وفاقی حکومت کے پاس کوئی فنڈز نہیں میاں محمد منشا
اگرآپ بینکوں کو اسٹرانگ نہیں رکھیں گے تو ملک کی معیشت دبائو میں رہے گی
معروف بزنس مین اور چیئرمین نشاط گروپ آف انڈسٹریز میاں محمد منشا نے کہا ہے کہ وفاقی حکومت کے پاس کوئی فنڈز نہیں ہیں۔
معروف بزنس مین اور چیئرمین نشاط گروپ آف انڈسٹریز میاں محمد منشا نے کہاکہ آئی ایم ایف کا پروگرام ہونا ہمارے سسٹم کو ڈسپلن میں لانے کیلیے اچھا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس کے بعد کیا کرنا ہے؟ یہ ا ہم سوال ہے، آپ دیکھیں کہ ہماری وفاقی حکومت کے پاس کوئی فنڈز نہیں ہیں وہ صرف رقم اکٹھی کرتے تاکہ سیلریز ادا کرسکیں، ہم لوگ باتیں کرتے ہیں کہ ٹیکس بڑھانے ہیں اس پرکوئی بات نہیں کرتا کہ ہم نے اپنے خرچے کم کرنے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف سے معاہدہ ضروری اصلاحات کرنے کا ایک اور موقع ہے، مفتاح اسماعیل
ایکسپریس نیوزکے پروگرام دی ریویومیں تجزیہ کار شہباز رانا اورکامران یوسف سے گفتگوکرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ ہمیں انٹرسٹ ریٹس نیچے لانے چاہئیں اور وہ تبھی نیچے آئیں گے جب یہ ساری جو پرائیوٹائزیشن کرنی ہے کرلیں، آپ دیکھیں بجلی کی جو ڈسٹری بیوشن کمپنیز ہیں اس میں کتنے لاسز ہیں حیدر آباد، سکھر، کوئٹہ اورکے پی کے میں وہ صرف 24فیصد ریکوری کرتی ہیں، اس میں اتنی بڑی امپروومنٹ کا اسکوپ ہے۔
انھوں نے کہاکہ ہم نے اس سال ایک بینک کا 9.5ارب روپے ٹیکس دیاہے، انھوں نے بینکوں پر سپرٹیکس سمیت بہت ساری چیزیں لگائی ہیں، اگرآپ بینکوں کو اسٹرانگ نہیں رکھیں گے تو ملک کی معیشت دبائومیں رہے گی، اس ملک میں1فیصد لوگ ٹیکس فائلرزہیں،انھوں نے کہاکہ پاکستان میں معیشت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ گورنمنٹ کے اداروں میں اوورایمپلائمنٹ ہے۔
معروف بزنس مین اور چیئرمین نشاط گروپ آف انڈسٹریز میاں محمد منشا نے کہاکہ آئی ایم ایف کا پروگرام ہونا ہمارے سسٹم کو ڈسپلن میں لانے کیلیے اچھا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس کے بعد کیا کرنا ہے؟ یہ ا ہم سوال ہے، آپ دیکھیں کہ ہماری وفاقی حکومت کے پاس کوئی فنڈز نہیں ہیں وہ صرف رقم اکٹھی کرتے تاکہ سیلریز ادا کرسکیں، ہم لوگ باتیں کرتے ہیں کہ ٹیکس بڑھانے ہیں اس پرکوئی بات نہیں کرتا کہ ہم نے اپنے خرچے کم کرنے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف سے معاہدہ ضروری اصلاحات کرنے کا ایک اور موقع ہے، مفتاح اسماعیل
ایکسپریس نیوزکے پروگرام دی ریویومیں تجزیہ کار شہباز رانا اورکامران یوسف سے گفتگوکرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ ہمیں انٹرسٹ ریٹس نیچے لانے چاہئیں اور وہ تبھی نیچے آئیں گے جب یہ ساری جو پرائیوٹائزیشن کرنی ہے کرلیں، آپ دیکھیں بجلی کی جو ڈسٹری بیوشن کمپنیز ہیں اس میں کتنے لاسز ہیں حیدر آباد، سکھر، کوئٹہ اورکے پی کے میں وہ صرف 24فیصد ریکوری کرتی ہیں، اس میں اتنی بڑی امپروومنٹ کا اسکوپ ہے۔
انھوں نے کہاکہ ہم نے اس سال ایک بینک کا 9.5ارب روپے ٹیکس دیاہے، انھوں نے بینکوں پر سپرٹیکس سمیت بہت ساری چیزیں لگائی ہیں، اگرآپ بینکوں کو اسٹرانگ نہیں رکھیں گے تو ملک کی معیشت دبائومیں رہے گی، اس ملک میں1فیصد لوگ ٹیکس فائلرزہیں،انھوں نے کہاکہ پاکستان میں معیشت کے لیے سب سے بڑا مسئلہ گورنمنٹ کے اداروں میں اوورایمپلائمنٹ ہے۔