آخر ہمارے لوگ ایسی دوا یہاں کیوں نہیں بناسکتے؟ ہم جانتے ہیں کہ یہاں انسان سستے ہیں، تمغوں والے پروفیسرز ہیں، انگریزی میں گفتگو کرنے والے بزنس مین ہیں۔ چلیے اس موضوع کو چھوڑ کر سمجھتے ہیں کہ ہماری بقرعید کے پہلے دن یعنی 29 جون 2023 کو امریکی ایف ڈی اے نے کون سی تھراپی منظور کی۔
خون پھر خون ہے گرتا ہے تو جم جاتا ہے۔ اگر نکلتے ہی نہ جمے تو سارا آتش و پارہ بہا لے جاتا ہے اور یوں جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ اللہ نے انسان کو احسن طریقے سے تراشا ہے۔ آنکھوں سے نظر نہ آنے والے ذرات خون کو جمانے میں مدد دیتے ہیں۔ ان ذرات کو بنانے والی نہ فیکٹری آنکھوں سے دیکھی جاسکتی ہے اور نہ ہی اس اہم ذرات (پروڈکٹ) کےلیے ضروری خام مال کی سپلائی کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ قدرتی مینوفیکچرنگ پروسیس پر قابو بھی خوب گہرا تہہ بہ تہہ ڈیزائن ہوا ہے۔ جنھیں اس خاکے کا بھرپور علم ہو، وہ ہی بعد ازاں نقص معلوم کرنے کے اہل ہوسکیں گے، وہی علاج میں لازوال کردار ادا کرسکتے ہیں۔ آگاہ رہیے کہ بے بسی، لاعلمی، نامعلوم کا امتزاج راہوں میں اس سفر کو بری طرح للکارتے ہیں۔ دنیا میں مخلص، دل اور صبر سے سچے کام کرنے والے عظیم لوگ موجود ہیں۔
ایسے مریضوں کو مستقل پروٹین کے ذرات انجکشن کے ذریعے دیے جاتے ہیں تاکہ بدقسمت مریضوں کی زندگی کی شمع جلتی رہے۔ اور اب اس سفر میں ایک نیا موڑ آیا، جب ایک امریکی کمپنی نے اس المناک بیماری (اکثر موروثی بیماری) کےلیے جین تھراپی ایک مضبوط جواب کی صورت لے کر آئی۔ روز روز کے انجکشن سے رہائی اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ جین تھراپی مریضوں میں کتنے عرصے تک موثر رہتی ہے، کیا کیا نئے معاملات سامنے ابھرتے ہیں۔ تین سال تک کے اعداد و شمار کمپنی کو کامیابی کا دعویٰ کرنے کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ اب یہ اعداد و شمار ان سے منسوب معلومات اور معلومات کی سالمیت سے جڑا ہوا علم، علم سے شعوری احساس کا تعلق آنے والے کل کا نقشہ کھینچے گا۔
اس جین تھراپی کی قیمت تقریباً 90 کروڑ پاکستانی روپے رکھی گئی ہے۔ ایک وائرس کا بے ضرر غلاف اس جین کو جسم میں پہنچانے کےلیے استعمال کیا جاتا ہے۔ جسم ہر بیرونی جارحیت پر دفاع کرتا ہے تو اس دفاعی ردعمل سے بچنے کےلیے دفاعی نظام کو دوا سے دبایا جاتا ہے۔ جین تھراپی کی ایک خوراک کافی ہے اور اس طرح جسم اسے اپنا جین تسلیم کرلیتا ہے۔ کمپنی نے قانونی وعدہ کیا ہے کہ اگر مریض کو چار سال کے اندر اس نے اثر کرنا چھوڑا یعنی وہ خون کو جمانے میں مدد دینے والا لازمی ذرات کم ہوئے تو وہ سارے پیسے واپس کرے گی۔ وہاں امریکا میں قانونی وعدہ وفا ہوتا ہے۔
کاش کہ یہ دوا ہر مریض کےلیے مفت دستیاب ہو۔ درد کا یہ بوجھ انسانیت اٹھائے۔ کاش کہ ہمارے ملک میں بچوں کو کام کرنے دیا جائے، نامور اداروں کی جعلی قیادت اور ان کے قاتلانہ منصوبوں سے ملک کو آزاد کیا جائے۔ احساس و علم یہاں راج کرے۔ درد کا مداوا ہو۔ دنیا کی کامیابی میں شراکت داری ہو۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔