مسئلہ معاشی نہیں سیاسی ہے
ملک میں ہر شخص نے اپنے اپنے لیول پرکرپشن کا دربار سجا رکھا ہے،کیونکہ کوئی پوچھنے والا نہیں
وطن عزیز کی زبوں حالی کا مسئلہ معاشی نہیں، سیاسی ہے کیونکہ جتنی بھی سیاسی جماعتیں یہاں موجود ہیں، ان میں سے کوئی بھی پارٹی وطن کی خوشحالی وترقی سے کہیں زیادہ اپنی خوشحالی چاہتی ہے، سیاستدانوں نے ہماری پاک سر زمین کو اپنی موروثی جائیداد سمجھ لیا ہے۔
سانحہ نو مئی کے نتیجے میں جس انتشار اور بحرانی صورتحال کا سامنا ملک اور اس میں بسنے والوں کوکرنا پڑا، اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے اور بحیثیت عوام ہم اپنے حکمرانوں سے اتنی گزارش کریں گے کہ ملک و قوم کو ایسی مشکل میں نہ ڈالا جائے۔ پی ٹی آئی چیئرمین سے ایک مودبانہ درخواست ہے کہ بڑے بڑے لیڈرز نے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کی ہیں، اگر آپ خود کو لیڈر سمجھتے ہیں تو ایسی باتوں کے لیے تیار رہیں نہ کہ اپنے ورکرز کو تیار رکھیں کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دو۔
ملک میں ہر شخص نے اپنے اپنے لیول پرکرپشن کا دربار سجا رکھا ہے،کیونکہ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ پھل بیچنے والے مہنگے داموں پھل فروخت کر رہے ہیں، دودھ اورگوشت من مانی قیمتوں پر فروخت ہو رہا ہے، مقامی انتظامیہ نے اپنی آنکھیں بند کر لی ہیں کیونکہ حصہ بقدر جثہ مل جاتا ہے، غرض کہ ہر شعبے میں کرپشن کا زبردست دور دورہ ہے۔
پچھلے دنوں راقم ٹیکس جمع کروانے گیا تو جتنی مرضی اتنا ٹیکس لینے کے بعد جس میں زیادہ تر سابقہ پی ٹی آئی حکومت کی مہربانی ہے غریب عوام میں انھوں نے فائلر، نان فائلرکی تفریق پیدا کر دی، اس کے علاوہ دیگر ٹیکسوں کی بہتات ہے، بہرحال ٹوٹل رقم جب میں نے دی تو جو پیسے کاؤنٹر والے نے مجھے واپس کیے اس میں انھوں نے اپنے چائے، پانی کے بھی پیسے لے لیے جوکہ حساب میں شامل نہیں تھے۔
وہ ایک، ایک آدمی سے اپنی چائے پانی کا حساب لے رہے ہیں توکیا ان کام کرنے والوں کی تنخواہیں مقرر نہیں کیونکہ وہ خود پنکھوں اور اے سی میں بیٹھ کر عوام کے کام تو ایسے کررہے ہیں، جیسے احسان، کچھ پوچھو تو ایسا جواب ملتا ہے کہ کیا کہنے یہ تو سرکاری محکموں کی حالت زار ہے، جب کہ یہ محکمے عوام کے ٹیکسوں پر ہی چل رہے ہیں اور ان محکموں کے اہلکاروں نے عوام کی یہ درگت بنا دی ہے۔
بہرحال ایک صاحب جو ہم سے غالبا آگے کھڑے تھے واپس آئے اورکاؤنٹر والے سے کہنے لگے '' یہ آپ نے ٹیکس میرے نام پر بنا دیا ہے جب کہ یہ گاڑی اپنی زوجہ کے نام پر میں نے منتقل کردی ہے'' تو ان سے کہا گیا فلاں کمرے میں جاؤ، وہ وہاں گئے پھر آئے کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ اس رسید کو کینسل کرو توکاؤنٹر والے نے کہا کہ آپ دوسرے کمرے میں جاؤ، وہ وہاں گئے پھر واپس آئے کہ وہ کمرے والے کہہ رہے ہیں جس کاؤنٹر سے بنوایا وہ ہی کینسل کرے گا، انھی چکروں میں عوام گن چکر بن گئے ہیں اور پھر وہ صاحب کاؤنٹر پر نہ آئے اور یوں کاؤنٹر والے نے سیاسی انداز میں اپنے ہونے پرگریہ کرنے کے لیے چلتا کر دیا۔
حال ہی میں میٹرک کے امتحان بحسن وخوبی سے اپنے انجام کو پہنچے، اوہ معذرت اختتام کو پہنچے ویسے انجام ہی ٹھیک ہے کیونکہ جس طرح بغیر پڑھے نقل کے آسرے پر یہ امتحان ہوئے، قوم کے مستقبل کو دن میں تارے نظر آگئے، پیسے کی مثال جتنا گڑ ڈالو اتنا میٹھا ہوگا جیسی ہوگئی۔
ہر جگہ رشوت کا بازارگرم اور یہاں مہنگائی سے مجبور عوام کا زندہ رہنا مشکل ہوگیا مگر مرنا تو اس سے بھی زیادہ مشکل ڈاکٹر جوکل کے مسیحا تھے بغیر پیسے کے مریض کو ہاتھ تک نہیں لگاتے اور پیسہ لیکر علاج نہیں کر پاتے، دفنانے کے لیے قبرستان جاؤ تو قبر حاصل کرنے کے ریٹ، پکی کروانے کے ریٹ، ناقابل یقین حد تک آسمانوں سے باتیں کرتے ہیں۔ بقول شاعر:
اب تو گھبرا کر یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے
مر کر بھی چین نہ پایا توکدھر جائیں گے
2018 سے جوگیس کا بحران پیدا ہوا، اس سے قبل کراچی میں یہ مسئلہ نہ ہونے کے برابر تھا مگر اب تو جانے کا نام ہی نہیں لے رہا، جیسا کہ کے الیکٹرک سے عوام بے زار آچکے۔ ہر حکومت کہتی ہے کہ ہم عوام دوست بجٹ لے کر آئے ہیں، مگر بجٹ ہمیشہ عوام دشمن ہی نکلتا ہے وطن عزیز، ان ملکوں کی فہرست میں صف اول پر ہے کہ جس کا ہر حکمران اس بدنصیب ملک سے زیادہ امیر ہے جب کہ وہ تمام حکمران آج جو کچھ بھی ہیں ان کا جو بھی جیسا بھی کام ہے لیکن ان کی شناخت اسی ملک سے ہے۔
شعبہ تعلیم کی جو دھجیاں اڑ رہی ہیں وہ ملکی زبوں حالی کا بہت بڑا المیہ ہے جس کے بغیر وطن عزیز کی پسماندگی کبھی دور نہیں ہوسکے گی، چونکہ اس تعلیم میں تربیت کی قرار واقعی کمی ہے جس کے بغیر تعلیم ہمیشہ ادھوری ہی رہے گی اور یہی اخلاقی گراؤٹ کبھی کسی قوم کو سر اٹھا کر نظر سے نظر ملا کر قدم سے قدم ملا کر چلنے نہیں دیتی۔ اس ملک کے حکمران یہ پرچار کرتے پھرتے ہیں کہ عوام ٹیکس چور ہیں جب کہ اس بد نصیب ملک کا بچہ بچہ بھی ٹیکس دیتا ہے، موبائل پر، پٹرول پر بس کے سفر پر، بجلی پر،گیس پر،کھانے پینے پر دواؤں پر الغرض ہر شے پر ٹیکس دیتا ہے، بیروزگار بھی ٹیکس دیتا ہے جب کہ اسے مغربی ممالک کی طرح کوئی بیروزگاری الاؤنس نہیں ملتا۔
اس ملک کے امراء سیاستدان حکمران جاگیردار کتنا ٹیکس ادا کر رہے ہیں؟ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اس کی زرعی زمینوں سے کتنی آمدنی ہوسکتی ہے،گیس ہمارے ملک میں دریافت ہوئی اورآج اس کی اتنی مصنوعی قلت۔ اس لیے ہم بجا طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ اصل مسئلہ حکومتی اخراجات کا ہی ہے جو کسی طور اولین قیادت کے بعد کبھی قابو میں آیا ہی نہیں، جس کا ملبہ عوام پر گرتا ہے اور الزام آئی ایم ایف پر۔ قابل وذہین نوجوانوں کے عہدوں پر نالائق اشرافیہ براجمان ہے اور ہمارے عوام دوست بجٹ میں مڈل کلاس کے لیے صحت کے نام پر اللہ الشافی، تعلیم کے لیے رب زدنی علما جب کہ رزق کے لیے واللہ خیرالرازقین کے وظیفے مختص ہیں۔
ہمارے ملک میں انکم سپورٹ پروگراموں میں دی جانے والی قلیل رقم کی بجائے ان سے روزگار مہیا کرنے کے اسباب بنانے چاہئیں، قوم کو بھکاری بنانے کی بجائے عزت نفس سے کمانا سکھایا جانا چاہیے۔ خدارا اپنے ملک پر رحم کھائیں، اس میں بسنے والی خلق خدا کو بھوک پیاس سے تڑپتے ہوئے مرنے پر مجبور نہ کرو۔
ایک دوسرے سے بڑھ کر خلق خدا کے لیے بھلائی کر کے نیکیاں کمائیں بلکہ مادہ پرست چیزوں کے لیے کہ اس کی شان اتنی کیوں ہے، اس کے پاس اتنا بینک بیلنس، گاڑی، بنگلہ کیوں ہے ہمارے پاس اس سے کم کیونکر ہے، ہرکوئی پریشانی کی تلاش میں ہے خوشی بیچ کر۔ یقین کیجیے کہ ایک اچھے ذمے دار باضمیر شہری بننے کا ہنر اچھی تعلیم و تربیت میں پنہاں ہے، ایک وقت تھا جب لوگ کہتے تھے کہ ہمارا پڑوس کتنا اچھا ہے، ان کے گھرکا ہر بچہ سلام کرتا ہے، ان کے گھر میں کتابیں ہی کتابیں ہیں، ان کا گھرانہ تعلیم و تربیت سے مزین ہے، جس کی تربیت اچھی اس کی تعلیم اچھی جس کی زندگی اچھی، اس کی عاقبت اچھی جس کی قبر اچھی، اس کا حشر اچھا۔ کاش ہم انھی خطوط پر اپنی زندگی کی راہوں کا تعین کرسکیں کہ ہمارا مسئلہ معاشی نہیں، سیاسی ہے۔
سانحہ نو مئی کے نتیجے میں جس انتشار اور بحرانی صورتحال کا سامنا ملک اور اس میں بسنے والوں کوکرنا پڑا، اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے اور بحیثیت عوام ہم اپنے حکمرانوں سے اتنی گزارش کریں گے کہ ملک و قوم کو ایسی مشکل میں نہ ڈالا جائے۔ پی ٹی آئی چیئرمین سے ایک مودبانہ درخواست ہے کہ بڑے بڑے لیڈرز نے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کی ہیں، اگر آپ خود کو لیڈر سمجھتے ہیں تو ایسی باتوں کے لیے تیار رہیں نہ کہ اپنے ورکرز کو تیار رکھیں کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دو۔
ملک میں ہر شخص نے اپنے اپنے لیول پرکرپشن کا دربار سجا رکھا ہے،کیونکہ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ پھل بیچنے والے مہنگے داموں پھل فروخت کر رہے ہیں، دودھ اورگوشت من مانی قیمتوں پر فروخت ہو رہا ہے، مقامی انتظامیہ نے اپنی آنکھیں بند کر لی ہیں کیونکہ حصہ بقدر جثہ مل جاتا ہے، غرض کہ ہر شعبے میں کرپشن کا زبردست دور دورہ ہے۔
پچھلے دنوں راقم ٹیکس جمع کروانے گیا تو جتنی مرضی اتنا ٹیکس لینے کے بعد جس میں زیادہ تر سابقہ پی ٹی آئی حکومت کی مہربانی ہے غریب عوام میں انھوں نے فائلر، نان فائلرکی تفریق پیدا کر دی، اس کے علاوہ دیگر ٹیکسوں کی بہتات ہے، بہرحال ٹوٹل رقم جب میں نے دی تو جو پیسے کاؤنٹر والے نے مجھے واپس کیے اس میں انھوں نے اپنے چائے، پانی کے بھی پیسے لے لیے جوکہ حساب میں شامل نہیں تھے۔
وہ ایک، ایک آدمی سے اپنی چائے پانی کا حساب لے رہے ہیں توکیا ان کام کرنے والوں کی تنخواہیں مقرر نہیں کیونکہ وہ خود پنکھوں اور اے سی میں بیٹھ کر عوام کے کام تو ایسے کررہے ہیں، جیسے احسان، کچھ پوچھو تو ایسا جواب ملتا ہے کہ کیا کہنے یہ تو سرکاری محکموں کی حالت زار ہے، جب کہ یہ محکمے عوام کے ٹیکسوں پر ہی چل رہے ہیں اور ان محکموں کے اہلکاروں نے عوام کی یہ درگت بنا دی ہے۔
بہرحال ایک صاحب جو ہم سے غالبا آگے کھڑے تھے واپس آئے اورکاؤنٹر والے سے کہنے لگے '' یہ آپ نے ٹیکس میرے نام پر بنا دیا ہے جب کہ یہ گاڑی اپنی زوجہ کے نام پر میں نے منتقل کردی ہے'' تو ان سے کہا گیا فلاں کمرے میں جاؤ، وہ وہاں گئے پھر آئے کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ اس رسید کو کینسل کرو توکاؤنٹر والے نے کہا کہ آپ دوسرے کمرے میں جاؤ، وہ وہاں گئے پھر واپس آئے کہ وہ کمرے والے کہہ رہے ہیں جس کاؤنٹر سے بنوایا وہ ہی کینسل کرے گا، انھی چکروں میں عوام گن چکر بن گئے ہیں اور پھر وہ صاحب کاؤنٹر پر نہ آئے اور یوں کاؤنٹر والے نے سیاسی انداز میں اپنے ہونے پرگریہ کرنے کے لیے چلتا کر دیا۔
حال ہی میں میٹرک کے امتحان بحسن وخوبی سے اپنے انجام کو پہنچے، اوہ معذرت اختتام کو پہنچے ویسے انجام ہی ٹھیک ہے کیونکہ جس طرح بغیر پڑھے نقل کے آسرے پر یہ امتحان ہوئے، قوم کے مستقبل کو دن میں تارے نظر آگئے، پیسے کی مثال جتنا گڑ ڈالو اتنا میٹھا ہوگا جیسی ہوگئی۔
ہر جگہ رشوت کا بازارگرم اور یہاں مہنگائی سے مجبور عوام کا زندہ رہنا مشکل ہوگیا مگر مرنا تو اس سے بھی زیادہ مشکل ڈاکٹر جوکل کے مسیحا تھے بغیر پیسے کے مریض کو ہاتھ تک نہیں لگاتے اور پیسہ لیکر علاج نہیں کر پاتے، دفنانے کے لیے قبرستان جاؤ تو قبر حاصل کرنے کے ریٹ، پکی کروانے کے ریٹ، ناقابل یقین حد تک آسمانوں سے باتیں کرتے ہیں۔ بقول شاعر:
اب تو گھبرا کر یہ کہتے ہیں کہ مرجائیں گے
مر کر بھی چین نہ پایا توکدھر جائیں گے
2018 سے جوگیس کا بحران پیدا ہوا، اس سے قبل کراچی میں یہ مسئلہ نہ ہونے کے برابر تھا مگر اب تو جانے کا نام ہی نہیں لے رہا، جیسا کہ کے الیکٹرک سے عوام بے زار آچکے۔ ہر حکومت کہتی ہے کہ ہم عوام دوست بجٹ لے کر آئے ہیں، مگر بجٹ ہمیشہ عوام دشمن ہی نکلتا ہے وطن عزیز، ان ملکوں کی فہرست میں صف اول پر ہے کہ جس کا ہر حکمران اس بدنصیب ملک سے زیادہ امیر ہے جب کہ وہ تمام حکمران آج جو کچھ بھی ہیں ان کا جو بھی جیسا بھی کام ہے لیکن ان کی شناخت اسی ملک سے ہے۔
شعبہ تعلیم کی جو دھجیاں اڑ رہی ہیں وہ ملکی زبوں حالی کا بہت بڑا المیہ ہے جس کے بغیر وطن عزیز کی پسماندگی کبھی دور نہیں ہوسکے گی، چونکہ اس تعلیم میں تربیت کی قرار واقعی کمی ہے جس کے بغیر تعلیم ہمیشہ ادھوری ہی رہے گی اور یہی اخلاقی گراؤٹ کبھی کسی قوم کو سر اٹھا کر نظر سے نظر ملا کر قدم سے قدم ملا کر چلنے نہیں دیتی۔ اس ملک کے حکمران یہ پرچار کرتے پھرتے ہیں کہ عوام ٹیکس چور ہیں جب کہ اس بد نصیب ملک کا بچہ بچہ بھی ٹیکس دیتا ہے، موبائل پر، پٹرول پر بس کے سفر پر، بجلی پر،گیس پر،کھانے پینے پر دواؤں پر الغرض ہر شے پر ٹیکس دیتا ہے، بیروزگار بھی ٹیکس دیتا ہے جب کہ اسے مغربی ممالک کی طرح کوئی بیروزگاری الاؤنس نہیں ملتا۔
اس ملک کے امراء سیاستدان حکمران جاگیردار کتنا ٹیکس ادا کر رہے ہیں؟ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اس کی زرعی زمینوں سے کتنی آمدنی ہوسکتی ہے،گیس ہمارے ملک میں دریافت ہوئی اورآج اس کی اتنی مصنوعی قلت۔ اس لیے ہم بجا طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ اصل مسئلہ حکومتی اخراجات کا ہی ہے جو کسی طور اولین قیادت کے بعد کبھی قابو میں آیا ہی نہیں، جس کا ملبہ عوام پر گرتا ہے اور الزام آئی ایم ایف پر۔ قابل وذہین نوجوانوں کے عہدوں پر نالائق اشرافیہ براجمان ہے اور ہمارے عوام دوست بجٹ میں مڈل کلاس کے لیے صحت کے نام پر اللہ الشافی، تعلیم کے لیے رب زدنی علما جب کہ رزق کے لیے واللہ خیرالرازقین کے وظیفے مختص ہیں۔
ہمارے ملک میں انکم سپورٹ پروگراموں میں دی جانے والی قلیل رقم کی بجائے ان سے روزگار مہیا کرنے کے اسباب بنانے چاہئیں، قوم کو بھکاری بنانے کی بجائے عزت نفس سے کمانا سکھایا جانا چاہیے۔ خدارا اپنے ملک پر رحم کھائیں، اس میں بسنے والی خلق خدا کو بھوک پیاس سے تڑپتے ہوئے مرنے پر مجبور نہ کرو۔
ایک دوسرے سے بڑھ کر خلق خدا کے لیے بھلائی کر کے نیکیاں کمائیں بلکہ مادہ پرست چیزوں کے لیے کہ اس کی شان اتنی کیوں ہے، اس کے پاس اتنا بینک بیلنس، گاڑی، بنگلہ کیوں ہے ہمارے پاس اس سے کم کیونکر ہے، ہرکوئی پریشانی کی تلاش میں ہے خوشی بیچ کر۔ یقین کیجیے کہ ایک اچھے ذمے دار باضمیر شہری بننے کا ہنر اچھی تعلیم و تربیت میں پنہاں ہے، ایک وقت تھا جب لوگ کہتے تھے کہ ہمارا پڑوس کتنا اچھا ہے، ان کے گھرکا ہر بچہ سلام کرتا ہے، ان کے گھر میں کتابیں ہی کتابیں ہیں، ان کا گھرانہ تعلیم و تربیت سے مزین ہے، جس کی تربیت اچھی اس کی تعلیم اچھی جس کی زندگی اچھی، اس کی عاقبت اچھی جس کی قبر اچھی، اس کا حشر اچھا۔ کاش ہم انھی خطوط پر اپنی زندگی کی راہوں کا تعین کرسکیں کہ ہمارا مسئلہ معاشی نہیں، سیاسی ہے۔