میثاق معیشت کیسے ممکن ہوگا
حکومت ہو یا حزب اختلاف وہ اپنے مخصوص سیاسی مفادات کے لیے معیشت کو بطو رہتھیار استعمال نہ کرے
پاکستان کی علمی و فکری مجالس میں بنیادی نقطہ معیشت کی بحالی ہے ۔ کہا جارہا ہے کہ معیشت کی بحالی اور مضبوطی کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں کرسکیں گے۔ اسی خیال کی بنیاد پر ایک نقطہ '' میثاق معیشت پر مبنی اتفاق رائے '' سے جڑا ہوا ہے۔
بہت سے سیاسی اور معاشی ماہرین کا نقطہ یہ ہے کہ تمام معاشی فریقین کے ساتھ ساتھ حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان دس سے پندہ برس کے درمیان ایک ایسا روڈ میپ اختیار کیا جانا چاہیے جہاں معاشی پالیسیوں کے تسلسل کو جاری رکھا جاسکے۔
حکومت ہو یا حزب اختلاف وہ اپنے مخصوص سیاسی مفادات کے لیے معیشت کو بطو رہتھیار استعمال نہ کرے او رنہ ہی جذباتیت کی بنیاد پر ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کو بنیاد بنا کر مضبوط معیشت کی منزل کو اور دور کردیا جائے ۔ایک فکری مغالطہ یہ پھیلایا جاتا ہے کہ ہمیں اپنی تمام تر ترجیحات کو پس پشت ڈال کر محض معیشت کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا چاہیے او راس پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے ۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہاں حکمران خود کو معاشی معاملات کا بادشا ہ سمجھتے ہیں اور منطق یہ دی جاتی ہے کہ ہمارے پاس فہم بھی ہے اور تدبر بھی او راسی بنیاد پر معیشت کی مضبوطی کا روڈ میپ بھی ہمارے پاس ہی ہے ۔ اللہ دین کا چراغ یا جذباتیت سمیت خوشنما یا جذباتی نعروں کی بنیاد پر معیشت کی بحالی ہمارا خصوصی بیانیہ ہے ۔ملک میں موجود جو بڑے بڑے معاشی ماہرین ہیں یا جن کی شہرت کسی بھی لحاظ سے بری نہیں ان کو قومی معیشت کی بحالی کے ایجنڈے یا ان کے پاس موجود تجاویز یا حل کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔
ہم سب سمجھتے ہیں کہ معیشت کی بحالی محض جذباتیت یا شارٹ ٹرم بنیادوں یا ردعمل کی بنیاد پر حل کیا جاسکتا ہے۔ سیاسی تنہائی میں معاشی بحران کے حل کی تلاش ہماری معاشی بحالی کے عمل کو اور پیچھے کی طرف دکھیل دیتی ہے ۔ہم دنیا میں ہونے والے معاشی تجربات یا معاشی پالیسیوں یا اقدامات سے بھی کچھ سیکھنے کے لیے یا خود سے داخلی محاذ پر معاشی امکانات کو پیدا کرنے کے لیے تیار نہیں او رہی ہماری مجموعی ناکامی کا المیہ ہے ۔
معیشت کی بحالی کسی بھی طور پر کسی جادوئی یا کرشماتی عمل سے ممکن نہیں ہوگا اور نہ ہی کسی مسیحا کی تلاش کی بنیاد پر ہمیں مطلوبہ نتائج دے سکے گا۔ ہمیں ایک مربوط نظام درکار ہے کیونکہ مربوط نظام کی بنیاد پر ہی ہم اپنے مجموعی مسائل کا حل تلاش کرسکتے ہیں ۔یہ جو معیشت کی بحالی کا ایجنڈا ہم محض غیر ملکی امداد یا برادر اسلامی ملک کی مدد سے تلاش کررہے ہیں وہ کارگر یا پائیدار پالیسی نہیں ۔ایک بات ہمارے معاشی اور سیاسی پنڈتوں کو سوچ لینی چاہیے کہ معیشت کی عملا بحالی ایک مضبوط سیاسی نظام اور سیاسی استحکام سے جڑا ہوا ہے ۔
جو لوگ بھی پاکستان میں میثاق معیشت کے نقطہ پر زور دیتے ہیں ان کی نیت یا دیانت داری پر کوئی اعتراض نہیں لیکن وہ سیاسی استحکام کو پیدا کیے بغیر کیسے معیشت کو بحال کرسکتے ہیں ۔ ہم معیشت کی بحالی کے لیے سخت گیر پالیسی اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس پہلو کو نظرانداز کرکے ہم معیشت کو بحال کرلیں گے ، ممکن نہیں ہے ۔ہمارے اداروں کی جو حالت زار ہے جس میں کوئی بڑی بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں یا غیر معمولی پالیسی کو اختیار کیے بغیر کچھ بھی نہیں ہوسکے گا۔
معیشت کی بحالی اپنے اندر ایک بڑی اعتماد سازی سے جڑی ہوتی ہے لیکن یہاں جو بداعتمادی کا ماحول ہے یا جو سیاسی اور معاشی تقسیم ہے اس کی روشنی میں کیسے مسائل کا حل تلاش کیا جاسکے گا، خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے ۔ مالیاتی کرپشن , بدعنوانی اور لوٹ ماراگر ہماری ترجیحات کاحصہ ہے تو کتنی اچھی بھی معاشی پالیسیاں یا معاشی سطح کے ماہرین کی خدمات لے لی جائیں تو یہ عمل نتیجہ خیز نہیں ہوسکے گا۔
جب اس ملک کا طاقت ور طبقہ چاہے وہ کسی بھی شعبہ یا محکمہ سے ہو اس کی بنیاد قومی معیشت کے مقابلے میں اپنی ذاتی یا خاندانی معیشت سے جڑی ہوگی تو پھر قومی معیشت کی بحالی کا سوال بہت پیچھے رہ جاتا ہے ۔بہت سے سیاسی اور سکہ بند معاشی دانشور تو یہ منطق بھی دیتے ہیں کہ کرپشن او ربدعنوانی کو بنیاد بنا کر اسے ترجیحی مسئلہ بنایاجائے گا تو معیشت کی بحالی ممکن نہیں ۔ان کے بقول کرپشن اور بدعنوانی آج کی عالمی معیشت سے جڑے معاملا ت ہیں۔
لیکن اس کے برعکس آج عالمی مالیاتی ادارے ہم پر بنیادی نوعیت کا سوال اٹھارہے ہیں کہ آپ کا قومی سطح پر کرپشن یا بدعنوانی کو روکنے کا کیا نظام ہے او ر کیسے اس مرض سے نمٹا جاسکے گا۔اب تو دنیا میں یہ بحثیں بھی جاری ہیں کہ جو عالمی امداد آتی ہے اس کا آڈٹ کروایا جائے کہ یہ رقم کہاں خرچ کی گئی ہے ۔یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہمارا انتظامی ، معاشی اور سیاسی و قانونی ڈھانچہ کمزور ی کی طرف بڑھ رہا ہے او راگر اس کو درست یا سرجری کرکے یا ٹھیک کیے بغیر ہم معاشی امور میں کوئی بڑا غیر معمولی کام نہیں کرسکیں گے ۔
معاشی امور کی بہتر ی کہ لیے ہمارے پاس ماہرین بھی وہ سامنے آتے ہیں یا ہمیں تحفہ کے طو رپر عالمی مالیاتی اداروں یا طاقت ور طبقات کی جانب سے دیے جاتے ہیں جو ہماری ریاستی معیشت کی بہتری کی بجائے کسی اور کے مفادات کے لیے کام کرتے ہیں۔ ان کے سامنے بڑا چیلنج معیشت سے جڑے داخلی معاملات نہیں بلکہ روزمرہ سے جڑے معاشی انتظامی معاملات ہوتے ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ سخت گیر اقدامات یا اصلاحات یا نظام میں موجود سرجری جو ہماری ضرورت بنتی ہے وہ ہماری ترجیحات کا حصہ نہیں بن پاتی۔
اسی طرح اعداد وشمار کے دھندے میں قومی معیشت کو الجھائے بغیر ہمارے پاس عام یاکمزور طبقات کی معاشی بحالی یا اسے معاشی بنیادوں پر مضبو ط بنانے کاکوئی روڈ میپ ہی نہیں ہے ۔ ماسوائے چیرٹی یا خیرات کو بنیاد بنا کر ہم قوم میں موجود کمزو رلوگوں کو معاشی بنیادوں پر کھڑا کرنے کی بجائے ان کو بھیک کے کھیل میں شامل کررہے ہیں ۔ اربوں روپوں پر مشتمل یہ خیراتی پروگرام اگر اس کے مقابلے میں چھوٹی چھوٹی صنعتوں پر مشتمل ہو جو چاہے گھر کی سطح پر ہی نہ ہو بلکہ لوگوں میں عزت کے ساتھ روزگار کمانے کے مواقع بھی فراہم کرسکے۔
یہاں طاقت ور طبقات کی معیشت ہے او رجہاں کمزور طبقات کے لیے محض استحصالی نظام ہو اور جہاں اربوں روپے محض حکمرانوں سمیت دیگر طاقت ور طبقات کی مراعات یا پروٹوکول پر خرچ ہو او رجہاں غیر ترقیاتی اخراجات ترقیاتی اخراجات سے بڑھ جائیں او رجہاں حکمران یا طاقت ور طبقات خود کاروبار سے منسلک ہوجائیں تو ایسے میں حقیقی معنوں میں معیشت کی بحالی , میثاق جمہوریت جیسے ماہدات یا حکومتی سطح پر بننے والے مختلف کمیشن ، کمیٹیاں یا جائزہ کمیشن کچھ بھی نہیں کرسکتے ۔ اس لیے ہمیں معیشت کی بحالی کا علاج مجموعی طرز حکمرانی کی شفافیت , جدیدیت سمیت سیاسی , معاشی , انتظامی وقانونی فریم ورک میں تلاش کرنا ہوگا۔
بہت سے سیاسی اور معاشی ماہرین کا نقطہ یہ ہے کہ تمام معاشی فریقین کے ساتھ ساتھ حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان دس سے پندہ برس کے درمیان ایک ایسا روڈ میپ اختیار کیا جانا چاہیے جہاں معاشی پالیسیوں کے تسلسل کو جاری رکھا جاسکے۔
حکومت ہو یا حزب اختلاف وہ اپنے مخصوص سیاسی مفادات کے لیے معیشت کو بطو رہتھیار استعمال نہ کرے او رنہ ہی جذباتیت کی بنیاد پر ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کو بنیاد بنا کر مضبوط معیشت کی منزل کو اور دور کردیا جائے ۔ایک فکری مغالطہ یہ پھیلایا جاتا ہے کہ ہمیں اپنی تمام تر ترجیحات کو پس پشت ڈال کر محض معیشت کو بنیاد بنا کر آگے بڑھنا چاہیے او راس پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے ۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہاں حکمران خود کو معاشی معاملات کا بادشا ہ سمجھتے ہیں اور منطق یہ دی جاتی ہے کہ ہمارے پاس فہم بھی ہے اور تدبر بھی او راسی بنیاد پر معیشت کی مضبوطی کا روڈ میپ بھی ہمارے پاس ہی ہے ۔ اللہ دین کا چراغ یا جذباتیت سمیت خوشنما یا جذباتی نعروں کی بنیاد پر معیشت کی بحالی ہمارا خصوصی بیانیہ ہے ۔ملک میں موجود جو بڑے بڑے معاشی ماہرین ہیں یا جن کی شہرت کسی بھی لحاظ سے بری نہیں ان کو قومی معیشت کی بحالی کے ایجنڈے یا ان کے پاس موجود تجاویز یا حل کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی۔
ہم سب سمجھتے ہیں کہ معیشت کی بحالی محض جذباتیت یا شارٹ ٹرم بنیادوں یا ردعمل کی بنیاد پر حل کیا جاسکتا ہے۔ سیاسی تنہائی میں معاشی بحران کے حل کی تلاش ہماری معاشی بحالی کے عمل کو اور پیچھے کی طرف دکھیل دیتی ہے ۔ہم دنیا میں ہونے والے معاشی تجربات یا معاشی پالیسیوں یا اقدامات سے بھی کچھ سیکھنے کے لیے یا خود سے داخلی محاذ پر معاشی امکانات کو پیدا کرنے کے لیے تیار نہیں او رہی ہماری مجموعی ناکامی کا المیہ ہے ۔
معیشت کی بحالی کسی بھی طور پر کسی جادوئی یا کرشماتی عمل سے ممکن نہیں ہوگا اور نہ ہی کسی مسیحا کی تلاش کی بنیاد پر ہمیں مطلوبہ نتائج دے سکے گا۔ ہمیں ایک مربوط نظام درکار ہے کیونکہ مربوط نظام کی بنیاد پر ہی ہم اپنے مجموعی مسائل کا حل تلاش کرسکتے ہیں ۔یہ جو معیشت کی بحالی کا ایجنڈا ہم محض غیر ملکی امداد یا برادر اسلامی ملک کی مدد سے تلاش کررہے ہیں وہ کارگر یا پائیدار پالیسی نہیں ۔ایک بات ہمارے معاشی اور سیاسی پنڈتوں کو سوچ لینی چاہیے کہ معیشت کی عملا بحالی ایک مضبوط سیاسی نظام اور سیاسی استحکام سے جڑا ہوا ہے ۔
جو لوگ بھی پاکستان میں میثاق معیشت کے نقطہ پر زور دیتے ہیں ان کی نیت یا دیانت داری پر کوئی اعتراض نہیں لیکن وہ سیاسی استحکام کو پیدا کیے بغیر کیسے معیشت کو بحال کرسکتے ہیں ۔ ہم معیشت کی بحالی کے لیے سخت گیر پالیسی اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس پہلو کو نظرانداز کرکے ہم معیشت کو بحال کرلیں گے ، ممکن نہیں ہے ۔ہمارے اداروں کی جو حالت زار ہے جس میں کوئی بڑی بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں یا غیر معمولی پالیسی کو اختیار کیے بغیر کچھ بھی نہیں ہوسکے گا۔
معیشت کی بحالی اپنے اندر ایک بڑی اعتماد سازی سے جڑی ہوتی ہے لیکن یہاں جو بداعتمادی کا ماحول ہے یا جو سیاسی اور معاشی تقسیم ہے اس کی روشنی میں کیسے مسائل کا حل تلاش کیا جاسکے گا، خود ایک بڑا سوالیہ نشان ہے ۔ مالیاتی کرپشن , بدعنوانی اور لوٹ ماراگر ہماری ترجیحات کاحصہ ہے تو کتنی اچھی بھی معاشی پالیسیاں یا معاشی سطح کے ماہرین کی خدمات لے لی جائیں تو یہ عمل نتیجہ خیز نہیں ہوسکے گا۔
جب اس ملک کا طاقت ور طبقہ چاہے وہ کسی بھی شعبہ یا محکمہ سے ہو اس کی بنیاد قومی معیشت کے مقابلے میں اپنی ذاتی یا خاندانی معیشت سے جڑی ہوگی تو پھر قومی معیشت کی بحالی کا سوال بہت پیچھے رہ جاتا ہے ۔بہت سے سیاسی اور سکہ بند معاشی دانشور تو یہ منطق بھی دیتے ہیں کہ کرپشن او ربدعنوانی کو بنیاد بنا کر اسے ترجیحی مسئلہ بنایاجائے گا تو معیشت کی بحالی ممکن نہیں ۔ان کے بقول کرپشن اور بدعنوانی آج کی عالمی معیشت سے جڑے معاملا ت ہیں۔
لیکن اس کے برعکس آج عالمی مالیاتی ادارے ہم پر بنیادی نوعیت کا سوال اٹھارہے ہیں کہ آپ کا قومی سطح پر کرپشن یا بدعنوانی کو روکنے کا کیا نظام ہے او ر کیسے اس مرض سے نمٹا جاسکے گا۔اب تو دنیا میں یہ بحثیں بھی جاری ہیں کہ جو عالمی امداد آتی ہے اس کا آڈٹ کروایا جائے کہ یہ رقم کہاں خرچ کی گئی ہے ۔یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہمارا انتظامی ، معاشی اور سیاسی و قانونی ڈھانچہ کمزور ی کی طرف بڑھ رہا ہے او راگر اس کو درست یا سرجری کرکے یا ٹھیک کیے بغیر ہم معاشی امور میں کوئی بڑا غیر معمولی کام نہیں کرسکیں گے ۔
معاشی امور کی بہتر ی کہ لیے ہمارے پاس ماہرین بھی وہ سامنے آتے ہیں یا ہمیں تحفہ کے طو رپر عالمی مالیاتی اداروں یا طاقت ور طبقات کی جانب سے دیے جاتے ہیں جو ہماری ریاستی معیشت کی بہتری کی بجائے کسی اور کے مفادات کے لیے کام کرتے ہیں۔ ان کے سامنے بڑا چیلنج معیشت سے جڑے داخلی معاملات نہیں بلکہ روزمرہ سے جڑے معاشی انتظامی معاملات ہوتے ہیں ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ سخت گیر اقدامات یا اصلاحات یا نظام میں موجود سرجری جو ہماری ضرورت بنتی ہے وہ ہماری ترجیحات کا حصہ نہیں بن پاتی۔
اسی طرح اعداد وشمار کے دھندے میں قومی معیشت کو الجھائے بغیر ہمارے پاس عام یاکمزور طبقات کی معاشی بحالی یا اسے معاشی بنیادوں پر مضبو ط بنانے کاکوئی روڈ میپ ہی نہیں ہے ۔ ماسوائے چیرٹی یا خیرات کو بنیاد بنا کر ہم قوم میں موجود کمزو رلوگوں کو معاشی بنیادوں پر کھڑا کرنے کی بجائے ان کو بھیک کے کھیل میں شامل کررہے ہیں ۔ اربوں روپوں پر مشتمل یہ خیراتی پروگرام اگر اس کے مقابلے میں چھوٹی چھوٹی صنعتوں پر مشتمل ہو جو چاہے گھر کی سطح پر ہی نہ ہو بلکہ لوگوں میں عزت کے ساتھ روزگار کمانے کے مواقع بھی فراہم کرسکے۔
یہاں طاقت ور طبقات کی معیشت ہے او رجہاں کمزور طبقات کے لیے محض استحصالی نظام ہو اور جہاں اربوں روپے محض حکمرانوں سمیت دیگر طاقت ور طبقات کی مراعات یا پروٹوکول پر خرچ ہو او رجہاں غیر ترقیاتی اخراجات ترقیاتی اخراجات سے بڑھ جائیں او رجہاں حکمران یا طاقت ور طبقات خود کاروبار سے منسلک ہوجائیں تو ایسے میں حقیقی معنوں میں معیشت کی بحالی , میثاق جمہوریت جیسے ماہدات یا حکومتی سطح پر بننے والے مختلف کمیشن ، کمیٹیاں یا جائزہ کمیشن کچھ بھی نہیں کرسکتے ۔ اس لیے ہمیں معیشت کی بحالی کا علاج مجموعی طرز حکمرانی کی شفافیت , جدیدیت سمیت سیاسی , معاشی , انتظامی وقانونی فریم ورک میں تلاش کرنا ہوگا۔