چلتی کا نام گاڑی

کسی نے خوب کہا ہے کہ ہمارے یہاں ادارے اور ملازمین بٹ چکے ہیں ۔۔۔۔

shehla_ajaz@yahoo.com

حال ہی میں پاکستان ریلوے کے لیے چین سے نئے ریلوے انجن درآمد کیے گئے ہیں امید ہے کہ یہ نئے ریلوے انجن جلد ہی پاکستان ریلوے میں اپنی کارکردگی دکھائیں گے۔ خدا کرے ان کا حال ان گزشتہ درآمد کیے انجنوں کی طرح نہ ہو جن کے متعلق خود ریلوے کے ملازمین کا کہنا تھا کہ ان انجنوں کی مشینری پاکستان ریلوے کے حالیہ ریلوے انجنوں سے بالکل مختلف ہے لہٰذا وہ ورکشاپ میں بیکار پڑے ہیں اب یا تو مذکورہ انجنوں کو جن ممالک سے درآمد کیا ہے وہاں کے ہی انجینئرز آئیں تو ان کو سمجھ سکیں اور کام کریں ورنہ ایسے انجنوں کا کیا فائدہ جس کی کل ہی سیدھی نہ ہو، ویسے نظروں سے کتنے ہی مناظر گزر جاتے ہیں لیکن جن کے دل پر لگتی ہے وہ اپنے مطلب کے مناظر نظروں میں محفوظ کرلیتے ہیں جیسے اخبار کے پہلے صفحے پر کراچی پورٹ پر بحری جہاز سے اترتے ریلوے انجن کی تصویر۔

پاکستان بننے سے پہلے ہی انگریزوں نے ریلوے کے نظام کو خاصا فعال کررکھا تھا۔ ایک خلقت ایک کونے سے دوسرے کونے تک ٹرینوں میں سفر کرتی تھی۔ منٹو ہو یا عصمت چغتائی، احمد ندیم قاسمی ہوں یا مستنصر تارڑ تقریباً تمام ہی اپنی کہانیوں یا افسانوں میں ٹرین کے سفر کو کسی نہ کسی انداز میں اپنی ذہنی صلاحیتوں کو اجاگر کرچکے ہیں ۔ایک عجیب طلسماتی رومانوی سی کیفیت ہے ٹرین کے چھک چھک کرتے سفر میں اور اب تو ترقی اتنی ہوچکی ہے کہ ٹرین بغیر چھک چھک کیے سر سے سرک بھی جاتی ہے۔

مجھے یاد ہے ہمارے ایک عزیز کے غالباً دادا یا نانا پاکستان بننے سے پہلے ٹرین ڈرائیور تھے جب انھوں نے اپنے اس رشتے کا تعارف ان کی ٹرین شناسی سے کروایا تو ہمیں بے ساختہ ہنسی آگئی جواباً کہا گیا کہ جناب پہلے اس جاب کو بہت معزز نوکری سمجھا جاتا تھا جیسے آج کل ہوائی جہاز کے ڈرائیور یعنی پائلٹ کو سمجھا جاتا ہے ، یقینا ایسا ہی تھا کیونکہ پہلے ٹرین کے سفر کو بھی ایک اعزاز سمجھا جاتا تھا جب کہ آج کل اسے مڈل کلاس سواری جانا جاتا ہے اب چاہے بزنس کلاس ٹرین ہو یا کوئی اور۔ ہم تو عزت دے کر بھی اتار دینے کے عادی ہیں۔

ابھی حال ہی میں ہمارے ایک جاننے والے بذریعہ ٹرین لاہور سے کراچی پہنچے ٹرین کی روانگی کا وقت شام پانچ بجے کا تھا لیکن روانگی رات پونے دو بجے ہوئی اور یہ سفر پورے تیس گھنٹے بعد اختتام پذیر ہوا جب دوسرے دن رات دس بجے انھوں نے ڈرگ روڈ اسٹیشن پر قدم رکھا۔ یہ ایک انتہائی عجیب سی صورتحال تھی حالانکہ اس دور میں جب ریلوے کی کارکردگی کے اتنے راگ الاپے جا رہے ہیں ایسے میں بچوں، بوڑھوں، بیمار اور اپنے ضروری کاموں میں الجھے مظلوم مسافروں کے ساتھ اس طرح کا سلوک یہ ثابت کر رہا ہے کہ سب رنگین فسانے ہیں، حقیقتیں تو بہت تلخ ہیں۔

کسی نے خوب کہا ہے کہ ہمارے یہاں ادارے اور ملازمین بٹ چکے ہیں ملازمین اپنی فلاح و بہبود کا خیال رکھتے ہیں اس کے حقوق کے لیے نعرے لگاتے ہیں لیکن جن اداروں سے وہ منسلک ہیں جس سے ان کی روزی روٹی چلتی ہے اسے سرکاری کھاتے میں ڈال کر خود الگ ہوجاتے ہیں کیا ہی اچھا ہو کہ ملازمین اداروں کو سرکاری مال نہیں بلکہ اپنی عزت اپنی ماں سمجھ کر کام کریں اس کا بھی اتنا ہی خیال کریں جیسا اپنے گھر کا کرتے ہیں شاید کبھی وہ یہ سمجھ سکیں۔


بتانے والے بتاتے ہیں کہ اسٹیشن میں داخل ہوتے ہی پتہ چلا کہ ٹرین دو تین گھنٹے لیٹ ہے، سخت کوفت ہوئی واپسی کے لیے یوں سوچا نہ گیا کہ منزل دور تھی بہرحال صبر کرکے انتظار کیا گیا۔ اسی دوران چار بجے والی ٹرین ایک ڈیڑھ گھنٹہ تاخیر سے ان کے سامنے ہی روانہ ہوگئی، اسٹیشن پر ایک صاحب بڑے متحرک دکھائی دیے جن کے پیچھے مسافر تھے موصوف کا تعلق ریلوے کے عملے سے ہی تھا اور وہ پانچ بجے کی ٹرین کے مسافروں کو ہولناک تاخیر کی خبریں سنا سنا کر راغب کر رہے تھے کہ انھیں اوپر سے کچھ دے دلاکر اس سے پہلی ٹرین کے ٹکٹ پر روانہ کیا جاسکتا ہے۔

بہرحال چار بجے کی ٹرین کے بعد پانچ بجے والی ٹرین تو نہ آئی البتہ نائٹ کوچ ضرور آگئی اور تقریباً ساڑھے آٹھ بجے جب وہ ٹرین روانہ ہوئی تو اس کے اپنے مسافروں کے ہمراہ اور بہت سے نئے مسافر بھی تھے جو اوپر کا خرچہ دے کر طویل انتظار کے کرب سے بچنا چاہتے تھے بعد میں پتہ چلا کہ ابھی کراچی سے ٹرین ہی نہیں آئی لہٰذا بعد میں مسافروں نے ساڑھے آٹھ بجے، اوپر سے دے دلا کر، جانے والے مسافروں پر رشک کیا۔

بہرحال ٹرین آہی گئی لیکن صفائی ستھرائی کے طویل انتظار پر پھر مسافروں کی آنکھیں اور صبر جواب دے چکے تھے اور ساڑھے بارہ بجے کے بعد ایک شور اٹھا جو احتجاج کی صورت میں اسٹیشن ماسٹر کے کمرے کی جانب بڑھا اس سے پہلے وہ متحرک صاحب کسی بڑے افسر سے پونے پانچ بجے کی بات کرچکے تھے گویا پونے پانچ بجے صبح میں کوئی اور راز چھپا تھا، مسافروں کے احتجاج پر انھیں سمجھا بجھا دیا گیا لوگوں کا مطالبہ تھا کہ انھیں ان کے ٹکٹ کے پیسے واپس کیے جائیں اس پہلی تسلی کے بعد اعلان کردیا گیا کہ کراچی ٹرین جانے والی ہے۔

مسافروں نے ذرا سکون کا سانس لیا لیکن پھر وہی طویل خاموشی سوار تھی اور ایک بار پھر جوش و ولولہ احتجاج کی صورت میں قافلے کی شکل میں اسٹیشن ماسٹر کے کمرے کی جانب بڑھا ایک بار پھر یقین دہانی کرائی گئی، محسوس یوں ہو رہا تھا کہ جیسے جان بوجھ کر شرارت کی جا رہی ہے اور کچھ دیر بعد ٹرین کے ہارن نے شور مچایا اور لوگوں کے شور نے اس کا خیرمقدم کیا۔یہ سب کیا تھا۔ شرارت، جان بوجھ کر تاخیر تاکہ اوپر کی کمائی سے جو مسافروں نے اپنے طویل صبر کے عوض ہزاروں دے کر بیچا تھا یا یونین کی اپنی کوئی اسٹرٹیجی جس سے کسی کو بدنام کرانا مقصد تھا بہرحال یہ جو کچھ بھی تھا بہت برا تھا۔ بتایا گیا تھا کہ ایک بزرگ خاتون شوگر کی مریضہ اس طویل انتظار سے بے حال ہوئے جا رہی تھیں۔

شیخ رشید کے بعد سعد رفیق صاحب کی آمد نے بے جان ہوتی ریلوے میں جان ڈالی تھی لیکن یہ سب کیا ہے ایک جانب نئے انجنوں کی درآمد ہو رہی ہے اور پرانے انجنوں کی بدحالی کے نئے عنوانات رقم ہو رہے ہیں ۔سرکلر ٹرین کے منصوبے بنائے جارہے ہیں اور بہت کچھ جو صرف سننے میں ہی آرہا ہے آخر اس کی اصل شکل کب نصیب ہوگی۔ 1947 کے بعد سے ہم نے تنزلی کا سفر ہی کیوں کیا ہے۔ ہم نئے درخت کب لگائیں گے اور کب ان کا پھل کھانا نصیب ہوگا کیا ہم ہمیشہ جڑوں پر ہی تھوڑا تھوڑا پانی ڈال کر اکتفا کرتے رہیں گے کہ بس ٹرین تو چل رہی ہے اور چلتی کا نام گاڑی ہے۔ پر خدارا گاڑی کی مشینری تو ذرا چیک کرلیں کہ اسے بھی وقت پر تیل پانی چاہیے اس کی غذا تو نہ کھائیے۔
Load Next Story