی لگا دی گئی سجاد ظہیر کو نظربند کر دیا گیا اور ان پر سختیاں کی گئیں یہاں تک کہ پنڈت جواہر لعل نہرو جو اس وقت بھارتی وزیر اعظم تھے اور کانگریس کے رہنما تھے اور خود کو سوشلسٹ کہلواتے تھے ان کو لینے خود واہگہ بارڈر تک آئے تھے۔ اس کے بعد کمیونسٹ پارٹی زیر زمین کام کرتی رہی اور کامریڈ نازش امروہوی 25 سال تک انڈر گراؤنڈ رہ کر کام کرتے رہے اور آخر کار ان کو سخی حسن قبرستان میں دفن کیا گیا۔ امام علی نازش کو شکل کے اعتبار سے چند ہی لوگ ان کو جانتے تھے اور ان سے احکامات لیتے تھے۔ امام علی نازش کی وفات کے بعد پارٹی کئی حصوں میں بٹ چکی تھی ۔

عملی طور پر کمیونسٹ پارٹی 1954ء میں خلاف قانون قرار دے دی گئی اس پر زبردست آپریشن ہوا۔ کمیونسٹ پارٹی پر فوج کے کچھ افسران کے ساتھ مل کر 1951ء میں حکومت کا تختہ الٹنے کا الزام لگایا گیا تھا جن میں جنرل اکبر خان، کرنل فیض احمد فیضؔ اور سیکڑوں دیگر نام تھے یہ سازش کیوں ناکام ہوئی کہا تو بہت کچھ اور لکھا بھی بہت کچھ گیا۔ اس کا سہرا تو جنرل ایوب خان اور ان کے ہمنواؤں نے بھی لیا مگر حقیقت کیا تھی جہاں تک مجھے علم ہے کہ بااثر فوجی لابی اور سجاد ظہیر میں کئی ملاقاتیں ہوئیں اور سجاد ظہیر نے اس انقلاب کی تائید سے انکار کیا۔

بقول ان کے عوام اس انقلاب کے لیے فکری طور پر تیار نہ ہوں گے اور رد انقلاب کی قوتیں زبردست کشت و خون کریں گی مزدور، کسان، ہاری اور طلبہ تنظیمیں اتنی متحد نہیں ہیں کمیونسٹ پارٹی کو کالعدم قرار دینے کے کچھ عرصے کے بعد میاں افتخار الدین نے آزاد پاکستان پارٹی کی بنیاد رکھی جو بعد میں نیشنل پارٹی اور پھر نیشنل عوامی پارٹی کہلائی۔ جس میں ملک کے بائیں بازو کے لوگوں نے قوم پرستوں کی چھتری کے نیچے سایہ تلاش کیا مگر ملک پر سرمایہ دارانہ جاگیردارانہ قیادت کبھی آمریت کی شکل میں کبھی جمہوریت کی شکل میں حکمران رہی۔ یہی فکری عمل جاری رہا اور قیادت ملک میں محب وطن اور غیر محب وطن کا سرٹیفکیٹ جاری کرتی رہی یہاں تک کہ 1970ء کے انتخابات کے بعد ملک دو لخت ہو گیا جس میں ذوالفقار علی بھٹو نے جو سندھ اور پنجاب کے اکثریتی لیڈر تھے۔

انھوں نے اکثریتی رہنما شیخ مجیب سے معاہدہ نہ کیا اور مغربی پاکستان کے کمیونسٹ ووٹ بینک کو روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگا کر استعمال کیا مگر یہ نعرہ بھی یہاں کے مذہبی انتہا پسندوں پر گراں گزرتا تھا اور اپنی زمین اور جائیداد کو وہ زبردست خطرہ سمجھتے تھے اس لیے وہ اسے تختہ دار پر لے گئے۔ گو کہ نیشنل عوامی پارٹی کے سربراہ ولی خان نے صدر ضیا الحق کو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی نہ دینے کا مشورہ دیا تھا۔

بقول ولی خان کے تختہ دار پر چڑھنے والا بھٹو زندہ بھٹو سے زیادہ خطرناک ثابت ہو گا اور یہی ہوا بھٹو کی کہانی سنانے والی پی پی پی نے اقتدار بھٹو کی شہادت پر حاصل کیا اور بے نظیر کی شہادت سے بھی اقتدار تک پہنچی مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ کبھی بھی بھٹو کی شہادت پر کوئی قانونی یا عوامی چارہ جوئی نہ کی بلکہ بھٹو کے مخالفین سے ہاتھ ملانے اور اس کی ہاں میں ہاں ملانے کے عمل کو جمہوریت کی بقا قرار دیا۔

اور آج بھی صدر ضیا الحق کی باقیات سے دوستی بھی ہے اور نام نہاد تضادات بھی نمایاں کیے جاتے ہیں جب کہ پاکستان کی لبرل پارٹیاں بائیں بازو کا نہ کوئی داخلی پروگرام رکھتی ہیں اور نہ ہی خارجہ پالیسی کا بلکہ عوام کو کنفیوژ (Confuse) شرمندہ اور گمراہ کرنے میں مصروف کار ہیں۔ دراصل یہ بظاہر ملک کی کمیونسٹ پارٹی کے منشور کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے میں مصروف ہیں خارجہ پالیسی میں امریکا ان کا کلیدی حلیف ہے۔ بس اتنا ہی ان کا شور و غوغا ہے کہ یہ خود کو امریکا کے خلاف گفتگو کر کے رائے عامہ کو اپنے گرد جمع کرتے ہیں۔

بانی پاکستان کیا چاہتے تھے اور ان کے نزدیک پاکستان کو کیسی ریاست ہونا تھا اور اب وہ کیسی ہے اس پر بحث جاری ہے بجائے اس کے کہ ریاست ایسی ہو جو عوام کی ہو، عوام کے ذریعے سے ہو اور عوام کے دکھ اور درد کو کم کرنے کے لیے ہو۔ مگر عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے کو کوئی تیار نہیں بلکہ ماضی میں جو عوامی تحریکیں چلتی تھیں وہ بھی ختم ہو چکی ہیں۔ عوامی مشکلات کسی پارٹی کا ایجنڈا نہیں بلکہ بعض معنی میں جمہوریت میں عوام کے خلاف جو اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں وہ آمریت میں بھی نہیں، اب ہمارے بجٹ آئی ایم ایف کی تجاویز سے بنتے ہیں پھر بھی ہم آزاد خارجہ پالیسی کے داعی ہیں۔

پاکستان کی ابتدا کا اگر تجزیہ بین الاقوامی طور پر کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ مشرقی یورپ یہاں تک کہ جرمنی، پولینڈ، چیکو سلواکیہ، رومانیہ، بلغاریہ، یوگو سلواکیہ، سب روس کے اتحادی تھے اور ان ممالک نے روسی صدر جوزف اسٹالن کی رہنمائی میں بھارت کی تقسیم اور قیام پاکستان کو لازم قرار دیا تھا کیونکہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ پاکستان جلد سوشلسٹ ریاست بن جائے گا کیونکہ جید علما تقسیم ہند کے خلاف تھے۔ لہٰذا سوشلسٹ عناصر کو یہاں قدم جمانے میں جاگیرداروں اور مذہبی عناصر نے 1960ء کے بعد پاکستان کے سیاسی ستونوں کو اپنا ہمنوا بنالیا۔

1964ء میں مادر ملت کے انتخاب کے موقعے پر عوامی جمہوری تبدیلی کی توقع پیدا ہوئی اس میں مشرقی پاکستان پیش پیش تھا مگر ون یونٹ کی ضرب نے فاطمہ جناح پر ضرب کاری لگائی اور جہاں اور بھی بنگالیوں کے گِلے تھے ان میں کراچی سے اسلام آباد دارالسلطنت کی منتقلی بھی ایک پہلو تھا اور فاطمہ جناح کی شکست بھی ان کے لیے مایوسی کا سبب بنی۔ شیخ مجیب الرحمن اور مولانا بھاشانی کو شدید جھٹکا لگا ماضی میں کمیونسٹوں پر شدید بندش رہی اور ان کی تمام کاوشوں کے باوجود وہ اقتدار سے محروم رہے۔ اس میں سوشلسٹوں کی 1965ء کے بعد تقسیم اور بین الاقوامی محاذ پر نیٹو کی چابکدستی اور عالمی پیمانے پر مذہبی عناصر کی حمایت پھر سوویت یونین کی افغانستان میں بے محل مداخلت تھی۔ جس سے امریکا کو مداخلت کا جواز ملا مشرق اوسط سے لے کر وسطی ایشیا ہیجان کا شکار ہو گیا۔

اب پاکستان میں کوئی بائیں بازو کی متحرک قوت نہیں البتہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جگر لخت لخت کو جمع کرنے میں یہ مصروف ہیں مگر پاکستان کی سیاست مجموعی طور پر کنفیوژن کا شکار ہے، رہی سہی کسر الیکٹرانک مباحثوں نے پوری کر دی جن کا محور 1930ء سے لے کر آج تک پاکستان کی تخلیق سے قبل اور آنے والے دنوں کو تجزیہ ہے۔ ملک کی جو سنگین صورتحال ہمارے ملک میں ہے اس کے ذمے دار حکومتی سیاست دان ہیں سیاست کے یہ ستارے آنے والے دنوں میں اچھی چالوں کا پتہ نہیں دے رہے کیونکہ ان کی ہر چال محض اپنی ذات کے لیے ہے نہ کہ ملک کے لیے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں