ضرورت ایجاد کی ماں
یہ مفاہمتی سیاست کا کرشمہ تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی حکومت کو آئینی مدت پوری کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔
ضرورت کو ایجاد کی ماں کہا جاتا ہے چونکہ ضرورتیں مختلف ہوتی ہیں اس لیے ایجادات بھی مختلف ہوتی ہیں ہمارے طبقاتی سماج ہی کو لے لیجیے یہاں ہر طبقے کی ضرورت الگ الگ ہوتی ہے غریب کی ضرورت روٹی کپڑا اور مکان ہوتی ہے اور وہ پیدائش سے موت تک ان ہی بنیادی ضرورتوں کے کولہو کے گرد گھومتا رہتا ہے۔ ہماری اعلیٰ عدالت کے ایک محترم جج نے اپنی ایک آبزرویشن میں کہا ہے کہ غریب کی ساری توجہ جب پیٹ پر ہی مبذول ہو تو وہ زندگی کے دوسرے مسائل پر کس طرح سوچ سکتا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو غریب کی زندگی بدلنا چاہتے تھے لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ غریب کی ضرورت روٹی ہے۔ ڈبل روٹی نہیں چاہیے۔ غریب کی ضرورت جھونپڑی یا دو کمروں کا کچا مکان ہے، بلاول ہاؤس رائے ونڈ کے محلات یا ڈیفنس کلفٹن کی کوٹھیاں نہیں۔ ان حقائق پر نظر ڈالنے کے بعد مرحوم کو یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ ایک ایسا نعرہ ایجاد کرنا ضروری ہے جس کا تعلق غریب کی بنیادی ضروریات سے ہے اور جو غریب کو متاثر کر سکے۔ سو ایلیٹ کلاس کی یہ ضرورت ایجاد کی ماں بن گئی اور ''روٹی کپڑا اور مکان'' کا وہ نعرہ ایجاد ہوا جس پر غریب اسی طرح نثار ہوا جس طرح شمع پر پروانہ نثار ہوتا ہے۔ روٹی کپڑا اور مکان میں بلاشبہ بے انتہا کشش اس لیے تھی کہ یہ تینوں چیزیں غریب کی دسترس سے باہر تھیں۔
بھٹو مرحوم بلاشبہ غریبوں کے ہمدرد تھے اور ہو سکتا ہے وہ بھوکوں کو روٹی دلوانے، ننگوں کو کپڑا دلوانے، اور بے گھروں کو گھر دلوانے میں مخلص بھی ہوں لیکن اکیلا چنا بھاڑ نہیں پھوڑ سکتا۔ بھٹو کے اردگرد جو لوگ تھے وہ غریب کے زندہ رہنے کے حق سے ہی انکاری تھے سو بھٹو کا مخلصانہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ بھٹو کے بعد کئی حکمران آئے اور مال بناکر چلے گئے لیکن غریب آج تک روٹی کپڑا اور مکان کے کولہو ہی پر گردش کر رہا ہے۔ سارے کام بڑی آسانی سے انجام پا رہے تھے کہ 2007ء میں میڈیا بیچ میں کود پڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس قدر طاقتور ہو گیا کہ اس کے نام سے ہی بڑوں کی ٹانگیں کانپنے لگیں۔ وہ عظیم کارنامے جو عموماً سات پردوں میں چھپے رہتے تھے بیچ چوراہوں پر آنے لگے۔
2007ء سے میڈیا پر اربوں کی لوٹ مار کی داستانیں منظر عام پر آنے لگیں اور صدیوں سے عوام میں فرشتہ بن کر رہنے والے شیطانوں کے روپ میں اس طرح عوام کے سامنے آئے کہ ان کے سرخ و سپید چہروں سے عوام کو گھن آنے لگی۔ سیاسی رقابتوں نے اس جلتی پر تیل کا کام شروع کیا چینلوں کے ٹاک شوز ایلیٹ کے پوتڑے دھونے کے گھاٹ بن گئے۔ بات یہیں پر ختم نہ ہوئی بلکہ اقتدار کی ٹانگیں کھینچنے کا سلسلہ شروع ہوا اگرچہ چوروں کی اس لڑائی کا عوام سے کوئی تعلق نہ تھا لیکن جب میڈیا میں عزت سادات کی پگڑیاں اچھالی جانے لگیں تو ان عذابوں سے بچنا ایلیٹ کی پہلی ضرورت بن گئی۔
چونکہ سوچنے کی راہ میں پیٹ حائل نہ تھا سو سوچ تیزی سے کام کرنے لگی اور نتیجہ یہ سامنے آیا کہ کھایا پیا پچانا اور اقتدار کی مدت خیر و خوبی سے پوری کرنا سیاسی ایلیٹ کی پہلی ضرورت ہے۔ جب ضرورت کا تعین ہو گیا تو ایجاد کی طرف پیش قدمی شروع ہو گئی یوں دور حاضر کا وہ جادوئی فلسفہ ایجاد ہوا جسے ''مفاہمتی سیاست'' کا نام دیا گیا۔ اس سیاست کے کرشموں سے اہل خرد کی آنکھیں چکا چوند ہو گئیں۔
یہ مفاہمتی سیاست کا کرشمہ تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی حکومت کو اپنے اقتدار کی آئینی مدت پوری کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اگرچہ کہ یہ کارنامہ اصولاً قابل شرم ہی تھا لیکن اس کارنامے پر جشن منائے گئے اور ایک دوسرے کو بدھائیاں دی گئیں۔ ایلیٹ کو احساس ہوا کہ مفاہمتی سیاست واقعی ایک کرشمہ ہے کہ عزت و آبرو کے ساتھ وقت بھی پورا ہوا اور مال پر بھی کوئی آنچ نہ آئی۔
جمہوریت کی گاڑی کے دو پہیے ہوتے ہیں ایک حزب اقتدار دوسرا حزب اختلاف جن ملکوں میں ایلیٹ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کو سیاسی دھرم سمجھتی ہے ان ملکوں میں یہ دونوں پہیے ریلوے کی دو لائنیں بنی رہتی ہیں جو ساتھ ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے الگ ہوتی ہیں لیکن پاکستان کی سیاسی ایلیٹ نے مفاہمتی سیاست کا جو فارمولا ایجاد کیا ہے اس نے حزب اقتدار اور حزب اختلاف کو اس طرح شیر و شکر بنا دیا ہے کہ یہ دونوں متحارب طاقتیں پانی اور دودھ کی طرح یک جان بن گئی ہیں۔ لڑائی جھگڑوں کے مقابلے میں صلح صفائی جنگ کے مقابلے میں امن یقینا ایک بہتر چوائس ہوتی ہے لیکن اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ جنگ کے مقابلے میں امن کی اس سیاست کا کیا عوام اور عوامی مفادات سے کوئی تعلق ہے؟
یہی وہ سوال ہے جس کے جواب پر جنگ اور امن کی ساری عمارت کھڑی ہوئی ہے۔ عوام کو یہ جاننے کا حق حاصل ہے کہ فرینڈلی اپوزیشن کا فائدہ کس کو ہو رہا ہے کیا پانچ سال کی آئینی مدت پوری کرنے کے دوران عوام کے پانچ فیصد ہی مسائل حل ہوئے ہیں؟ اگر موجودہ حکومت بھی فرینڈلی اپوزیشن کے تعاون سے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کر لیتی ہے تو عوام کے کتنے فیصد مسائل حل ہوں گے؟ حکومت اور اپوزیشن اپنے ناجائز اثاثوں کی حفاظت عدالتوں میں لوٹ مار کے حوالے سے چلنے والے مقدمات میں ایک دوسرے کی مدد کرتی ہے اور باری باری اقتدار میں آنے کی راہ ہموار کرتی ہے تو کیا ہم اس سیاست کو مفاہمت کی سیاست کا نام دے سکتے ہیں؟
اس سیاست کی ضرورت اس لیے پڑ رہی ہے کہ میڈیا اور عدلیہ سیاسی ایلیٹ کے ''سرکاری کاموں'' میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ ایلیٹ کی سیاسی مفاہمت کا جواب ایسی صورت میں ممکن ہے جب عوام بلکہ مختلف حوالوں سے تقسیم در تقسیم کے شکار اور ایک دوسرے سے برسر پیکار عوام کے درمیان بھی مفاہمت کا فروغ ہو اور اس مفاہمت کے ذریعے عوام لوٹ مار اور باری باری کی مفاہمت کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو سرکاری اور سیاسی مفاہمت کی کامیابی کا راستہ روکنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو گا۔
ذوالفقار علی بھٹو غریب کی زندگی بدلنا چاہتے تھے لیکن وہ یہ بھی جانتے تھے کہ غریب کی ضرورت روٹی ہے۔ ڈبل روٹی نہیں چاہیے۔ غریب کی ضرورت جھونپڑی یا دو کمروں کا کچا مکان ہے، بلاول ہاؤس رائے ونڈ کے محلات یا ڈیفنس کلفٹن کی کوٹھیاں نہیں۔ ان حقائق پر نظر ڈالنے کے بعد مرحوم کو یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ ایک ایسا نعرہ ایجاد کرنا ضروری ہے جس کا تعلق غریب کی بنیادی ضروریات سے ہے اور جو غریب کو متاثر کر سکے۔ سو ایلیٹ کلاس کی یہ ضرورت ایجاد کی ماں بن گئی اور ''روٹی کپڑا اور مکان'' کا وہ نعرہ ایجاد ہوا جس پر غریب اسی طرح نثار ہوا جس طرح شمع پر پروانہ نثار ہوتا ہے۔ روٹی کپڑا اور مکان میں بلاشبہ بے انتہا کشش اس لیے تھی کہ یہ تینوں چیزیں غریب کی دسترس سے باہر تھیں۔
بھٹو مرحوم بلاشبہ غریبوں کے ہمدرد تھے اور ہو سکتا ہے وہ بھوکوں کو روٹی دلوانے، ننگوں کو کپڑا دلوانے، اور بے گھروں کو گھر دلوانے میں مخلص بھی ہوں لیکن اکیلا چنا بھاڑ نہیں پھوڑ سکتا۔ بھٹو کے اردگرد جو لوگ تھے وہ غریب کے زندہ رہنے کے حق سے ہی انکاری تھے سو بھٹو کا مخلصانہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ بھٹو کے بعد کئی حکمران آئے اور مال بناکر چلے گئے لیکن غریب آج تک روٹی کپڑا اور مکان کے کولہو ہی پر گردش کر رہا ہے۔ سارے کام بڑی آسانی سے انجام پا رہے تھے کہ 2007ء میں میڈیا بیچ میں کود پڑا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس قدر طاقتور ہو گیا کہ اس کے نام سے ہی بڑوں کی ٹانگیں کانپنے لگیں۔ وہ عظیم کارنامے جو عموماً سات پردوں میں چھپے رہتے تھے بیچ چوراہوں پر آنے لگے۔
2007ء سے میڈیا پر اربوں کی لوٹ مار کی داستانیں منظر عام پر آنے لگیں اور صدیوں سے عوام میں فرشتہ بن کر رہنے والے شیطانوں کے روپ میں اس طرح عوام کے سامنے آئے کہ ان کے سرخ و سپید چہروں سے عوام کو گھن آنے لگی۔ سیاسی رقابتوں نے اس جلتی پر تیل کا کام شروع کیا چینلوں کے ٹاک شوز ایلیٹ کے پوتڑے دھونے کے گھاٹ بن گئے۔ بات یہیں پر ختم نہ ہوئی بلکہ اقتدار کی ٹانگیں کھینچنے کا سلسلہ شروع ہوا اگرچہ چوروں کی اس لڑائی کا عوام سے کوئی تعلق نہ تھا لیکن جب میڈیا میں عزت سادات کی پگڑیاں اچھالی جانے لگیں تو ان عذابوں سے بچنا ایلیٹ کی پہلی ضرورت بن گئی۔
چونکہ سوچنے کی راہ میں پیٹ حائل نہ تھا سو سوچ تیزی سے کام کرنے لگی اور نتیجہ یہ سامنے آیا کہ کھایا پیا پچانا اور اقتدار کی مدت خیر و خوبی سے پوری کرنا سیاسی ایلیٹ کی پہلی ضرورت ہے۔ جب ضرورت کا تعین ہو گیا تو ایجاد کی طرف پیش قدمی شروع ہو گئی یوں دور حاضر کا وہ جادوئی فلسفہ ایجاد ہوا جسے ''مفاہمتی سیاست'' کا نام دیا گیا۔ اس سیاست کے کرشموں سے اہل خرد کی آنکھیں چکا چوند ہو گئیں۔
یہ مفاہمتی سیاست کا کرشمہ تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی حکومت کو اپنے اقتدار کی آئینی مدت پوری کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اگرچہ کہ یہ کارنامہ اصولاً قابل شرم ہی تھا لیکن اس کارنامے پر جشن منائے گئے اور ایک دوسرے کو بدھائیاں دی گئیں۔ ایلیٹ کو احساس ہوا کہ مفاہمتی سیاست واقعی ایک کرشمہ ہے کہ عزت و آبرو کے ساتھ وقت بھی پورا ہوا اور مال پر بھی کوئی آنچ نہ آئی۔
جمہوریت کی گاڑی کے دو پہیے ہوتے ہیں ایک حزب اقتدار دوسرا حزب اختلاف جن ملکوں میں ایلیٹ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کو سیاسی دھرم سمجھتی ہے ان ملکوں میں یہ دونوں پہیے ریلوے کی دو لائنیں بنی رہتی ہیں جو ساتھ ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے الگ ہوتی ہیں لیکن پاکستان کی سیاسی ایلیٹ نے مفاہمتی سیاست کا جو فارمولا ایجاد کیا ہے اس نے حزب اقتدار اور حزب اختلاف کو اس طرح شیر و شکر بنا دیا ہے کہ یہ دونوں متحارب طاقتیں پانی اور دودھ کی طرح یک جان بن گئی ہیں۔ لڑائی جھگڑوں کے مقابلے میں صلح صفائی جنگ کے مقابلے میں امن یقینا ایک بہتر چوائس ہوتی ہے لیکن اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ جنگ کے مقابلے میں امن کی اس سیاست کا کیا عوام اور عوامی مفادات سے کوئی تعلق ہے؟
یہی وہ سوال ہے جس کے جواب پر جنگ اور امن کی ساری عمارت کھڑی ہوئی ہے۔ عوام کو یہ جاننے کا حق حاصل ہے کہ فرینڈلی اپوزیشن کا فائدہ کس کو ہو رہا ہے کیا پانچ سال کی آئینی مدت پوری کرنے کے دوران عوام کے پانچ فیصد ہی مسائل حل ہوئے ہیں؟ اگر موجودہ حکومت بھی فرینڈلی اپوزیشن کے تعاون سے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کر لیتی ہے تو عوام کے کتنے فیصد مسائل حل ہوں گے؟ حکومت اور اپوزیشن اپنے ناجائز اثاثوں کی حفاظت عدالتوں میں لوٹ مار کے حوالے سے چلنے والے مقدمات میں ایک دوسرے کی مدد کرتی ہے اور باری باری اقتدار میں آنے کی راہ ہموار کرتی ہے تو کیا ہم اس سیاست کو مفاہمت کی سیاست کا نام دے سکتے ہیں؟
اس سیاست کی ضرورت اس لیے پڑ رہی ہے کہ میڈیا اور عدلیہ سیاسی ایلیٹ کے ''سرکاری کاموں'' میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ ایلیٹ کی سیاسی مفاہمت کا جواب ایسی صورت میں ممکن ہے جب عوام بلکہ مختلف حوالوں سے تقسیم در تقسیم کے شکار اور ایک دوسرے سے برسر پیکار عوام کے درمیان بھی مفاہمت کا فروغ ہو اور اس مفاہمت کے ذریعے عوام لوٹ مار اور باری باری کی مفاہمت کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو سرکاری اور سیاسی مفاہمت کی کامیابی کا راستہ روکنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو گا۔