بائیڈن مودی سے وفا کی امید نہ رکھیں
اس سے خطے میں طاقت کا توازن ضرور خراب ہوگا مگر امریکا بہادر اس پاکستانی دلیل سے متفق نہیں ہے
مغربی ممالک کی اسلام دشمنی سب پر عیاں ہے مگر بھارت اور اسرائیل اسلام دشمنی میں مغربی ممالک سے بھی دو ہاتھ آگے نظر آتے ہیں۔
مغربی ممالک میں بھی مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک جاری ہے مگر اسرائیل اور بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ جو وحشیانہ برتاؤ برتا جا رہا ہے اس کی مثال ہٹلر کی یہود دشمنی سے بھی نہیں دی جاسکتی۔
ہٹلر نے یہودیوں کی نسل کشی ان کی مکاری، غداری اور سفاکی کی وجہ سے کی ہوگی مگر یہاں فلسطین میں مسلمانوں کے قتل عام کی کیا وجہ ہے اور اسی طرح بھارت میں مسلمانوں کا جینا کس جرم کی پاداش میں حرام کیا جا رہا ہے۔ گائے کی آڑ میں اب تک سیکڑوں مسلمانوں کو سر عام قتل کر دیا گیا ہے اور حکومت نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا ہے۔
امریکا میں گزشتہ دنوں نریندر مودی کا مثالی استقبال کیا گیا ہے۔ صدر بائیڈن نے ان کی آؤ بھگت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ امریکی کانگریس میں مودی کی تقریر پر اتنی تالیاں بجائی گئیں جتنی کبھی کسی مہمان صدر یا وزیر اعظم کے لیے نہیں بجائی گئی تھیں۔ حالانکہ امریکی حکومت نے ہی مودی پر امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کر رکھی تھی اور اس کی ٹھوس وجہ تھی کہ اس نے احمد آباد میں مسلمانوں کا بے دریغ قتل عام کروایا تھا۔
اس قتل عام میں کئی ہزار مسلمان مرد خواتین اور بچے مارے گئے تھے۔ اس سفاکانہ قتل عام کی وجہ سے اسے پوری دنیا گجرات کے قصائی کے نام سے یاد کرتی ہے۔ امریکی حکومت کی جانب سے مودی کا موجودہ والہانہ استقبال سمجھ سے بالاتر ہے کیوں کہ اس کا جرم ابھی بھی برقرار ہے۔ اس نے اپنے مسلم کش رویے کو ابھی بھی ترک نہیں کیا ہے بلکہ اس میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ اس کے دور حکومت میں مسلمانوں پر جو بیت رہی ہے وہ اپنی جگہ قابل توجہ ہے مگر عیسائیوں اور دلتوں کی حالت بھی نہ گفتہ بہ ہے۔
عیسائیوں کی بستیوں میں ہندو غنڈے آئے دن حملہ کرتے رہتے ہیں پھر چرچوں پر حملہ آور ہونا بھی ایک معمول بن چکا ہے کئی چرچوں کو آگ لگا دی گئی ہے۔ عیسائی مشنریز کو سرعام پیٹا جاتا ہے کہ وہ عیسائیت کو کیوں پھیلا رہی ہیں۔ مغربی ممالک اور خصوصاً امریکا مسلمانوں کو تو چھوڑو عیسائیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے باوجود بھی مودی کی آؤ بھگت میں مصروف ہیں تو اس سے پتا چلتا ہے کہ اپنا ہم مذہب ہونا بھی ان کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا وہ صرف اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لیے سرگرداں ہیں۔
نریندر مودی جیسے قاتل کو سر آنکھوں پر بٹھانے سے امریکا کی انسانی حقوق کے سلسلے میں ہر سال مختلف ممالک کو ان کے ہاں ہونے والی خلاف ورزیوں سے آگاہ کرنا اور انھیں اپنے رویے کو درست کرنے کی تلقین والی رپورٹس مذاق ہی بن کر رہ گئی ہیں، دراصل امریکی حکومت اس عمل کو بھی اپنے مفاد میں استعمال کر رہی ہے۔
جن ممالک سے اس کے مفادات وابستہ ہوتے ہیں انھیں انسانی حقوق کی پامالی سے آگاہ ضرور کیا جاتا ہے مگر کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا البتہ جن ممالک سے اس کے مفادات وابستہ نہیں ہوتے اور وہ انھیں ڈرانا چاہتے ہیں تو انھیں ان کے ہاں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر پابندیاں لگانے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں اور بعض دفعہ مختلف قسم کی پابندیاں لگا بھی دی جاتی ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان اکثر امریکی حکومت کے ہاتھوں کہنہ مشق بنتا رہتا ہے۔
یہاں تو نسلی تعصب ہے نہ اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے مگر اس کے باوجود بھی پاکستان کو نشانہ بنایا جاتا ہے جب کہ بھارت جہاں نسلی تعصب بھی ہے اور اقلیتوں کے ساتھ بھیانک سلوک روا رکھا جا رہا ہے مگر اس پر نہ تو کبھی کوئی وارننگ دی جاتی ہے اور نہ کوئی پابندی لگائی جاتی ہے۔ امریکا کی یہ دو رنگی پالیسی دراصل اسے لے ڈوبی ہے۔ آج دنیا میں اس کی کوئی ساکھ نہیں ہے۔ اسے انسانیت کا دوست کے بجائے انسانیت دشمن سمجھا جاتا ہے اور پھر امریکا نے انسانیت کے دشمن کا حقیقی کردار ادا بھی کیا ہے۔
امریکا نے پاکستان کو سوویت یونین کے خلاف خوب استعمال کیا اس کے بعد عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی استعمال کیا اور جب اپنا مفاد حاصل ہو گیا تو پاکستان کو اس کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔ عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا مگر یہ جنگ پاکستان کو بہت مہنگی پڑی۔ ہزاروں انسانوں کی جانیں گئیں اور ملک معاشی طور پر کنگال ہو گیا۔ آج ملک کی معاشی ابتری امریکی خدمت گزاری کی مرہون منت ہے۔
صدر جونیئر بش نے اسی وقت بھارت کو ایٹمی سپلائرز گروپ کا ممبر بنایا تھا جب کہ پاکستان کی درخواست پر اسے یہ سہولت دینے سے انکار کردیا گیا تھا، اس کے باوجود بھی پاکستان امریکی خدمت گزاری میں لگا رہا پھر بمبئی میں دہشت گردی کے واقعے کو پاکستان سے جوڑ دیا گیا۔ بھارت کے کہنے پر امریکی حکومت نے اس کا ذمے دار پاکستان کو قرار دیا تھا، جب کہ یہ حملہ خود بی جے پی کے غنڈوں نے کروایا تھا جس کی تصدیق خود یورپی محققین نے کی۔
اس وقت پاکستان امریکی امداد سے محروم خود اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش میں مصروف ہے صرف ایک چین ایسا ملک ہے جو پاکستان کا ایک سچا اور آزمودہ دوست ثابت ہوا ہے۔ وہ اس وقت بھی پاکستان کی حتی المقدور مدد کر رہا ہے۔ سی پیک کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں چین ہماری بھرپور مدد کر رہا ہے اس پروجیکٹ کے مکمل ہونے سے پاکستان کی کافی مشکلات دور ہو سکتی ہیں مگر چونکہ یہ چین کی مدد سے تیار ہو رہا ہے اس لیے مغربی ممالک کو اس پر تشویش ہے جوکہ محض چین دشمنی کا شاخسانہ ہے۔
جہاں تک بھارت کا تعلق ہے وہ اس وقت امریکا سے قربت اختیار کرنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے کیونکہ وہ مغربی ٹیکنالوجی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ نریندر مودی نے اپنے حالیہ دورہ امریکا میں یہ کامیابی ضرور حاصل کر لی ہے کہ ناکام تیجا جنگی جہاز جو بھارت کی اپنی پیداوار ہے اس کا انجن اب ایک امریکی کمپنی بھارت میں تیار کرے گی۔ اس کے علاوہ کچھ اور بھی اہم دفاعی سامان امریکا نے بھارت کو دینا منظور کر لیا ہے۔
اس سے خطے میں طاقت کا توازن ضرور خراب ہوگا مگر امریکا بہادر اس پاکستانی دلیل سے متفق نہیں ہے اس لیے کہ اس کے نزدیک خطے میں چین سے بھارت کو شدید خطرات لاحق ہیں وہ بھارت کو جو بھی جدید اسلحہ دے رہا ہے وہ چین کے خلاف استعمال ہوگا جب کہ یہ دلیل بالکل غلط ہے وہ 65 اور 71 کی جنگوں میں روسی اسلحے کے ساتھ امریکی اسلحہ بھی پاکستان کے خلاف استعمال کر چکا ہے۔
اس وقت بائیڈن چین کی دشمنی میں بھارت پر واری واری جا رہے ہیں مگر انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ بھارتی حکومتوں نے کبھی کسی کے ساتھ وفا نہیں کی ہے مودی روس کے اتنے قریب ہے کہ وہ وقت آنے پر روس کو ہی ترجیح دے گا اور چین سے جنگ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس صورتحال سے بائیڈن کو سوائے افسوس اور ندامت کے کچھ ہاتھ نہیں لگے گا۔
مغربی ممالک میں بھی مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک جاری ہے مگر اسرائیل اور بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ جو وحشیانہ برتاؤ برتا جا رہا ہے اس کی مثال ہٹلر کی یہود دشمنی سے بھی نہیں دی جاسکتی۔
ہٹلر نے یہودیوں کی نسل کشی ان کی مکاری، غداری اور سفاکی کی وجہ سے کی ہوگی مگر یہاں فلسطین میں مسلمانوں کے قتل عام کی کیا وجہ ہے اور اسی طرح بھارت میں مسلمانوں کا جینا کس جرم کی پاداش میں حرام کیا جا رہا ہے۔ گائے کی آڑ میں اب تک سیکڑوں مسلمانوں کو سر عام قتل کر دیا گیا ہے اور حکومت نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا ہے۔
امریکا میں گزشتہ دنوں نریندر مودی کا مثالی استقبال کیا گیا ہے۔ صدر بائیڈن نے ان کی آؤ بھگت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ امریکی کانگریس میں مودی کی تقریر پر اتنی تالیاں بجائی گئیں جتنی کبھی کسی مہمان صدر یا وزیر اعظم کے لیے نہیں بجائی گئی تھیں۔ حالانکہ امریکی حکومت نے ہی مودی پر امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کر رکھی تھی اور اس کی ٹھوس وجہ تھی کہ اس نے احمد آباد میں مسلمانوں کا بے دریغ قتل عام کروایا تھا۔
اس قتل عام میں کئی ہزار مسلمان مرد خواتین اور بچے مارے گئے تھے۔ اس سفاکانہ قتل عام کی وجہ سے اسے پوری دنیا گجرات کے قصائی کے نام سے یاد کرتی ہے۔ امریکی حکومت کی جانب سے مودی کا موجودہ والہانہ استقبال سمجھ سے بالاتر ہے کیوں کہ اس کا جرم ابھی بھی برقرار ہے۔ اس نے اپنے مسلم کش رویے کو ابھی بھی ترک نہیں کیا ہے بلکہ اس میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ اس کے دور حکومت میں مسلمانوں پر جو بیت رہی ہے وہ اپنی جگہ قابل توجہ ہے مگر عیسائیوں اور دلتوں کی حالت بھی نہ گفتہ بہ ہے۔
عیسائیوں کی بستیوں میں ہندو غنڈے آئے دن حملہ کرتے رہتے ہیں پھر چرچوں پر حملہ آور ہونا بھی ایک معمول بن چکا ہے کئی چرچوں کو آگ لگا دی گئی ہے۔ عیسائی مشنریز کو سرعام پیٹا جاتا ہے کہ وہ عیسائیت کو کیوں پھیلا رہی ہیں۔ مغربی ممالک اور خصوصاً امریکا مسلمانوں کو تو چھوڑو عیسائیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے باوجود بھی مودی کی آؤ بھگت میں مصروف ہیں تو اس سے پتا چلتا ہے کہ اپنا ہم مذہب ہونا بھی ان کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتا وہ صرف اپنے سیاسی مفادات کے حصول کے لیے سرگرداں ہیں۔
نریندر مودی جیسے قاتل کو سر آنکھوں پر بٹھانے سے امریکا کی انسانی حقوق کے سلسلے میں ہر سال مختلف ممالک کو ان کے ہاں ہونے والی خلاف ورزیوں سے آگاہ کرنا اور انھیں اپنے رویے کو درست کرنے کی تلقین والی رپورٹس مذاق ہی بن کر رہ گئی ہیں، دراصل امریکی حکومت اس عمل کو بھی اپنے مفاد میں استعمال کر رہی ہے۔
جن ممالک سے اس کے مفادات وابستہ ہوتے ہیں انھیں انسانی حقوق کی پامالی سے آگاہ ضرور کیا جاتا ہے مگر کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا البتہ جن ممالک سے اس کے مفادات وابستہ نہیں ہوتے اور وہ انھیں ڈرانا چاہتے ہیں تو انھیں ان کے ہاں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر پابندیاں لگانے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں اور بعض دفعہ مختلف قسم کی پابندیاں لگا بھی دی جاتی ہیں۔ اس سلسلے میں پاکستان اکثر امریکی حکومت کے ہاتھوں کہنہ مشق بنتا رہتا ہے۔
یہاں تو نسلی تعصب ہے نہ اقلیتوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے مگر اس کے باوجود بھی پاکستان کو نشانہ بنایا جاتا ہے جب کہ بھارت جہاں نسلی تعصب بھی ہے اور اقلیتوں کے ساتھ بھیانک سلوک روا رکھا جا رہا ہے مگر اس پر نہ تو کبھی کوئی وارننگ دی جاتی ہے اور نہ کوئی پابندی لگائی جاتی ہے۔ امریکا کی یہ دو رنگی پالیسی دراصل اسے لے ڈوبی ہے۔ آج دنیا میں اس کی کوئی ساکھ نہیں ہے۔ اسے انسانیت کا دوست کے بجائے انسانیت دشمن سمجھا جاتا ہے اور پھر امریکا نے انسانیت کے دشمن کا حقیقی کردار ادا بھی کیا ہے۔
امریکا نے پاکستان کو سوویت یونین کے خلاف خوب استعمال کیا اس کے بعد عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی استعمال کیا اور جب اپنا مفاد حاصل ہو گیا تو پاکستان کو اس کے حال پر چھوڑ دیا گیا۔ عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا مگر یہ جنگ پاکستان کو بہت مہنگی پڑی۔ ہزاروں انسانوں کی جانیں گئیں اور ملک معاشی طور پر کنگال ہو گیا۔ آج ملک کی معاشی ابتری امریکی خدمت گزاری کی مرہون منت ہے۔
صدر جونیئر بش نے اسی وقت بھارت کو ایٹمی سپلائرز گروپ کا ممبر بنایا تھا جب کہ پاکستان کی درخواست پر اسے یہ سہولت دینے سے انکار کردیا گیا تھا، اس کے باوجود بھی پاکستان امریکی خدمت گزاری میں لگا رہا پھر بمبئی میں دہشت گردی کے واقعے کو پاکستان سے جوڑ دیا گیا۔ بھارت کے کہنے پر امریکی حکومت نے اس کا ذمے دار پاکستان کو قرار دیا تھا، جب کہ یہ حملہ خود بی جے پی کے غنڈوں نے کروایا تھا جس کی تصدیق خود یورپی محققین نے کی۔
اس وقت پاکستان امریکی امداد سے محروم خود اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش میں مصروف ہے صرف ایک چین ایسا ملک ہے جو پاکستان کا ایک سچا اور آزمودہ دوست ثابت ہوا ہے۔ وہ اس وقت بھی پاکستان کی حتی المقدور مدد کر رہا ہے۔ سی پیک کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں چین ہماری بھرپور مدد کر رہا ہے اس پروجیکٹ کے مکمل ہونے سے پاکستان کی کافی مشکلات دور ہو سکتی ہیں مگر چونکہ یہ چین کی مدد سے تیار ہو رہا ہے اس لیے مغربی ممالک کو اس پر تشویش ہے جوکہ محض چین دشمنی کا شاخسانہ ہے۔
جہاں تک بھارت کا تعلق ہے وہ اس وقت امریکا سے قربت اختیار کرنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے کیونکہ وہ مغربی ٹیکنالوجی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ نریندر مودی نے اپنے حالیہ دورہ امریکا میں یہ کامیابی ضرور حاصل کر لی ہے کہ ناکام تیجا جنگی جہاز جو بھارت کی اپنی پیداوار ہے اس کا انجن اب ایک امریکی کمپنی بھارت میں تیار کرے گی۔ اس کے علاوہ کچھ اور بھی اہم دفاعی سامان امریکا نے بھارت کو دینا منظور کر لیا ہے۔
اس سے خطے میں طاقت کا توازن ضرور خراب ہوگا مگر امریکا بہادر اس پاکستانی دلیل سے متفق نہیں ہے اس لیے کہ اس کے نزدیک خطے میں چین سے بھارت کو شدید خطرات لاحق ہیں وہ بھارت کو جو بھی جدید اسلحہ دے رہا ہے وہ چین کے خلاف استعمال ہوگا جب کہ یہ دلیل بالکل غلط ہے وہ 65 اور 71 کی جنگوں میں روسی اسلحے کے ساتھ امریکی اسلحہ بھی پاکستان کے خلاف استعمال کر چکا ہے۔
اس وقت بائیڈن چین کی دشمنی میں بھارت پر واری واری جا رہے ہیں مگر انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ بھارتی حکومتوں نے کبھی کسی کے ساتھ وفا نہیں کی ہے مودی روس کے اتنے قریب ہے کہ وہ وقت آنے پر روس کو ہی ترجیح دے گا اور چین سے جنگ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس صورتحال سے بائیڈن کو سوائے افسوس اور ندامت کے کچھ ہاتھ نہیں لگے گا۔