’’ تلمیحاتِ راز‘‘ پر ایک نظر
ان کی شاعری میں سچائی اور کھرا پن پایا جاتا ہے، وہ قادرالکلام شاعر ہیں، ان کو تمام اصنافِ سخن پر قدرت حاصل ہے
'' تلمیحاتِ راز '' کا پیش لفظ شگفتہ خورشید نے لکھا ہے، فہم و فراست کے رنگوں سے مزین ان کی تحریر دل کو چھوتی ہے۔ وہ رقم طراز ہیں۔
''ان کی شاعری میں سچائی اور کھرا پن پایا جاتا ہے، وہ قادرالکلام شاعر ہیں، ان کو تمام اصنافِ سخن پر قدرت حاصل ہے، ان کی شاعری میں تنوع، فکر کی گہرائی پائی جاتی ہے، مشاہدے کی وسعت، ہمہ گیریت، ذات کا شعور اور تجربے کی تازگی، زمینی وابستگی، جدید و قدیم حسین امتزاج رفیع الدین راز کو مستند شاعروں کی صف میں کھڑا کر دیتا ہے۔''
شگفتہ خورشید نے صنفِ تلمیح کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ '' یہ ایک ایسی صنف ہے جس میں تشبیہ، استعارہ، کنایہ کی تمام خصوصیات بھی جمع ہو جاتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ تمام قدیم و جدید شعرا نے تلمیح کو اپنی شاعری میں استعمال کرکے چند الفاظ میں پوری کہانی بیان کر دی ہے، شاعری کی جان ایجاز و اختصار ہے، یہ تفصیل کی متحمل نہیں ہو سکتی، صنعت تلمیح میں یہ خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہیں، رفیع الدین رازکی شاعری میں تلمیحات کا وافر ذخیرہ موجود ہے۔''
حرفِ دعا ہے خیر ہی پڑھتا رہے گا تو
میں مر رہا ہوں میرے مسیحا دوا تو دے
راز صاحب نے کس قدر اچھوتے انداز میں حالِ دل بیان کیا ہے۔ یہ اندازِ تخاطب دل کش بھی ہے اور معنی خیز بھی۔ رفیع الدین راز کی شاعری کا اجمالی جائزہ لیتے ہوئے شفیق الرحمن الٰہ آبادی نے شاعرکی حیات اور خدمات پر اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کیا ہے، راز صاحب کا خاندانی نام مرزا رفیع الدین بیگ ہے وہ 21 اپریل 1938 بہ مقام بیگو سرائے صوبہ بہار ہندوستان میں پیدا ہوئے، ان کا تعلق مغلیہ خاندان سے ہے اردو زبان ان کا اوڑھنا بچھونا رہی ہے، شفیق الرحمن الٰہ آبادی صاحب نے راز کے والد کے غیر ذمے دارانہ رویے اور راز صاحب کی ان پریشانیوں اور معاشی دکھوں کا ذکر کیا ہے جن کی وجہ سے ان کا تعلیمی سلسلہ ٹوٹ گیا، ان کے والد صاحب کاروبار کے سلسلے میں دربھنگہ چھوڑ کرکلکتہ چلے گئے اور اپنے اہل خانہ کو ان کی حالت پر چھوڑ دیا، ان حالات میں انھوں نے انھیں بس کنڈیکٹر اور ڈرائیور بنا دیا۔ راز صاحب کی حالت زار کا نقشہ ان کے ایک شعر میں نمایاں ہو گیا ہے۔
کسی سے پوچھتے کیا ہو جبینوں پر نظر ڈالو
لکیریں خود کہیں گی کس نے کتنی خاک چھانی ہے
''رفیع الدین راز کی شاعری میں تلمیحات'' اپنے مضمون کے حوالے سے شفیق الرحمن نے بڑی عرق ریزی سے تحریر کو قابل رشک بنا دیا ہے اور رفیع الدین راز کی تلمیحات کا ناقدانہ جائزہ پیش کیا ہے اور اسلامی واقعات اور اللہ کے برگزیدہ پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت ہارون علیہ السلام اور دوسرے کئی موضوعات پر مختصر اور دل کش انداز میں لکھا ہے اسی تاریخ کے تناظر میں چند تلمیحات نذر قارئین۔
یہ خوئے بت شکن اس میں نہ حائل بت گری یہ ہے
یہ دل کیوں درمیان فکر ابراہیم و آزر ہے
ردائے مہر ہے ضیائے طور ہے
محبت وصف میں سراپا نور ہے
زندہ رہنے کے لیے زہر پیا کرتے ہیں
مثلِ سقراط بھی کچھ لوگ جیا کرتے ہیں
سرِ ساحل جو ٹھہرا ہے قبیلہ ہے وہ وہ موسیٰ کا
یہ دریا جانتا ہے آج کیا لکھنا ہے موجوں پر
مصنف کی کاوش اور راز صاحب سے محبت اور ان کے شعر و سخن کی قدر شناسی نے ''تلمیحاتِ راز'' کو دل کش اور اسلامی و فکری احساس و تعلیمات سے جگ مگ، جگ مگ کردیا ہے۔ایک بڑی اہم کتاب ''رفیع الدین راز میری نظر میں'' میرے ہاتھ میں آگئی ہے۔ مذکورہ کتاب کے تجزیہ نگار اور ناقد اس دور کے ممتاز شاعر اور محقق ہیں، حال ہی میں وہ دارالفنا سے دارالبقا کی سمت کوچ کرگئے ہیں۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ (آمین) ادب کی جس بڑی ہستی کا میں ذکر کر رہی ہوں ان کا نام گرامی محسن اعظم محسن ملیح آبادی ہے۔
ناشر و مدیر ''رنگ ادب'' شاعر علی شاعر نے ان کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے کہ محسن اعظم ملیح آبادی خیام العصر اور کبیر دوراں کے لقب سے مشہور ہیں۔ رفیع الدین راز وہ واحد شاعر ہیں جن پر محسن اعظم صاحب نے سب سے زیادہ تنقیدی مضامین اور مقدمے تحریر کیے ہیں۔ یہ کتاب راز صاحب کے لیے فن کی گواہی اور سند اعزاز بھی ہے۔ شاعر و ناقد شاعر علی شاعر، راز صاحب کی دوہا نگاری پر رقم طراز ہیں۔ '' انھوں نے ایجاز و اختصار کو اپنے دوہوں میں برتا ہے، راز صاحب کے دوہے تقلید کی ڈگر سے ہٹے ہوئے ہیں۔ وہ دوہوں میں بھی جدت کے خواہاں ہیں اس کی شہادت میں ان کے دوہوں کو پیش کرتا ہوں:
سب کچھ ممکن ہے یہاں، کر لو بھیا صبر
بنتی ہے اس عہد میں قبروں پر قبر
دنیا کا دستور ہے، جو سوئے سو کھوئے
لڈو، لڈو بول کے، منہ کب میٹھا ہوئے
کتاب میں چند مضامین کے علاوہ تقریباً ساٹھ غزلیات بھی شامل ہیں، غزلیات پر تبصرہ کرتے ہوئے محسن اعظم محسن ملیح آبادی نے لکھا ہے۔ رفیع الدین رازکی شاعرانہ عظمت کا حوالہ غزل ہے وہ غزل کے ثقہ شعرا کے شانے سے شانہ ملائے کھڑے ہیں۔ راز صاحب کی غزلیات سے چند اشعار۔
مہ و خورشید و اختر لکھ رہا ہوں
ترے چہرے کا منظر لکھ رہا ہوں
بہت تذلیل آنکھوں کی ہوئی ہے
سو اب ہر غم کو اندر لکھ رہا ہوں
سرابوں کا بھرم رکھنے کی خاطر
میں صحرا کو سمندر لکھ رہا ہوں
مسلسل دھوپ میں ہے رقص اپنا
کہ بچوں کا مقدر لکھ رہا ہوں
میں اب لگتا ہوں خود کو پورے قد کا
مگر یہ بات جھک کر لکھ رہا ہوں
...٭...
نفس کو آنچ پر اور وہ بھی عمر بھر رکھنا
بڑا محال ہے ہستی کو معتبر رکھنا
درونِ ذات ہیں شیشوں کی بستیاں آباد
بہت سنبھال کے اے راز یہ نگر رکھنا
...٭...
اس دھوپ میں ہوتا رہوں تحلیل کہاں تک
اے وقت ترے حکم کی تعمیل کہاں تک
ہر آن نیا حرف، نئے لوگ، نئی بزم
آخر کوئی خود کو کرے تبدیل کہاں تک
جناب راز صاحب کی شاعری کے پہلوؤں اور اس کے محاسن کو نقادوں اور ادب کے طالب علموں نے بصیرت اور فکر کی گہرائی کے ساتھ اجاگر کیا ہے جو قابل تحسین ہے اس کے ساتھ ان کے نثر پاروں کا بھی جائزہ لینے کے لیے راشد خان نے ایم فل کیا اور رفیع الدین رازکی انشائیہ نگاری کے اعتبار سے تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے۔
راشد خان نے نگران ڈاکٹر نذر عابد صاحب کی نگرانی میں اپنے مقالے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا، شعبہ اردو ہزارہ یونیورسٹی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں کے قابل صد احترام اساتذہ اپنے طالب علموں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے ان سے علمی و ادبی تعاون کرتے ہیں، راشد خان کے مقالے کو بھی شعبہ اردو ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ سے قبولیت کی سند حاصل ہوئی ہے۔
راشد خان کا دیباچہ پڑھنے کے بعد اس بات سے آگاہی ہوتی ہے کہ رفیع الدین راز صاحب عہد موجود کے اہم انشائیہ نگار ہیں اور انشائیوں کے دو مجموعے بعنوانات ''سقراط سے شیخ چلی تک'' اور ''بات سے بات'' منصہ شہود پر اپنا جلوہ دکھا چکے ہیں، دونوں کتابوں میں شامل 42 انشائیے اپنی انفرادیت اور موضوعات کے اعتبار سے قابل ذکر ہیں، مقالہ نگار راشد خان کی کاوش اور تحقیق کی بدولت کتاب کی اہمیت دو چند ہوگئی ہے، انھوں نے راز صاحب کی ادبی و شعری خدمات کے حوالے سے بھرپور جائزہ لیا ہے، قاری کسی مقام پر تشنگی محسوس نہیں کرتا ہے۔
میں اپنے مضمون کے اختتام پر رفیع الدین راز کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد اس اعتراف کے ساتھ پیش کرتی ہوں کہ بے شک ان کی خدمت شعر و سخن اور نثر نگاری کے حوالے سے قابل رشک ہیں۔ اللہ انھیں مزید گیان کی دولت سے سرفراز فرمائے۔(آمین)
''ان کی شاعری میں سچائی اور کھرا پن پایا جاتا ہے، وہ قادرالکلام شاعر ہیں، ان کو تمام اصنافِ سخن پر قدرت حاصل ہے، ان کی شاعری میں تنوع، فکر کی گہرائی پائی جاتی ہے، مشاہدے کی وسعت، ہمہ گیریت، ذات کا شعور اور تجربے کی تازگی، زمینی وابستگی، جدید و قدیم حسین امتزاج رفیع الدین راز کو مستند شاعروں کی صف میں کھڑا کر دیتا ہے۔''
شگفتہ خورشید نے صنفِ تلمیح کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ '' یہ ایک ایسی صنف ہے جس میں تشبیہ، استعارہ، کنایہ کی تمام خصوصیات بھی جمع ہو جاتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ تمام قدیم و جدید شعرا نے تلمیح کو اپنی شاعری میں استعمال کرکے چند الفاظ میں پوری کہانی بیان کر دی ہے، شاعری کی جان ایجاز و اختصار ہے، یہ تفصیل کی متحمل نہیں ہو سکتی، صنعت تلمیح میں یہ خوبیاں بدرجہ اتم موجود ہیں، رفیع الدین رازکی شاعری میں تلمیحات کا وافر ذخیرہ موجود ہے۔''
حرفِ دعا ہے خیر ہی پڑھتا رہے گا تو
میں مر رہا ہوں میرے مسیحا دوا تو دے
راز صاحب نے کس قدر اچھوتے انداز میں حالِ دل بیان کیا ہے۔ یہ اندازِ تخاطب دل کش بھی ہے اور معنی خیز بھی۔ رفیع الدین راز کی شاعری کا اجمالی جائزہ لیتے ہوئے شفیق الرحمن الٰہ آبادی نے شاعرکی حیات اور خدمات پر اپنے خیالات کا اظہار اس طرح کیا ہے، راز صاحب کا خاندانی نام مرزا رفیع الدین بیگ ہے وہ 21 اپریل 1938 بہ مقام بیگو سرائے صوبہ بہار ہندوستان میں پیدا ہوئے، ان کا تعلق مغلیہ خاندان سے ہے اردو زبان ان کا اوڑھنا بچھونا رہی ہے، شفیق الرحمن الٰہ آبادی صاحب نے راز کے والد کے غیر ذمے دارانہ رویے اور راز صاحب کی ان پریشانیوں اور معاشی دکھوں کا ذکر کیا ہے جن کی وجہ سے ان کا تعلیمی سلسلہ ٹوٹ گیا، ان کے والد صاحب کاروبار کے سلسلے میں دربھنگہ چھوڑ کرکلکتہ چلے گئے اور اپنے اہل خانہ کو ان کی حالت پر چھوڑ دیا، ان حالات میں انھوں نے انھیں بس کنڈیکٹر اور ڈرائیور بنا دیا۔ راز صاحب کی حالت زار کا نقشہ ان کے ایک شعر میں نمایاں ہو گیا ہے۔
کسی سے پوچھتے کیا ہو جبینوں پر نظر ڈالو
لکیریں خود کہیں گی کس نے کتنی خاک چھانی ہے
''رفیع الدین راز کی شاعری میں تلمیحات'' اپنے مضمون کے حوالے سے شفیق الرحمن نے بڑی عرق ریزی سے تحریر کو قابل رشک بنا دیا ہے اور رفیع الدین راز کی تلمیحات کا ناقدانہ جائزہ پیش کیا ہے اور اسلامی واقعات اور اللہ کے برگزیدہ پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت ہارون علیہ السلام اور دوسرے کئی موضوعات پر مختصر اور دل کش انداز میں لکھا ہے اسی تاریخ کے تناظر میں چند تلمیحات نذر قارئین۔
یہ خوئے بت شکن اس میں نہ حائل بت گری یہ ہے
یہ دل کیوں درمیان فکر ابراہیم و آزر ہے
ردائے مہر ہے ضیائے طور ہے
محبت وصف میں سراپا نور ہے
زندہ رہنے کے لیے زہر پیا کرتے ہیں
مثلِ سقراط بھی کچھ لوگ جیا کرتے ہیں
سرِ ساحل جو ٹھہرا ہے قبیلہ ہے وہ وہ موسیٰ کا
یہ دریا جانتا ہے آج کیا لکھنا ہے موجوں پر
مصنف کی کاوش اور راز صاحب سے محبت اور ان کے شعر و سخن کی قدر شناسی نے ''تلمیحاتِ راز'' کو دل کش اور اسلامی و فکری احساس و تعلیمات سے جگ مگ، جگ مگ کردیا ہے۔ایک بڑی اہم کتاب ''رفیع الدین راز میری نظر میں'' میرے ہاتھ میں آگئی ہے۔ مذکورہ کتاب کے تجزیہ نگار اور ناقد اس دور کے ممتاز شاعر اور محقق ہیں، حال ہی میں وہ دارالفنا سے دارالبقا کی سمت کوچ کرگئے ہیں۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ (آمین) ادب کی جس بڑی ہستی کا میں ذکر کر رہی ہوں ان کا نام گرامی محسن اعظم محسن ملیح آبادی ہے۔
ناشر و مدیر ''رنگ ادب'' شاعر علی شاعر نے ان کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے کہ محسن اعظم ملیح آبادی خیام العصر اور کبیر دوراں کے لقب سے مشہور ہیں۔ رفیع الدین راز وہ واحد شاعر ہیں جن پر محسن اعظم صاحب نے سب سے زیادہ تنقیدی مضامین اور مقدمے تحریر کیے ہیں۔ یہ کتاب راز صاحب کے لیے فن کی گواہی اور سند اعزاز بھی ہے۔ شاعر و ناقد شاعر علی شاعر، راز صاحب کی دوہا نگاری پر رقم طراز ہیں۔ '' انھوں نے ایجاز و اختصار کو اپنے دوہوں میں برتا ہے، راز صاحب کے دوہے تقلید کی ڈگر سے ہٹے ہوئے ہیں۔ وہ دوہوں میں بھی جدت کے خواہاں ہیں اس کی شہادت میں ان کے دوہوں کو پیش کرتا ہوں:
سب کچھ ممکن ہے یہاں، کر لو بھیا صبر
بنتی ہے اس عہد میں قبروں پر قبر
دنیا کا دستور ہے، جو سوئے سو کھوئے
لڈو، لڈو بول کے، منہ کب میٹھا ہوئے
کتاب میں چند مضامین کے علاوہ تقریباً ساٹھ غزلیات بھی شامل ہیں، غزلیات پر تبصرہ کرتے ہوئے محسن اعظم محسن ملیح آبادی نے لکھا ہے۔ رفیع الدین رازکی شاعرانہ عظمت کا حوالہ غزل ہے وہ غزل کے ثقہ شعرا کے شانے سے شانہ ملائے کھڑے ہیں۔ راز صاحب کی غزلیات سے چند اشعار۔
مہ و خورشید و اختر لکھ رہا ہوں
ترے چہرے کا منظر لکھ رہا ہوں
بہت تذلیل آنکھوں کی ہوئی ہے
سو اب ہر غم کو اندر لکھ رہا ہوں
سرابوں کا بھرم رکھنے کی خاطر
میں صحرا کو سمندر لکھ رہا ہوں
مسلسل دھوپ میں ہے رقص اپنا
کہ بچوں کا مقدر لکھ رہا ہوں
میں اب لگتا ہوں خود کو پورے قد کا
مگر یہ بات جھک کر لکھ رہا ہوں
...٭...
نفس کو آنچ پر اور وہ بھی عمر بھر رکھنا
بڑا محال ہے ہستی کو معتبر رکھنا
درونِ ذات ہیں شیشوں کی بستیاں آباد
بہت سنبھال کے اے راز یہ نگر رکھنا
...٭...
اس دھوپ میں ہوتا رہوں تحلیل کہاں تک
اے وقت ترے حکم کی تعمیل کہاں تک
ہر آن نیا حرف، نئے لوگ، نئی بزم
آخر کوئی خود کو کرے تبدیل کہاں تک
جناب راز صاحب کی شاعری کے پہلوؤں اور اس کے محاسن کو نقادوں اور ادب کے طالب علموں نے بصیرت اور فکر کی گہرائی کے ساتھ اجاگر کیا ہے جو قابل تحسین ہے اس کے ساتھ ان کے نثر پاروں کا بھی جائزہ لینے کے لیے راشد خان نے ایم فل کیا اور رفیع الدین رازکی انشائیہ نگاری کے اعتبار سے تجزیاتی مطالعہ پیش کیا ہے۔
راشد خان نے نگران ڈاکٹر نذر عابد صاحب کی نگرانی میں اپنے مقالے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا، شعبہ اردو ہزارہ یونیورسٹی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں کے قابل صد احترام اساتذہ اپنے طالب علموں کا حوصلہ بڑھانے کے لیے ان سے علمی و ادبی تعاون کرتے ہیں، راشد خان کے مقالے کو بھی شعبہ اردو ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ سے قبولیت کی سند حاصل ہوئی ہے۔
راشد خان کا دیباچہ پڑھنے کے بعد اس بات سے آگاہی ہوتی ہے کہ رفیع الدین راز صاحب عہد موجود کے اہم انشائیہ نگار ہیں اور انشائیوں کے دو مجموعے بعنوانات ''سقراط سے شیخ چلی تک'' اور ''بات سے بات'' منصہ شہود پر اپنا جلوہ دکھا چکے ہیں، دونوں کتابوں میں شامل 42 انشائیے اپنی انفرادیت اور موضوعات کے اعتبار سے قابل ذکر ہیں، مقالہ نگار راشد خان کی کاوش اور تحقیق کی بدولت کتاب کی اہمیت دو چند ہوگئی ہے، انھوں نے راز صاحب کی ادبی و شعری خدمات کے حوالے سے بھرپور جائزہ لیا ہے، قاری کسی مقام پر تشنگی محسوس نہیں کرتا ہے۔
میں اپنے مضمون کے اختتام پر رفیع الدین راز کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد اس اعتراف کے ساتھ پیش کرتی ہوں کہ بے شک ان کی خدمت شعر و سخن اور نثر نگاری کے حوالے سے قابل رشک ہیں۔ اللہ انھیں مزید گیان کی دولت سے سرفراز فرمائے۔(آمین)