ریلوے مسافر سہولتوں کے متقاضی
ٹرینوں کی بوگیاں لگانے کا ریلوے کا کوئی اصول نہیں ہے نمبر آگے یا پیچھے سے ترتیب سے نہیں لگائے جاتے
گزشتہ طوفانی بارشوں کے نتیجے میں ریلوے کی جو ٹرینیں بند ہوئی تھیں ان میں بہت سی ٹرینیں بحال نہیں ہوئیں جس کی وجہ سے ٹرینیں کم چل رہی ہیں مسافروں کا رش بڑھا ہوا ہے اور ریلوے مسافروں کو وقت سے کافی روز پہلے سفر کے لیے موجودہ ٹرینوں میں ریزرویشن کرانا پڑتی ہے۔
اتحادی حکومت میں بھی ریلوے کی وزارت خواجہ سعد رفیق کو ملی ہوئی ہے جو پہلے بھی ریلوے کے کامیاب وزیر رہے ہیں اور بلور دور میں تباہ کی جانے والی ریلوے جو بند ہو جانے کے قریب تھی (ن) لیگی وزیر نے بحال کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا اور اپنی اچھی کارکردگی سے پاک ریلوے پر عوام کا اعتماد بحال کرایا تھا۔
خواجہ سعد رفیق سوا سال سے ریلوے کے دوبارہ وزیر ہیں مگر ان کے پاس پی آئی اے بھی ہے اور ہوائی سفر ریلوے کے مقابلے میں مہنگا اور امیروں کی ترجیح ہوتا ہے ، ٹرینوں میں سفر کرنے والوں کی اکثریت غریبوں کی ہے جب کہ متوسط طبقہ بھی ریلوے میں ہی سفر کرتا ہے مگر اس بار سوا سال میں ریلوے میں وہ بہتری نظر نہیں آئی جو پہلے خواجہ دور میں تھی جن کے بعد پی ٹی آئی دور میں ریلوے کی وزارت دوبارہ شیخ رشید کو دی گئی تھی جس کے بعد غریبوں کی سواری ریلوے اعظم سواتی کے سپرد کی گئی جنھوں نے ریلوے کی ترقی پر توجہ ہی نہیں دی۔
وزیر ریلوے کی کارکردگی اس بار پہلے جیسی اور اطمینان بخش نہیں رہی اور ریلوے کا عملہ بھی پہلے کی طرح اپنی ذمے داری ادا نہیں کر رہا جس کی وجہ سے ریلوے مسافروں اور ٹرینوں میں سہولتوں کا فقدان ہے، ٹرینوں کی کمی مسافروں کے لیے پہلے ہی مسئلہ ہے ریلوے کے کرائے سوا سال میں مسلسل بڑھائے گئے ہیں جو کم ہونے کا نام نہیں لے رہے حالانکہ ڈیزل کے نرخ کم بھی ہوئے ہیں۔ مختلف ایکسپریس ٹرینوں کے کرایوں میں بھی فرق ہے جب کہ ایکسپریس ٹرینیں جن کے اسٹاپ بھی کم ہیں مگر ان کے کرایوں میں نہ جانے کیوں فرق رکھا گیا ہے یا ریلوے عملہ اپنی مرضی کے کرائے وصول کر رہا ہے۔
اے سی کے ٹکٹوں اور اکانومی کلاس کے کرایوں میں کم فرق اور شدید گرمی کے باعث مسافر اکانومی کے بجائے اے سی اسٹینڈرڈ میں سفر کرنے پر مجبور ہیں جہاں پنکھے کم اور روشنی کا بھی فقدان رہتا ہے، گزشتہ دنوں کراچی سے چلنے والی ایک ٹرین کے اے سی اسٹینڈرڈ کی بوگی کا اے سی روزنامہ ایکسپریس کی خبر کے مطابق خراب تھا مگر کراچی ریلوے کی انتظامیہ نے رپورٹ ملنے کے باوجود اے سی درست کرایا نہ بوگی تبدیل کی جس پر مذکورہ بوگی کے مسافروں نے گرمی اور حبس سے تنگ آ کر اسٹیشن پر احتجاج کیا تھا۔
اکانومی کلاس کا تو کوئی پرسان حال ہے ہی نہیں مگر اے سی اسٹینڈرڈ کی بوگیوں کی صورت حال اچھی نہیں ہے جہاں دروازے بند نہ ہونے سے کولنگ ضایع ہوتی ہے جب کہ اے سی بوگیوں کے بیت الخلاؤں کی حالت بہت خراب ہے جو اندر سے لاک نہیں ہوتے جس سے مسافروں خصوصاً خواتین کو سخت پریشانی ہوتی ہے۔
بیت الخلاؤں کے نل خراب رہتے ہیں جہاں لوٹے نہ ہونے کی وجہ سے مسافر پانی کی خالی بوتلیں استعمال کرکے کام چلا لیتے ہیں۔ لاہور ریلوے انتظامیہ اے سی لوئر کے واش رومز کی حالت بہتر بنانے کے بجائے بوگیوں کی اندرونی صفائی اور واش رومز میں ہینڈ واش لیکوئیڈ ضرور رکھوا دیتی ہے مگر اے سی بوگیوں کے دروازوں اور پنکھوں و لائٹس پر توجہ نہیں دے رہی جو مسافروں کے لیے اہم مسئلہ ہے۔ کبھی کبھی واش رومز میں پانی بھی دستیاب نہیں ہوتا اور ٹیشو پیپر بھی کم پڑ جاتے ہیں۔
25 جون کو شام کو لاہور میں جو طوفانی بارش ہوئی جس کے بعد اے سی اسٹینڈرڈ کی کراچی آنے والی کراچی ایکسپریس کی بوگی نمبر 13 کی چھت ٹپکتی رہی اور اس کے مسافروں کو جاگ کر رات گزارنا پڑی جن کی تینوں برتھیں گیلی ہونے سے بیٹھنے کے قابل بھی نہیں تھیں۔ 25 جون کو ہی طوفانی بارش سے بوگیوں پر چاک سے لکھے ہوئے نمبر مٹ گئے اور مسافر اپنے مطلوبہ نمبر کی بوگی ڈھونڈتے رہے۔
ٹرینوں کی بوگیاں لگانے کا ریلوے کا کوئی اصول نہیں ہے نمبر آگے یا پیچھے سے ترتیب سے نہیں لگائے جاتے۔ اے سی کی بوگیاں کبھی آگے کبھی پیچھے لگا دی جاتی ہیں۔ اکانومی بوگیاں بھی بے ترتیب درمیان میں لگا دی جاتی ہیں جس کی وجہ سے مسافر اپنے نمبر کی بوگی کی تلاش میں کبھی آگے اور کبھی پیچھے بھاگتے نظر آتے ہیں۔
کراچی، لاہور، راولپنڈی بڑے شہر ہیں جہاں سے کراچی اور راولپنڈی کے درمیان زیادہ گاڑیاں چلتی ہیں اور تینوں اسٹیشنوں کے مین اسٹیشنوں کے علاوہ نواحی اسٹیشن بھی ہیں جیسے کراچی میں ڈرگ روڈ اور قائد آباد، لاہور میں کوٹ لکھپت، راولپنڈی میں چک لالہ جہاں مسافر اپنی سہولت سے اترتے ہیں مگر تمام ٹرینیں ان اسٹیشنوں پر آتے جاتے نہیں رکتیں۔ بادامی باغ اور شاہدرہ لاہور کے نواحی علاقوں کے اسٹیشنوں پر ایکسپریس ٹرینیں نہیں رکتیں۔ ملتان میں گیلانی دور میں نیا ملتان اسٹیشن بنایا گیا تھا جہاں کوئی ٹرین نہیں رکتی۔ ملک میں بے شمار چھوٹے اسٹیشن ہیں جہاں کوئی ٹرین نہیں رکتی مگر عملہ مقرر ہے۔
قائد آباد اور ڈرگ روڈ پر کراچی آنے والی ٹرینیں وہ بھی سب نہیں بعض رکتی ہیں جاتے ہوئے نہیں رکتیں اور ہزاروں مسافر سیکڑوں روپے کرایہ خرچ کرکے کراچی کینٹ پہنچتے ہیں اگر ریلوے حکام نواحی اسٹیشنوں پر آتے جاتے گاڑیوں کے اسٹاپ مقرر کرا دیں تو مسافروں کو سہولت اور اخراجات کی بچت ہو سکتی ہے۔