ہماری معیشت اور سینیٹ کا بل

ہمیں کہا جا رہاہے ملک دیوالیہ نہیں ہونے دیں گے ہمارے عوام بڑے بہادر اور محنتی ہیں

ہماری حکومت نے بجٹ 2023-24 میں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے مشورے پر جو بجٹ اجلاس میں انکشافات کیے ہیں کہ یہ بجٹ عام عوام اور تنخواہ دار ملازمین اور پنشن حاصل کرنے والے عام عوام کے لیے ایک اچھا بجٹ ثابت ہوگا اور کم ازکم انکم ٹیکس ادا کرنا پڑے گا اور اشرافیہ حکمرانوں کو اپنی شاہانہ زندگی سے باہر ہو کر سادگی کی زندگی اپنانا ہوگی امید ہے۔

ہماری حکومت 30 جون تک آئی ایم ایف کی تمام شرائط مکمل کرلے گی اور ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیں گے، ہمیں غریب عوام اور خاص کر تنخواہ دار طبقے کو کچھ نہ کچھ ریلیف دیں گے، سو انھوں نے سرکاری ملازمین ایک نمبر اسکیل تا 16 نمبر اسکیل تک ملازمین کی تنخواہوں میں 35 فیصد اضافہ کردیا ہے جب کہ افسر شاہی اسکیل 17 تا 22 اسکیل کی تنخواہوں میں 30 فیصد اضافے کا بھی اعلان کردیا ہے جب کہ ریٹائرڈ اور بیوہ کی پنشن میں 17.50 فیصد اضافہ بھی کردیا ہے۔ ساتھ ہی وزیروں، سفیروں اور سپریم کورٹ سمیت ہائی کورٹ کے ججز کی بھی تنخواہیں بڑھا دی ہیں۔

ایک نہیں کئی ایک اخبارات میں خبریں آئی ہیں کہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے تمام ملازمین کی تنخواہوں اور الاؤنسز میں پہلے ہی اضافہ کا اعلان کیا تھا اور اب حکومت کی جانب سے مزید دوسری مرتبہ بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ اسی طرح قومی اسمبلی کے ارکان اور ملازمین سمیت صوبوں کے اراکین اسمبلی اور ملازمین کے اسمبلی الاؤنسز بھی بڑھا دیے گئے ہیں ۔ مرکزی حکومت کے اسلام آباد تمام ملازمین کی تنخواہیں اپ گریڈ کرکے ان کے تمام الاؤنسز بھی ڈبل کردیے گئے ہیں۔

خیر یہ تو اچھی بات ہے کہ ایک چپراسی ، معاون سمیت اسٹینوگرافر اور دیگر کلریکل عملہ اس سے خوش ہوگا اور کم ازکم اجرت بھی 32 ہزار مقرر کردی گئی ہے مگر کیا اس پرائیویٹ سیکٹر کے ملازمین کو بھی یہ تنخواہ اور مراعات مل سکیں گی؟

امید ہے کہ اس پر مکمل عملدرآمد ہوسکے گا اور ہمارے غریب عوام خوش ہوں گے۔مگر مجھ سمیت ملک بھر کے عوام سرکاری ملازمین ، محنت کش، ہاری اور کسان تو اس بات پر حیران اور پریشان ہیں کہ ملک کی معیشت بڑی خراب ہے خود حکمران طبقات اور اشرافیہ سمیت دیگر سرمایہ کار جاگیردار اور مل مالکان، بینکوں کے مالکان اور خاص محنت کار، قلم کار، صحافی، ٹی وی اور ریڈیو کے ملازمین حیران و پریشان ہیں کہ سینیٹ میں ایک انوکھا بل خود بہ خود بڑی آسانی سے اپنی مراعات اور تنخواہوں اور پنشن سمیت اپنے تمام خاندان کے لیے پورے سینیٹ کے ارکان نے خاموشی سے پاس کرا لیا۔

ماسوائے ایک جماعت اسلامی کے سینیٹر شاہد مشتاق نے مخالفت کی ہے باقی سب جو 104 اراکین سینیٹ ہیں نے خاموشی سے بل پاس کرا لیا ہے۔ مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ میں خود بھی پیپلز پارٹی کے بانی اراکین میں 25 پیسے کا ممبر تھا اور شہید ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ کام بھی کیا تھا، اس بل کو ہمارے ترقی پسند ساتھی اور مزدوروں کسانوں کے حقیقی رہنما پیپلز پارٹی کے سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی اور دوسرے سابق چیئرمین فاروق ایچ نائیک نے پیش کیا ہے۔

بڑا دکھ اور تکلیف ہوئی یہ ہمارے غریب عوام کے لیڈر ہیں اور اب بھی سینیٹر ہیں جب کہ موجودہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو شاید 30 سال پہلے کوئی بھی پاکستانی جانتا ہی نہیں تھا انھوں نے فوراً ہی بل منظور کرلیا اور قومی اسمبلی کی طرف بھیج دیا ہے اور اب اس کی ذرا تفصیلات بھی پڑھ لیں اور دیکھ لیں شاید ہمارے عوام اور حکمران اس کو دیکھ اور سن چکے ہوں گے۔ پھر بھی میں عرض کیے دیتا ہوں۔

تنخواہ اور دیگر مراعات کے علاوہ تمام سابق چیئرمین سینیٹ اور وائس چیئرمین کو 12 عدد ملازمین کا عملہ ، رہائش گاہ پر 6 ملازمین، سیکیورٹی گارڈ ہوں گے جب کہ سفر کے دوران پولیس، رینجرز، فرنٹیئر کور اور کانسٹیبلری کے ارکان ان کی فیملی کے ساتھ ہوں گے جب کہ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے دفتر کے اخراجات 6 ہزار کی بجائے 50 ہزار ہوں گے جب کہ دونوں چیئرمین یا ڈپٹی چیئرمین اپنی رہائش گاہ میں رہتے تھے تو ان کو ایک لاکھ روپیہ ماہانہ کرائے کے حق دار تھے اب ان کو بڑھا کر ڈھائی لاکھ روپے کردیا گیا ہے جب کہ یومیہ الاؤنس ساڑھے سات ہزار روپے تھا اب اس کو 10 ہزار کر دیا گیا ہے۔

اندرون ملک سفر کے لیے پی آئی اے کے علاوہ تمام ایئرلائنز کے ٹکٹ خریدے جا سکتے ہیں۔ ان دونوں چیئرمین کے لیے صوابدیدی فنڈز جوکہ 6 لاکھ روپے تھا اب 12 لاکھ کردیے گئے ہیں اور 3 سے بڑھا کر 6 لاکھ کر دیے گئے ہیں۔ جب کہ چیئرمین سینیٹ کے سرکاری رہائش گاہ کے فرنیچر کے لیے ایک مرتبہ کے لیے ایک لاکھ سے بڑھا کر 50 لاکھ کردیے گئے ہیں جب کہ سفر کے دوران صدر اور ڈپٹی ہیڈ آف اسٹیٹ یا نائب صدر کا پروٹوکول بھی دیا جائے گا۔

اسی طرح فلائنگ کلب یا چارٹرڈ سروس کا جہاز یا ہیلی کاپٹر بھی ملے گا اپنے ہمراہ ایک فرد بھی فری یا مفت میں سفر کرسکے گا اور فائیو اسٹار ہوٹل میں بھی رہ سکے گا۔ اس بل کی منظوری میں ہمارے لیڈر رضا ربانی پیش پیش تھے۔ اس بل کی پیشکش پر چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ 1975 کے بل کے پیش نظر رد و بدل کیا گیا ہے، یہ سہولتیں پہلے ہی سے دی جا رہی تھیں۔ موجودہ ترامیم سے قومی اسمبلی اور بجٹ پر کوئی اضافی بوجھ نہیں پڑے گا۔

کمال ہو گیا ہے؟ کہ عوام روٹی دال کو ترس رہے ہیں مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں اور اراکین سینیٹ اور قومی اسمبلی کے ممبران اپنی اپنی مراعات میں اضافہ کیے جا رہے ہیں۔ ہم کہاں اور کدھر جا رہے ہیں۔ ملک آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے اور ہمارے حکمران غیر ملکی دورے اور توشہ خانہ کے تحائف ہڑپ کر رہے ہیں غضب خدا کا عجب کرپشن کی غضب حکمرانی۔

حکمرانو! کچھ تو اپنے ملک اور عوام پر رحم کرو، کرپشن ختم کرو، ملک کو بھوک، غربت اور مہنگائی، بے روزگاری، بیماری اور خودکشیوں سے بچالو۔ ورنہ پھر جب عوام اٹھ کھڑے ہونگے تو پھر کوئی نہ ہوگا جو تمہیں بچا سکے گا۔

اگر اب بھی پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ، مولانا فضل الرحمن، نیشنل پارٹی کے عبدالمالک اور سندھ ، بلوچستان، جنوبی پنجاب اور کے پی کے، گلگت بلتستان اور کشمیر کے عوام ان حکمرانوں سے لوٹ کا مال واپس نہیں لیتے پھر اس ملک کے بھوکے اور ننگے عوام سڑکوں پر دمادم مست قلندر کا نعرہ لگاتے ہوئے کہیں ایسے انقلاب کی طرف نہ چل پڑیں کہ حکمرانوں، اشرافیہ، جاگیرداروں، رسہ گیروں کو عبرت کا نشان نہ بنا دیں۔ ہمیں کہا جا رہاہے ملک دیوالیہ نہیں ہونے دیں گے ہمارے عوام بڑے بہادر اور محنتی ہیں یہ سب مل کر اس بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری پر ہمت کرکے قابو پالیں گے اور ملک بہتر مستقبل کی طرف جائے گا۔

کاش ایسا ہی ہوجائے اور ہم مشکل حالات سے نکل جائیں۔ مگر مجھے اس موقع پر معروف ترقی پسند شاعر محترم فیض احمد فیض اور عوامی شاعر، حبیب جالب یاد آ رہے ہیں۔ پہلے ہم فیض احمد فیض کے چند اشعار پیش کرتے ہیں۔

ہم محنت کش جگ والوں سے جب اپنا حصہ مانگیں گے


اک کھیت نہیں اک دیس نہیں ہم ساری دنیا مانگیں گے

یہاں ساگر ساگر موتی ہے یہاں پربت پربت ہیرے ہیں

یہ سارا مال ہمارا ہے ہم سارا خزانہ مانگیں گے

یہ سیٹھ بیوپاری راجواڑے دس لاکھ تو ہم دس لاکھ کروڑ

یہ کتنے دن امریکا سے جینے کا سہارا مانگیں گے

جب صف سیدھی ہو جائے گی جب سب جھگڑے مٹ جائیں گے

ہم ہر ایک جھنڈے پر اک لال ستارہ مانگیں گے

اور اب آخر میں حبیب جالب کے اشعار، جو شاید آج بھی زندہ ہیں۔

وہی حالات ہیں فقیروں کے

دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے

ہر بلاول ہے دیس کا مقروض

پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے

سازشیں ہیں وہی خلاف عوام

مشورے ہیں وہی مشیروں کے

وہی اہل وفا کی صورت حال

وارے نیارے ہیں بے ضمیروں کے
Load Next Story