مالیاتی اصلاحات کا چیلنج اور اشرافیہ کی مراعات
اشرافیہ کو ملنے والی مراعات زیر بحث ہی نہیں آتیں کیونکہ پارلیمان میں موجود نمایندگان طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں
آئی ایم ایف کے مطابق موجودہ معاشی مسائل کو حل کرنے کے لیے پالیسیوں پر سختی سے عمل درآمد ضروری ہے،اعلامیے کے مطابق اسٹیٹ بینک نے درآمدات پر پابندی ہٹا دی ہے، پاکستان مالیاتی ڈسپلن کو یقینی بنائے، ڈالر ایکسچینج ریٹ کو مارکیٹ کے حساب سے مقررکیا جائے گا۔
بلاشبہ عید قرباں کی خوشیاں آئی ایم ایف سے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ معاہدہ طے پا جانے کے بعد دوبالا ہوئی ہیں، دراصل وہ ممالک جنھوں نے آئی ایم ایف سے اصلاحاتی قرضہ لیا لیکن اس کی شرائط میں طے کیے گئے ہدف پورے نہ کر سکے تو انھیں سہارے کے لیے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت مزید قرض دیا جاتا ہے۔
گو یہ معاہدہ فی الحال فریقین کے مابین ایک اسٹاف لیول معاہدہ ہے، جس کی حتمی منظوری بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کا انتظامی بورڈ جولائی کے وسط میں دے گا۔ آئی ایم ایف کا یہ نیا بیل آؤٹ اگرچہ توقع سے بڑا ہے۔
تاہم اس معاہدے میں پاکستانی حکومت پر یہ زور بھی دیا گیا ہے کہ وہ اپنے لیے زیادہ سے زیادہ مالی وسائل کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے اور زیادہ دوطرفہ اورکثیر الفریقی کوششیں کرے۔ دوسری جانب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے پاکستان کو تین بلین ڈالر مہیا کرنے کے وعدے کر رکھے ہیں اور ان رقوم کی عملی ترسیل اب متوقع ہے۔
اس کے علاوہ چین کی طرف سے بھی، جو پاکستان کو قرضے دینے والا سب سے بڑا ملک ہے، قرضوں میں رول اوور کلیدی اہمیت کا حامل ہوگا۔ پاکستان کو اپنے ذمے بین الاقوامی قرضوں کی سروس اور دیگر غیر ملکی ادائیگیوں کے لیے مجموعی طور پر 22 بلین ڈالر درکار ہیں، پاکستان کو یہ رقوم مالی سال 2024 میں درکار ہوں گی۔
کچھ عرصہ قبل ایک بین الاقوامی کانفرنس میں آئی ایم ایف کی سربراہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں حکومت جن مالی اعانتوں کا اعلان کرتی ہے۔
ان کا فائدہ ان غریب شہریوں کو ہونا چاہیے، جو ان اعانتوں کے مستحق ہیں۔ کرسٹالینا جارجیوا کا کہنا تھا کہ پاکستان کے حوالے سے ان کا زور صرف دو نکات پر ہے۔ ایک یہ کہ ٹیکسوں سے آمدنی میں اضافہ کیا جائے اور جو لوگ پیسے کما رہے ہیں، وہ ملکی معیشت کی بہتری میں اپنا کردار بھی ادا کریں، دوسرے یہ کہ سبسڈی مخصوص ہونا چاہیے۔
پاکستان میں ان دنوں مختلف اداروں اور افسران کو دی جانے والی سہولیات اور مراعات زیر بحث ہیں۔ سوشل میڈیا پر کچھ ایسی وڈیوز بھی منظرعام پر آئی ہیں، جن میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ لاہور اور اسلام آباد میں قائم اشرافیہ کے کلبوں، جن کی رکنیت کے لیے لاکھوں روپے وصول کیے جاتے ہیں، وہ کرائے کی مد میں سرکارکو انتہائی معمولی رقوم ادا کرتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے نے اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ پاکستان اپنی اشرافیہ کو سالانہ 17 بلین ڈالر سے زیادہ کی رقوم مراعات، سہولیات، ٹیکسوں میں چھوٹ اور اقدامات کے نام پر دے دیتا ہے۔
یو این ڈی پی کی اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان دراصل اشرافیہ کے زیر تسلط ہے۔درحقیقت سبسڈی کے نام پر اس ملک میں غریب سب سے زیادہ بد نام ہے، لیکن اشرافیہ کس کس طرح قومی خزانے کو چونا لگاتی ہے، وفاقی بیوروکریسی نے نو برسوں میں ماہانہ کار الاؤنس لینے کے باوجود سرکاری گاڑیاں اور اربوں روپے کا سرکاری پٹرول استعمال کرکے حکومتوں کو بے وقوف بنانے کا سلسلہ تادم تحریر جاری رکھا ہوا ہے۔
سرکاری گاڑیوں کی خریداری، مرمت اور فیول پر آنے والے اربوں روپے کے اخراجات کم کرنے کے لیے مونیٹائزیشن پالیسی متعارف کرائی تھی جس کی روشنی میں گریڈ 21,20 اور 22کے افسران کو بالترتیب کار الاؤنس کی مد میں ہزاروں اور ایک لاکھ سے اوپر روپے دینے شروع کیے گئے تھے، لیکن تنخواہ کے ساتھ ماہانہ کار الاؤنس لینے کے باوجود بیوروکریسی سرکاری گاڑیوں اور سرکاری پٹرول سے مستفید ہوکر قومی خزانے کو سالانہ اربوں روپے کا چونا لگا رہی ہے۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ذرایع کے مطابق ماضی کی حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت بھی مونیٹائزیشن پالیسی پر عمل درآمد کرانے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔ وفاقی بیوروکریسی پٹرول مہنگا ہونے کے باوجود کار الاؤنس سمیت تمام مراعات لے رہی ہے۔درحقیقت ہمارے صنعت کار ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ ہمارے ججوں کو بے پناہ مراعات دی جاتی ہیں، جو ایک طرح سے سبسڈی ہی کی ایک قسم ہے۔
پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے، جن کے شہری اپنے بچوں کو بڑی تعداد میں کیمبرج امتحان دلواتے ہیں۔ اشرافیہ کا تسلط اس لیے ہے کہ سبسڈی سے فائدہ اٹھانے والے اشرافیہ کے ارکان ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔
پاکستان میں کسی بھی بڑے گھرانے کا تجزیہ کرلیں تو اس گھرانے کا ایک فرد کاروبار میں ہوگا، دوسرا زراعت سے وابستہ ہوگا، تیسرا بیوروکریسی میں بھی ہوگا۔ تو ان کے آپس میں گہرے رشتے ہیں، جس کی وجہ سے اس اشرافیہ کو توڑنا مشکل ہے، اگر جامع اور نتیجہ خیز اصلاحات متعارف کرائی جائیں، تو اس تسلسل کو توڑنا ممکن ہے۔
دراصل آئی ایم ایف جس طرح کی پالیسیاں امریکا، بھارت اور دوسرے ممالک کے تعاون سے پاکستان پر مسلط کر رہا ہے، اس سے صرف غریب عوام کو نقصان ہو رہا ہے۔ کیا آئی ایم ایف نہیں دیکھتا کہ پاکستانی حکمران سرکاری رقوم سے مختلف ممالک کے سیر سپاٹے کرتے ہیں اور اس دوران بے تحاشا مالی وسائل خرچ کرتے ہیں۔
پاکستانی اقتصادیات کے پس منظر میں دیکھا جائے تو آئی ایم ایف کی پالیسیوں کی وجہ سے ہی ملک میں ہوشربا مہنگائی ہوئی ہے، جس میں غریب عوام پستے ہی جا رہے ہیں۔ اس مہنگائی کی وجہ سے زراعت میں بھی پیداواری لاگت بڑھ گئی ہے، جس سے پاکستان کا غریب کسان سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے کیونکہ پاکستان کے صرف پانچ فیصد جاگیردار 64 فیصد زرعی زمین پر قابض ہیں، لیکن حکومت ان پانچ فیصد جاگیرداروں پر ٹیکس لگانے پر تیار نہیں۔
آئی ایم ایف اس حقیقت کے باوجود کہ نجکاری نے ہمیشہ امیروں ہی کو فائدہ پہنچایا، آج بھی پاکستانی حکومت کو مجبورکررہا ہے کہ وہ مزید نجکاری کرے۔ اس کے علاوہ پاکستان پر یہ بھی دباؤ ہے کہ وہ لامحدود اشیاء درآمد کرے، جس سے زر مبادلہ کے کم ذخائر کم تر ہو جائیں گے۔ ایک عام آدمی، غریب، سفید پوش اور دیہاڑی دار، آٹے، گھی، چینی پر ٹیکس ادا کر کے ریاست پاکستان کے خزانے کو بھرنے میں اپنا حصہ ملاتا ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ ہر شے پر ٹیکس ادا کرتا ہے مگر اس کے بدلے میں وہ زندگی معاشی بدحالی کے جبر تلے سسک سسک کرگزارتا ہے۔ دوسری جانب پاکستان کی سیاسی، غیر سیاسی اور بیورو کریٹک اشرافیہ کی زندگیوں کو پر آسائش بنانے کے لیے سرکاری خزانہ ایک خریدے ہوئے غلام کی طرح خدمت پر کمر بستہ رہتا ہے۔ پچاس فی صد لوگ جو خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں ان کے شب وروز بہت مشکل سے گزرتے ہیں۔تنخواہ دار طبقہ بیش تر سفید پوش ہے، جو بہ ظاہر تین وقت کھاتا ہے۔
اس کے بچے اسکول جاتے ہیں۔ وہ خوشی، غم بھی کسی طرح بھگتا لیتا ہے۔ مہینے کے آخری دس دن اس پر عذاب بن کر گزرتے ہیں۔ اس طبقے کے افراد بھی گھی، چینی، آٹا خریدتے وقت اتنا ہی ٹیکس دیتے ہیں جتنا معاشی طور پر خوش حال پاکستانی دیتا ہے۔
یہ اس کے ساتھ سراسر ظلم ہے۔ آخر وہ کس چیز کی سزا بھگت رہا ہے؟ اتنا ٹیکس دینے کے بعد بھی ریاست پاکستان اس کے بچوں کو ڈھنگ کی مفت تعلیم نہیں دیتی، بیماری میں مناسب علاج نہیں ملتا۔
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کی جانب سے حال ہی میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اشرافیہ، کارپوریٹ سیکٹر، جاگیرداروں اور اسٹیبلیشمنٹ کو دی گئی اقتصادی مراعات ایک اندازے کے مطابق 17.4ارب ڈالر یا ملکی معیشت کا تقریباً 6 فی صد کے برابر ہیں اور ملک میں مراعات حاصل کرنے والا سب سے بڑا شعبہ کارپوریٹ سیکٹر ہے جو مجموعی طور پر 4.7 ارب ڈالرز کی مراعات یا سبسڈیز حاصل کر رہا ہے۔ان مراعات میں ٹیکس بریکس، چیپ ان پٹ پرائس، اعلیٰ آؤٹ پٹ پرائس یا سرمائے تک ترجیحی رسائی، زمین اور خدمات تک ترجیحی رسائی سمیت دیگر مراعات شامل ہیں۔
دوسرے اور تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ مراعات ملک کے امیر ترین ایک فی صد افراد حاصل کرتے ہیں جو ملک کی مجموعی آمدنی کے نو فی صد کے مالک ہیں اور جاگیردار، جو آبادی کا 1.1 فی صد ہیں، لیکن تمام قابل کاشت زمین کے 22 فی صدکے مالک ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی پارلیمان میں جاگیرداروں اورکارپوریٹ مالکان کی بھرپور نمایندگی ہے اور زیادہ تر بڑی سیاسی جماعتوں کے امیدوار جاگیردار یا کاروباری طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی مراعات ختم کرنے کی بات کی جاتی ہے تو غریب عوام کو دی جانے والی مراعات اور سبسڈیز کے خاتمے پر بحث کی جاتی ہے۔
اشرافیہ کو ملنے والی مراعات زیر بحث ہی نہیں آتیں کیونکہ پارلیمان میں موجود نمایندگان طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
کاش، ہمارے حکمراں عام پاکستانیوں کے چہرے کبھی غور سے دیکھیں، جن کے چہروں پر حسرت نمایاں نظر آتی ہے اور آنکھوں میں آنے والے دنوں کے وسوسے اور خدشات سر اٹھاتے ہیں۔ مالیاتی اصلاحات کے لیے لانگ ٹرم قومی معاشی پالیسی کی ضرورت ہے، تمام اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا جانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
بلاشبہ عید قرباں کی خوشیاں آئی ایم ایف سے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ معاہدہ طے پا جانے کے بعد دوبالا ہوئی ہیں، دراصل وہ ممالک جنھوں نے آئی ایم ایف سے اصلاحاتی قرضہ لیا لیکن اس کی شرائط میں طے کیے گئے ہدف پورے نہ کر سکے تو انھیں سہارے کے لیے اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت مزید قرض دیا جاتا ہے۔
گو یہ معاہدہ فی الحال فریقین کے مابین ایک اسٹاف لیول معاہدہ ہے، جس کی حتمی منظوری بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کا انتظامی بورڈ جولائی کے وسط میں دے گا۔ آئی ایم ایف کا یہ نیا بیل آؤٹ اگرچہ توقع سے بڑا ہے۔
تاہم اس معاہدے میں پاکستانی حکومت پر یہ زور بھی دیا گیا ہے کہ وہ اپنے لیے زیادہ سے زیادہ مالی وسائل کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے اور زیادہ دوطرفہ اورکثیر الفریقی کوششیں کرے۔ دوسری جانب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے پاکستان کو تین بلین ڈالر مہیا کرنے کے وعدے کر رکھے ہیں اور ان رقوم کی عملی ترسیل اب متوقع ہے۔
اس کے علاوہ چین کی طرف سے بھی، جو پاکستان کو قرضے دینے والا سب سے بڑا ملک ہے، قرضوں میں رول اوور کلیدی اہمیت کا حامل ہوگا۔ پاکستان کو اپنے ذمے بین الاقوامی قرضوں کی سروس اور دیگر غیر ملکی ادائیگیوں کے لیے مجموعی طور پر 22 بلین ڈالر درکار ہیں، پاکستان کو یہ رقوم مالی سال 2024 میں درکار ہوں گی۔
کچھ عرصہ قبل ایک بین الاقوامی کانفرنس میں آئی ایم ایف کی سربراہ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں حکومت جن مالی اعانتوں کا اعلان کرتی ہے۔
ان کا فائدہ ان غریب شہریوں کو ہونا چاہیے، جو ان اعانتوں کے مستحق ہیں۔ کرسٹالینا جارجیوا کا کہنا تھا کہ پاکستان کے حوالے سے ان کا زور صرف دو نکات پر ہے۔ ایک یہ کہ ٹیکسوں سے آمدنی میں اضافہ کیا جائے اور جو لوگ پیسے کما رہے ہیں، وہ ملکی معیشت کی بہتری میں اپنا کردار بھی ادا کریں، دوسرے یہ کہ سبسڈی مخصوص ہونا چاہیے۔
پاکستان میں ان دنوں مختلف اداروں اور افسران کو دی جانے والی سہولیات اور مراعات زیر بحث ہیں۔ سوشل میڈیا پر کچھ ایسی وڈیوز بھی منظرعام پر آئی ہیں، جن میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ لاہور اور اسلام آباد میں قائم اشرافیہ کے کلبوں، جن کی رکنیت کے لیے لاکھوں روپے وصول کیے جاتے ہیں، وہ کرائے کی مد میں سرکارکو انتہائی معمولی رقوم ادا کرتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے نے اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ پاکستان اپنی اشرافیہ کو سالانہ 17 بلین ڈالر سے زیادہ کی رقوم مراعات، سہولیات، ٹیکسوں میں چھوٹ اور اقدامات کے نام پر دے دیتا ہے۔
یو این ڈی پی کی اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستان دراصل اشرافیہ کے زیر تسلط ہے۔درحقیقت سبسڈی کے نام پر اس ملک میں غریب سب سے زیادہ بد نام ہے، لیکن اشرافیہ کس کس طرح قومی خزانے کو چونا لگاتی ہے، وفاقی بیوروکریسی نے نو برسوں میں ماہانہ کار الاؤنس لینے کے باوجود سرکاری گاڑیاں اور اربوں روپے کا سرکاری پٹرول استعمال کرکے حکومتوں کو بے وقوف بنانے کا سلسلہ تادم تحریر جاری رکھا ہوا ہے۔
سرکاری گاڑیوں کی خریداری، مرمت اور فیول پر آنے والے اربوں روپے کے اخراجات کم کرنے کے لیے مونیٹائزیشن پالیسی متعارف کرائی تھی جس کی روشنی میں گریڈ 21,20 اور 22کے افسران کو بالترتیب کار الاؤنس کی مد میں ہزاروں اور ایک لاکھ سے اوپر روپے دینے شروع کیے گئے تھے، لیکن تنخواہ کے ساتھ ماہانہ کار الاؤنس لینے کے باوجود بیوروکریسی سرکاری گاڑیوں اور سرکاری پٹرول سے مستفید ہوکر قومی خزانے کو سالانہ اربوں روپے کا چونا لگا رہی ہے۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ذرایع کے مطابق ماضی کی حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت بھی مونیٹائزیشن پالیسی پر عمل درآمد کرانے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔ وفاقی بیوروکریسی پٹرول مہنگا ہونے کے باوجود کار الاؤنس سمیت تمام مراعات لے رہی ہے۔درحقیقت ہمارے صنعت کار ٹیکس ادا نہیں کرتے۔ ہمارے ججوں کو بے پناہ مراعات دی جاتی ہیں، جو ایک طرح سے سبسڈی ہی کی ایک قسم ہے۔
پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے، جن کے شہری اپنے بچوں کو بڑی تعداد میں کیمبرج امتحان دلواتے ہیں۔ اشرافیہ کا تسلط اس لیے ہے کہ سبسڈی سے فائدہ اٹھانے والے اشرافیہ کے ارکان ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔
پاکستان میں کسی بھی بڑے گھرانے کا تجزیہ کرلیں تو اس گھرانے کا ایک فرد کاروبار میں ہوگا، دوسرا زراعت سے وابستہ ہوگا، تیسرا بیوروکریسی میں بھی ہوگا۔ تو ان کے آپس میں گہرے رشتے ہیں، جس کی وجہ سے اس اشرافیہ کو توڑنا مشکل ہے، اگر جامع اور نتیجہ خیز اصلاحات متعارف کرائی جائیں، تو اس تسلسل کو توڑنا ممکن ہے۔
دراصل آئی ایم ایف جس طرح کی پالیسیاں امریکا، بھارت اور دوسرے ممالک کے تعاون سے پاکستان پر مسلط کر رہا ہے، اس سے صرف غریب عوام کو نقصان ہو رہا ہے۔ کیا آئی ایم ایف نہیں دیکھتا کہ پاکستانی حکمران سرکاری رقوم سے مختلف ممالک کے سیر سپاٹے کرتے ہیں اور اس دوران بے تحاشا مالی وسائل خرچ کرتے ہیں۔
پاکستانی اقتصادیات کے پس منظر میں دیکھا جائے تو آئی ایم ایف کی پالیسیوں کی وجہ سے ہی ملک میں ہوشربا مہنگائی ہوئی ہے، جس میں غریب عوام پستے ہی جا رہے ہیں۔ اس مہنگائی کی وجہ سے زراعت میں بھی پیداواری لاگت بڑھ گئی ہے، جس سے پاکستان کا غریب کسان سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے کیونکہ پاکستان کے صرف پانچ فیصد جاگیردار 64 فیصد زرعی زمین پر قابض ہیں، لیکن حکومت ان پانچ فیصد جاگیرداروں پر ٹیکس لگانے پر تیار نہیں۔
آئی ایم ایف اس حقیقت کے باوجود کہ نجکاری نے ہمیشہ امیروں ہی کو فائدہ پہنچایا، آج بھی پاکستانی حکومت کو مجبورکررہا ہے کہ وہ مزید نجکاری کرے۔ اس کے علاوہ پاکستان پر یہ بھی دباؤ ہے کہ وہ لامحدود اشیاء درآمد کرے، جس سے زر مبادلہ کے کم ذخائر کم تر ہو جائیں گے۔ ایک عام آدمی، غریب، سفید پوش اور دیہاڑی دار، آٹے، گھی، چینی پر ٹیکس ادا کر کے ریاست پاکستان کے خزانے کو بھرنے میں اپنا حصہ ملاتا ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ ہر شے پر ٹیکس ادا کرتا ہے مگر اس کے بدلے میں وہ زندگی معاشی بدحالی کے جبر تلے سسک سسک کرگزارتا ہے۔ دوسری جانب پاکستان کی سیاسی، غیر سیاسی اور بیورو کریٹک اشرافیہ کی زندگیوں کو پر آسائش بنانے کے لیے سرکاری خزانہ ایک خریدے ہوئے غلام کی طرح خدمت پر کمر بستہ رہتا ہے۔ پچاس فی صد لوگ جو خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں ان کے شب وروز بہت مشکل سے گزرتے ہیں۔تنخواہ دار طبقہ بیش تر سفید پوش ہے، جو بہ ظاہر تین وقت کھاتا ہے۔
اس کے بچے اسکول جاتے ہیں۔ وہ خوشی، غم بھی کسی طرح بھگتا لیتا ہے۔ مہینے کے آخری دس دن اس پر عذاب بن کر گزرتے ہیں۔ اس طبقے کے افراد بھی گھی، چینی، آٹا خریدتے وقت اتنا ہی ٹیکس دیتے ہیں جتنا معاشی طور پر خوش حال پاکستانی دیتا ہے۔
یہ اس کے ساتھ سراسر ظلم ہے۔ آخر وہ کس چیز کی سزا بھگت رہا ہے؟ اتنا ٹیکس دینے کے بعد بھی ریاست پاکستان اس کے بچوں کو ڈھنگ کی مفت تعلیم نہیں دیتی، بیماری میں مناسب علاج نہیں ملتا۔
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کی جانب سے حال ہی میں جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اشرافیہ، کارپوریٹ سیکٹر، جاگیرداروں اور اسٹیبلیشمنٹ کو دی گئی اقتصادی مراعات ایک اندازے کے مطابق 17.4ارب ڈالر یا ملکی معیشت کا تقریباً 6 فی صد کے برابر ہیں اور ملک میں مراعات حاصل کرنے والا سب سے بڑا شعبہ کارپوریٹ سیکٹر ہے جو مجموعی طور پر 4.7 ارب ڈالرز کی مراعات یا سبسڈیز حاصل کر رہا ہے۔ان مراعات میں ٹیکس بریکس، چیپ ان پٹ پرائس، اعلیٰ آؤٹ پٹ پرائس یا سرمائے تک ترجیحی رسائی، زمین اور خدمات تک ترجیحی رسائی سمیت دیگر مراعات شامل ہیں۔
دوسرے اور تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ مراعات ملک کے امیر ترین ایک فی صد افراد حاصل کرتے ہیں جو ملک کی مجموعی آمدنی کے نو فی صد کے مالک ہیں اور جاگیردار، جو آبادی کا 1.1 فی صد ہیں، لیکن تمام قابل کاشت زمین کے 22 فی صدکے مالک ہیں۔
رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاکستان کی پارلیمان میں جاگیرداروں اورکارپوریٹ مالکان کی بھرپور نمایندگی ہے اور زیادہ تر بڑی سیاسی جماعتوں کے امیدوار جاگیردار یا کاروباری طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی مراعات ختم کرنے کی بات کی جاتی ہے تو غریب عوام کو دی جانے والی مراعات اور سبسڈیز کے خاتمے پر بحث کی جاتی ہے۔
اشرافیہ کو ملنے والی مراعات زیر بحث ہی نہیں آتیں کیونکہ پارلیمان میں موجود نمایندگان طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
کاش، ہمارے حکمراں عام پاکستانیوں کے چہرے کبھی غور سے دیکھیں، جن کے چہروں پر حسرت نمایاں نظر آتی ہے اور آنکھوں میں آنے والے دنوں کے وسوسے اور خدشات سر اٹھاتے ہیں۔ مالیاتی اصلاحات کے لیے لانگ ٹرم قومی معاشی پالیسی کی ضرورت ہے، تمام اسٹیک ہولڈرز پر مشتمل قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا جانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔