مزدوروں کی جدوجہد…

یکم مئی کوگزارے128سال ہو چکے ہیں لیکن محنت کش طبقہ آج بھی یکم مئی 1886ء سے پہلے کی پوزیشن پر کھڑا ہے۔۔۔۔


Latif Mughal May 02, 2014

ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی 1886ء میں شکاگو کے ان محنت کشوں کی اس عظیم جدوجہد کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے یکم مئی کو مزدوروں کا عالمی دن ملک کے طول وعرض میں منایا گیا ۔ اس دن مختلف مزدور تنظیموں نے اپنے اپنے پلیٹ فارم سے جلسے، ریلیاں، کانفرنس، ورکشاپس اور مختلف پروگرام منعقد کیے،جن میں یکم مئی کے دن شکاگو(امریکا) کے ہزاروں محنت کشوں کی جدوجہد کو خراج عقیدت پیش کیا گیا اور اس بات کا عہد کیا گیا کہ دنیا کے مزدوروں ایک ہوجائو، کا نعرہ لگاتے ہوئے تجدید عہد کیا گیا کہ وہ بھی شکاگو کے ان عظیم محنت کشوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مزدور حقوق کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے جن میں شکاگو کے ہزاروں محنت کشوں نے اپنے کام کے اوقات کار بہتر بنانے کے لیے بھی (8گھنٹے) اس تاریخی جدوجہد کا آغاز کیا تھا جو آج بھی دنیا بھر کے محنت کشوں کے لیے مشعل راہ ہے۔

اس جدوجہد کے دوران شکاگو کے محنت کشوں نے جو قربانیاں دیں ان قربانیوں کے ثمرات آج بھی پوری دنیا کے مزدور حاصل کررہے ہیں گو کہ محنت کش طبقہ آج بھی مختلف مسائل کا شکار ہے آج محنت کشوں کو ٹریڈ یونین بنانے کی آزادی نہیں ہے ۔کام کے اوقات کار 8گھنٹے سے زیادہ ہیں، ورکروں کو ملازمت کا تحفظ حاصل نہیں ،تھرڈ پارٹی سسٹم رائج کر دیا گیا ہے ، آج انھیں، بہتر رہائش، صحت،خوراک، بچوں کی تعلیم اور پینے کا صاف پانی جیسی بنیادی سہولتیں تک حاصل نہیں ہیں اور کام کی جگہ پر بھی وہ سہولتیں حاصل نہیں جو فیکٹری ایکٹ اور ہیلتھ اینڈ سیفٹی کے قوانین کے تحت انھیں حاصل ہونا چاہیں اور جو ان کا بنیادی حق ہے۔

یکم مئی کوگزارے128سال ہو چکے ہیں لیکن محنت کش طبقہ آج بھی یکم مئی 1886ء سے پہلے کی پوزیشن پر کھڑا ہے اور اپنے اوقات کار بہتر بنانے اور بنیادی انسانی ضروریات کے حصول کے لیے سرگرداں ہے، جب کہ 1926 کے انڈین ٹریڈ یونین ایکٹ کے تحت قیام پاکستان سے پہلے ہر ادارے کے مزدوروں کو اپنے اداروں میں ٹریڈ یونین بنانے کی آزادی اور اجتماعی سودے کاری کا حقوق حاصل تھا صرف فوج میں یونین بنانے کی پابندی تھی، رفتہ رفتہ قوانین پرعملدرآمد ختم ہوتاگیا۔ حالیہ دور میں عالمی کساد بازاری میں اضافہ ہوا ہے، یورپی ممالک میں بھی روزگار کے مواقعے کم ہوئے ہیں جس کے منفی اثرات ،تیسری دنیا کے ممالک بالخصوص سائوتھ ایشیائی ممالک پر پڑے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک جو پہلے ہی سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے اقتصادی ومالیاتی بحران کا شکار ہیں۔

حالیہ مالیاتی بحران نے ان ممالک کی معیشتوں پر نہایت خراب اثر ڈالا ہے اور پہلے ہی کساد بازاری کا شکار معیشت مزید تنزلی کا شکار ہوئی ہے، صنعتی پیداوار سست اور محدود ہوگئی ہے اور پاکستان میں2250 بڑی صنعتوں میں سے 550 صنعتیں بند ہو گئی ہیں، جس کی وجہ سے جہاں ہماری ایکسپورٹ کم ہوئی ہے وہاں تجارتی اور بجٹ خسارے میںاضافہ ہوا ہے امپورٹ ایکسپورٹ کا توازن مزید بگڑ گیا ہے اور سالانہ GDP کا ٹارگٹ بھی پورا نہیں ہوا بیرونی ترسیلات اور FDIمیں بھی کمی ہوئی ہے۔

موجودہ حکومت بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے نجکاری کا پروگرام بنا رہی ہے۔ 68قومی اداروں جو منافع بخش ہیں کو پرائیویٹائز کرنے کا اعلان کیا گیا ہے جس پر تیزی سے عمل جاری ہے۔ اس سے پہلے بھی مسلم لیگ ن کی حکومت نے قومی ادارے (منافع بخش) غیر ملکی ملٹی نیشنلز اور ملکی سرمایہ داروں کو اونے پونے داموں فروخت کر دیے تھے ،قومی اداروں کی لوٹ سیل لگا دی گئی، غرض کہ نجکاری کے جو مقاصد بنائے گئے تھے وہ حاصل نہ ہوسکے۔

پی ٹی سی ایل، کے ای ایس سی کی نجکاری کے نتائج سب کے سامنے ہیں نجکاری کے نتیجے میں سب سے زیادہ نقصان روزگار کے شعبے کا ہوا ہے کئی لاکھ مزدور بے روز گار ہو گئے ہیں غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والوں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے، یہ تعداد 53 فیصد تک پہنچ گئی، بنیادی اشیا کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے، افراط زر حد سے زیادہ بڑھ گیا ہے ایک جمود طاری ہے عام لوگوں کی قوت خرید میں کمی ہوئی ہے امیر اور غریب کا فرق بڑھ گیا ہے، غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہو رہا ہے موجودہ مخدوش صورت حال موجودہ حکومت کی نجکاری اور اقتصادی پالیسیوں کی ناکامی ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔

اس تناظر میں دیکھا جائے تو ملک میں روزگار کے شعبے کا مستقبل ہمیں مخدوش نظر آرہا ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ 16 سالوں میں پاکستان میں صنعتی شعبے میں سرمایہ کاری نہیں ہوئی نہ ہی مینو فیکچرنگ میں اگر غیر ملکی سرمایہ کاریFDI ہوئی ہے تو صرف سروسز کے شعبے میں ہوئی ہے۔ جن میں ٹیلی کمیونیکشن، موبائل فون وغیرہ میں جس سے نہ روز گار کے شعبے کو فائدہ ہوا نہ ہی ملک کو کیونکہ سروسز کے شعبے میں نہ ملک کو ٹیکس حاصل ہوتا ہے بلکہ سرمایہ دار اپنا منافع کما کر بیرون ملک منتقل کر دیتے ہیں۔اس موقعے پر ہمیں یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم 1886ء کے محنت کشوں کی جدوجہد کو رائیگاں نہیں جانے دیں گے اور ان کے دیے ہوئے جدوجہد کے نظریے پر عمل کرتے ہوئے محنت کشوں کو متحد کر کے اپنے حقوق کی جدوجہد جاری رکھیں گے تاکہ محنت کشوں کو ملازمت کا تحفظ بہتر اجرت اوربہتر اوقات کار حاصل ہو سکیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں