اووَرسیز پاکستانی اپنی رقوم کیوں پاکستان بھجوائیں

پاکستان کی ہر حکومت سمندر پار پاکستانیوں کو ’’اپنا اثاثہ‘‘ قرار دیتی ہے


Tanveer Qaisar Shahid July 03, 2023
[email protected]

یکم جولائی2023کو امریکا کے ممتاز ترین اخبار ، نیویارک ٹائمز، نے اپنے صفحہ اوّل پر ایک مفصل اور طویل نیوز آرٹیکل شایع کیا ہے ۔

اِس کا عنوان ہے :Everyone Knew the Migrant Ship Was Doomed.No One Helped. اِس آرٹیکل میں بتایا گیا ہے کہ 600سے زائد مہاجر افراد سے لدا بحری جہاز، جس میں 350بدقسمت پاکستانی نوجوان بھی سوار تھے، یونان کے سمندر میں ڈُوبنے سے بچایا جا سکتا تھا لیکن بچانے والی نزدیکی ساحلی قوتوں نے دانستہ غفلت برتی اور جہاز ڈُوب گیا ۔

نیویارک ٹائمز لکھتا ہے : ''9جون 2023 کو تبروک (لیبیا) سے روانہ ہونیوالے اس بدقسمت بحری جہاز (Adriana (بارے ہمیں جتنی بھی بحری، ہوائی اور سیٹیلائیٹ معلومات ملی ہیں، سب یہی بتاتی ہیں کہ بد قسمت بحری جہاز کے بیشتر افراد کو بآسانی بچایا جا سکتا تھا مگر۔۔۔''

پاکستان کے سیکڑوں نوجوان بھی اِس بحری جہاز میں ڈُوب کر غرقاب ہو گئے ۔ دو چار دن ہمارے اخبارات و ٹی ویز میں اِس بارے چرچا اورسوگ رہا ۔ اب مگر سب میڈیا ڈُوب کر جاں بحق ہونے والوں کو یوں بھول بھال گیا ہے جیسے کبھی یہ المناک سانحہ وقوع پذیر ہُوا ہی نہیں تھا ۔

عالمی میڈیا مگر اِس عظیم انسانی المئے کو فراموش کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ یکم جون کو ''نیویارک ٹائمز'' میں شایع ہونے والا مذکورہ بالا تفصیلی نیوز آرٹیکل اِس کا ایک ثبوت ہے ۔

رنج ، الم اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ 12جماعتی اتحادی حکومت اور اِس حکومت کے وزیر اعظم نے ابھی تک یونانی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت سے باقاعدہ، سرکاری سطح پر،احتجاج کرنے کا تکلف ہی گوارا نہیں کیا ہے اور نہ ہی یہ پوچھنے کی جسارت کی ہے کہ پاکستان کے 350شہری تمہاری بحریہ اور کمرشل بحری جہازوں کی موجودگی میں کیوں ڈُوب گئے ؟

کیا ایسی حکومت، ایسے حکمران اور اِس جیسا ملک اپنے اووَرسیز پاکستانیوں سے کہہ سکتا ہے کہ پاکستان کی مالی نبضیں ڈُوب رہی ہیں اور اِسے ریسکیو کرنے کے لیے اپنا اپنا زرِ مبادلہ پاکستان بھجوائیں؟

پاکستان کی ہر حکومت سمندر پار پاکستانیوں کو ''اپنا اثاثہ'' قرار دیتی ہے۔ بنیادی اور ضروری سوال مگر یہ ہے کہ ہر حکومت اِن اووَرسیز پاکستانیوں کو ''اپنا اثاثہ'' کیوں قرار دیتی ہے ؟ کیا پاکستان کی حکومتیں سمندر پار محنت مزدوری کے لیے جانے والے پاکستانیوں پر اپنا سرمایہ خرچ کرتی ہیں ؟

انھیں سمندر پار بھجوانے کے لیے سہولیات فراہم کرتی ہیں؟ اووَرسیز پاکستانیوں کی فلاح و بہبود کے لیے نظر آنے والا کوئی حکومتی پروجیکٹ آج تک بروئے کار آیا ہے ؟ اگر اِن سب سوالوں کا جواب نفی میں ہے تو پھر اووَرسیز پاکستانیوں پر کسی بھی پاکستانی حکومت اور کسی بھی پاکستانی حکمران کا کیا احسان ہے ؟

جب یہ اووَرسیز پاکستانی وطن واپسی پر کسی بھی پاکستانی ائر پورٹ پر اُترتے ہیں تو ائر پورٹس پر تعینات سرکاری و غیر سرکاری عملہ، بالعموم، اُن سے توہین آمیز سلوک کرتا ہے۔ ان سے رشوتیں وصول کرنے کی کوشش میں اُن کی کھلڑی اُدھیڑنے کی قابلِ مذمت اور شرمناک حرکتیں کی جاتی ہے۔بہانے بہانے سے اُن کا قیمتی سامان ضبط کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔

اووَرسیز پاکستانی اپنے وطن میں سرمایہ کرتے ہیں تو اُن کے سرمائے غصب کرنے کی دانستہ کوشش کی جاتی ہے ، یہ سوچ اور سمجھ کر کہ وہ تو بیرونِ ملک بیٹھے ہیں ، ہمیں کون پوچھے گا؟ ابھی چند دن پہلے لاہور کی ایک معروف مارکیٹ میں ایک بڑے نجی ادارے کے دفتر کے سامنے پاکستانی نژاد کینیڈین پلے کارڈز اُٹھائے احتجاج کرتے پائے گئے ۔

وہ سب آنسو بہاتے ہُوئے احتجاج کر رہے تھے کہ اُن سے پلاٹوں کے نام پر کروڑوں روپے وصول کیے گئے ، وصولی کی سند کی صورت میں انھیں نجی تعمیراتی کمپنی کی جانب سے پلاٹ الاٹمنٹس لیٹرز بھی جاری کیے گئے مگر اب انھیں چٹا جواب دے دیا گیا کہ کمپنی کے پاس اُن کا کوئی پلاٹ ہے نہ انھوں نے کبھی کوئی پیسہ دھیلہ ہی ادا کیا ۔

ایسی سیکڑوں شرمناک، المناک اور افسوسناک داستانیں ملک بھر میں پھیلی ہیں۔ کوئی مگر مظلوم اووَرسیز پاکستانیوں کے آنسو نہیں پونچھتا۔ خود میرے ایک قریبی رشتہ دار ( جو سعودی عرب میں ملازمت کر رہے ہیں) نے لاہور میں پلاٹ لے کر مکان بنانے کا آغاز کیا تو پہلے ہی دن قبضہ مافیا بندوقیں اور بندے لے کر آدھمکا ۔ دعوے سے کہا: یہ پلاٹ تو ہمارا ہے۔

جب جھگڑا بڑھا تو اہلِ محلہ کی موجودگی میں مافیا گروپ کو پلاٹ کی رجسٹری اور دوسرے کاغذات دکھائے مگر وہ مُصر تھے کہ10لاکھ روپے دو گے تو ٹلیں گے۔ اور جب طاقتور ہاتھ بروئے کار آئے تو وہ فرار ہو گئے ۔

اُن کی پشتی بان پولیس بھی رفو چکر ہو گئی ۔ مگر ایسے ظالم مافیاز کے خلاف کتنے اووَرسیز پاکستانیوں کو یہ ڈنڈی پٹی طاقت حاصل ہے ؟اِنہی اووَرسیز پاکستانیوں سے ہر حکومتِ پاکستان اور ہر حکمران ترلے منت کرتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ زرِ مبادلہ پاکستان بھجوائیں ۔

سوال مگر یہ ہے کہ یہ سمندر پاکستانی پاکستان کے سرکاری و غیر سرکاری کارندوں،لینڈ مافیاز اور ہر حکمران سے زیادتیاں اور توہین آمیز سلوک کروانے کے بعد کیوں اپنی محنت مزدوری سے کمایا گیا پیسہ پاکستان بھجوائیں؟ کیا پی ٹی آئی کے سربراہ نے ایک بار ٹھیک ہی نہیں کہا تھا کہ '' اووَرسیز پاکستانی بینکوں کے زریعے نہیں بلکہ ہنڈی کے زریعے اپنی رقوم پاکستان بھجوائیں؟۔'' یہ نہیں ہو سکتا کہ سمندر پاکستانی اپنے خون پسینے کی کمائی کا پیسہ پاکستان بھجوائیں اور اس زرِ مبادلہ پر پاکستان کی اشرافیہ اور مراعات یافتہ سرکاری و غیر سرکاری طبقات عیاشیاں کریں۔

پاکستان کی یہ اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقات اپنا سرمایہ، جائیدادیں اور اولادیں تو بیرونِ پاکستان لے جاتے ہیں اور بیرونِ ملک پاکستان کے محنتی طبقات کو ''حب الوطنی'' کا واسطہ دے کر کہا جاتا ہے کہ اپنی رقوم پاکستان بھجوائیں ۔

اووَرسیز پاکستانیوں کی بیٹیوں کو شادی کے نام پر جھانسہ دے کر پاکستان لا کر ذبح کر دیا جاتا ہے مگر مقتولین کی کوئی آہ حکومتِ پاکستان ، پاکستانی حکمرانوں اور پاکستان کے انصاف کے ایوانوں کے کانوں تک نہیں پہنچتی۔

کبھی حکومتِ پاکستان نے اووَرسیز پاکستانیوں کی غصب شدہ جائیدادوں، سرمائے اور پلاٹوں کی بازیابی کے لیے ایک محکمہ بھی بنایا تھا مگر اس نے داد رسی کرنے کے بجائے بے حسی کی چادر اوڑھ لی ۔ ستم کی بات یہ بھی ہے کہ گزشتہ برسوں میں اِس ادارے کا سربراہ ایک ایسے پاکستانی امریکی کو بنا دیا جو خود نیویارک میں کئی سنگین الزامات کی زد میں رہا ہے ۔ مگر اس کا ''کریڈٹ'' یہ تھا کہ وہ امریکا میں معروف پاکستانی سیاستدانوں کا میزبان رہتا تھا ۔

پاکستان کی ایک مشہور سیاسی جماعت نے تو یہ ستم بھی ڈھایا کہ ایک ایسے پاکستانی نژاد امریکی کو سینیٹر بنا دیا جو مبینہ طور پر معروف معنوں میں منی لانڈرنگ کے کئی کیسز میں حکومتِ امریکا کو ماخوذ رہا تھا۔ ایسے دلگیر ماحول میں مجھے نیویارک سے ایک دوست کا طویل فون سُننے کو ملا ۔ کئی برس قبل وہ لاہور سے امریکا منتقل ہو گئے تھے ۔

انھوں نے افسردگی اور دل شکستگی سے کہا: '' برسوں پہلے امریکا آیا تھا تو پاکستان کی یاد میں دل اُداس رہتا تھا۔ اب مگر اللہ کا شکر ادا کرتا ہُوں کہ بھلے وقت میں پاکستان سے نکل آیا۔ پاکستان میں طلوع ہونے والا ہر سورج ہر غریب پاکستانی کے لیے اذیتیں اور مصائب لے کر طلوع ہوتا ہے۔ البتہ پاکستان کی بے تحاشہ سرکاری و غیر سرکاری اور ریٹائرڈ اشرافیہ مزے میں ہے ۔''

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں