شاعر انجم پیلی بھیتی سے ناظم پانی پتی تک

لاہور کی فلم انڈسٹری ان کی صلاحیتوں سے فائدہ نہ اٹھا سکی

hamdam.younus@gmail.com

فلمی دنیا میں بعض گیت نگار ایسے بھی آئے جن کے گیتوں کو بڑی شہرت ملی مگر ان کے ناموں کو زیادہ پذیرائی نہ مل سکی ۔ ان گیت نگاروں میں ایک انجم پیلی بھیتی تھے اور دوسرے ناظم پانی پتی۔ آج میں انھی دونوں گیت نگاروں کی ابتدائی زندگی اور ان کے فلمی گیتوں کا تذکرہ کروں گا۔

انجم پیلی بھیتی کا ایک گیت 1945 میں ریلیز ہونے والی فلم انمول گھڑی کے لیے لکھا گیا تھا جس کے موسیقار نوشاد تھے اور میڈم نور جہاں نے گایا تھا،گیت کے بول تھے۔

کیا مل گیا بھگوان میرے دل کو دکھا کے

ارمانوں کی نگری میں مری آگ لگا کے

اور اس گیت نے شاعر انجم پیلی بھیتی کی زندگی کا چراغ ہی گل کردیا تھا، فلم انمول گھڑی کا ابھی ایک ہی گیت لکھا گیا تھا کہ کسی شقی القلب شخص نے انجم پیلی بھیتی کو قتل کر دیا ، انمول گھڑی کے بقیہ تمام گیت تنویر نقوی نے لکھے تھے۔ انجم پیلی بھیتی روہیل کھنڈ کے ضلع پیلی بھیت کے ایک روہیلہ خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔

ہندوستان میں وہ مشاعروں کا دور تھا۔ انجم پیلی بھیتی نے مشاعروں میں بڑی شہرت حاصل کی تھی اور پھر جب یہ بمبئی کے ایک بڑے مشاعرے میں شرکت کرنے گئے تو وہاں ان کی شاعری کی شہرت فلمی دنیا میں پہنچ گئی تھی۔ انھوں نے جس پہلی فلم کے لیے گیت لکھے وہ ہدایت کار محبوب کی فلم نجمہ تھی، جو 1943 میں بنائی گئی تھی اور اس فلم کے مرکزی کرداروں میں اشوک کمار اور وینا کے نام شامل تھے اور موسیقار رفیق غزنوی تھے، جب کہ امیر بائی کرناٹکی، ممتاز پارول گھوش اور فلم کے ہیرو اشوک کمار نے گیت گائے تھے، یہ اس دور کی کامیاب مسلم سوشل فلم تھی۔

نجمہ کے بعد انجم پیلی بھیتی نے کئی فلموں کے لیے گیت لکھے ان میں ہمجولی اور بڑی ماں قابل ذکر تھیں۔ انجم پیلی بھیتی نے شادی نہیں کی تھی اور تنہا زندگی گزارتے تھے، اسی دورکے ایک اور مشہور شاعر مجاز لکھنوی کی طرح بلا کے مے نوش تھے اور یہ جو کچھ کماتے تھے شراب میں اڑا دیتے تھے، ایک دن یہ لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ بازار حسن کی طرف جا رہے تھے کہ کسی لٹیرے نے چھری سے وار کرکے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

اب آتے ہیں ناظم پانی پتی کی طرف، جن کے گیتوں کو بڑی مقبولیت ملی تھی مگر ان کے نام کو شہرت نہ مل سکی تھی۔ مگر ان کے لکھے ہوئے گیت گا کر گلوکار محمد رفیع اور لتا منگیشکر لائم لائٹ میں آئے تھے۔ اس دورکی ایک پنجابی زبان کی فلم لچھی میں موسیقار ہنس راج بہل نے محمد رفیع کی آواز میں شاعر ناظم پانی پتی کا لکھا ہوا ایک گیت ریکارڈ کیا تھا جس کے بول تھے:

جگ والا میلہ یارو تھوڑی دیر دا

ہسدیاں رات لنگے پتہ نئیں سویر دا

اس گیت نے سارے ہندوستان میں محمد رفیع کی دھوم مچا دی تھی اور اسی گیت کی مقبولیت کی وجہ سے فلم لچھی اس دور کی کامیاب ترین فلم قرار دی گئی تھی، ناظم پانی پتی بمبئی اور لاہور دونوں جگہوں کی فلمی دنیا سے وابستہ رہے تھے۔ یہ کبھی بمبئی میں ہوتے توکبھی لاہور بلا لیے جاتے تھے۔ یہ پھر 1940 میں لاہور کے مشہور فلم ساز ادارے پنچولی پکچرز سے وابستہ ہوگئے تھے، اس دوران انھوں نے بہت سی فلموں کے لیے گیت لکھے ان فلموں میں چوہدری، زمیندار، خزانچی، شیریں فرہاد، پونجی اور یملا جٹ، داسی کے لیے گیت لکھے، فلم داسی کا ایک گیت بڑا مقبول ہوا تھا جس کے بول تھے:

مری آرزو دیکھ کیا چاہتا ہوں

جب یہ اپنے بڑے بھائی مصنف، شاعر و ہدایت کار ولی صاحب کے بلانے پر دوبارہ بمبئی گئے تو پھر دس سال تک بمبئی میں رہے اس دوران انھوں نے کافی فلموں کے لیے گیت لکھے، ان فلموں میں مجبور، بہار، شیش محل، سہارا، نوکر، شادی، بیوی، ہیر رانجھا، پدمنی اور جگ بیتی کو اپنے گیتوں سے جگمگایا، انھوں نے اس دور کے تمام نامور موسیقاروں ماسٹر غلام حیدر، ہنس راج بہل، وسنت ڈیسائی، گوبندرام، پنڈت امرت ناتھ، انل بسواس، ایس ڈی برمن اور پھر بعد کے مشہور موسیقار خیام کے ساتھ بھی کام کیا اور ان کے لکھے گیت لتا منگیشکر، محمد رفیع اور اداکارہ اور گلوکارہ ثریا نے بھی گائے تھے، چند مندرجہ ذیل گیت بڑے مشہور ہوئے تھے:


٭ اے دل کہاں لے جاؤں اب کہاں ٹھکانہ ہے (فلم شادی) ٭ آگرے کا گھاگھرا منگوا دو (فلم لاڈلی) ٭ جسے ڈھونڈتی ہے مری نظر (فلم شیش محل) ٭ کوئی جاگے کوئی سوئے (فلم جگ بیتی) ٭ دل میرا توڑ کے مجھے کہیں کا نہ چھوڑا (فلم مجبور)

مشہور ہدایت کار نذیر اجمیری کی فلم مجبور کے ایک گیت کو لازوال شہرت ملی تھی موسیقار غلام حیدر تھے، گیت کے بول تھے۔

انگریزی چھورا چلا گیا

اور یہ تاریخی گیت بن گیا تھا کہ ہندوستان سے انگریز حکومت کا خاتمہ ہو گیا تھا، ناظم پانی پتی کا اصل نام محمد اسمٰعیل تھا، لاہور میں پیدا ہوئے مگر ان کے والد کی پیدائش پانی پت کی تھی، اسی لیے پانی پت اپنے نام کے ساتھ لگایا تھا۔ ناظم پانی پتی کوگیت انگریزی چھورا چلا گیا پر ہندوستان کی حکومت نے بڑے اعزاز اور ایوارڈ سے بھی نوازا تھا۔ 1955 میں ناظم پانی پتی بمبئی چھوڑ کر لاہور میں آ کر بس گئے تھے، یہاں آ کر انھوں نے سب سے پہلی فلم لخت جگر کے لیے ایک لوری لکھی تھی جو آج تک فلمی دنیا کی سب سے خوبصورت اور سپرہٹ لوری کہلائی جاتی ہے۔ بابا چشتی کی موسیقی میں یہ لوری گلوکارہ میڈم نور جہاں نے گائی تھی، لوری کے بول تھے:

چندا کی نگری سے آ جا ری نندیا

اسی دور میں لاہور کی فلم انڈسٹری میں موسیقار بابا چشتی، رشید عطرے کے بعد موسیقار تصدق کا بھی بڑا نام تھا۔ انھوں نے فلم شاہی فقیر کے لیے ایک خوبصورت گیت گلوکارہ آئرن پروین سے گوایا تھا۔ اس گیت کے بول ناظم پانی پتی نے لکھے تھے۔

دل ہوگیا مبتلائے دردِ دل

پھر اٹھا پہلو میں ہائے دردِ دل

اس وقت بمبئی سے مشہور فلم ساز ایس ایم یوسف بھی بڑا نام کما کر لاہور آگئے تھے اور انھوں نے اپنا ذاتی فلم ساز ادارہ قائم کیا تھا، ناظم پانی پتی نے ان کی فلم سہیلی کے لیے ایک مزاحیہ گیت لکھا تھا جسے بڑی شہرت ملی تھی، جس کے بول تھے یہ دنیا گول مول ہے، اسی دوران شباب کیرانوی بھی فلم انڈسٹری میں آگئے تھے اور شباب پروڈکشن کے بینر تلے فلمیں بنانی شروع کردی تھیں۔

شباب کیرانوی کو یہ اعزاز بھی جاتا ہے کہ انھوں نے ڈھاکہ کی اردو فلم ''چکوری'' جس کا ہیرو ندیم تھا اس کو پہلی بار اسے منہ مانگا معاوضہ دے کر ڈھاکہ سے لاہور بلایا تھا اور اپنی فلم سنگدل میں دیبا کے ساتھ ہیرو کاسٹ کیا تھا۔ ندیم شباب کیرانوی کی اس فلم کے بعد پھر دوبارہ ڈھاکہ نہ جاسکا تھا ۔

یہاں میں یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ ندیم سے پہلے لاہور کے تمام ہیروز پچیس سے تیس ہزار روپے تک ایک فلم کا معاوضہ لیا کرتے تھے۔ ندیم نے جب لاکھوں میں معاوضہ لیا تو محمد علی، سدھیر اور وحید مراد نے بھی اپنی فلموں کا معاوضہ بڑھا دیا تھا۔ شاعر ناظم پانی پتی نے شباب صاحب کی دو تین فلموں کے لیے گیت لکھے تھے۔

ناظم پانی پتی نے بمبئی اور لاہور کی فلم انڈسٹری میں ربع صدی سے زیادہ عرصہ گزارا، ہر بڑے موسیقار کی فلموں کے لیے گیت لکھے جب کہ بعض فلموں میں انھوں نے کہانیاں اور مکالمے بھی لکھے مگر ان کو وہ شہرت اور وہ مقام نہ دیا گیا جس کے وہ صد فی صد حق دار تھے۔ پھر ان دنوں لاہور میں چند موسیقاروں کی اجارہ داری کے ساتھ ساتھ گروپ بندی بھی بہت تھی، اس گروپ بندی سے ناظم پانی پتی خود ہی آہستہ آہستہ فلمی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرتے چلے گئے تھے، وہ ایک ذہین شاعر اور کہانی کار بھی تھے۔

بمبئی کی فلم انڈسٹری نے جس طرح ان کی تخلیقات سے فائدہ اٹھایا اس طرح لاہور کی فلم انڈسٹری ان کی صلاحیتوں سے فائدہ نہ اٹھا سکی تھی اگر ناظم پانی پتی گروپ بندی کا شکار نہ ہوتے تو فلمی دنیا کو مزید دلکش گیتوں کا خزانہ حاصل ہو سکتا تھا۔ ناظم پانی پتی اپنی ذات میں ایک فقیر منش انسان تھے اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ (آمین)
Load Next Story