دہشت گردانہ نظریات کا خاتمہ ناگزیر
دہشت گردی کے مسئلہ پر قابو پانے کے لیے بلاشبہ حالات کو بدلنے کے لیے بنیادی اقدامات کی ضرورت ہے
بلوچستان میں دہشت گردوں کے حملے، میجر سمیت چھ اہلکار شہید، ایک حملہ آور ہلاک، جب کہ ڈی آئی خان آپریشن میں تین دہشت گرد مارے گئے۔
بلوچستان کے ضلع شیرانی کے علاقے دھانہ سر میں دہشت گردوں کے حملے کے بعد فائرنگ کے تبادلے میں ایف سی کا ایک اور پولیس کے تین اہلکار شہید ہوگئے، جب کہ ہوشاب کے علاقے میں سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان شدید فائرنگ کے تبادلے میں میجر سمیت دو اہلکار شہید ہوگئے۔
پوری قوم سلام پیش کرتی ہے، ان راہ حق کے شہیدوں کو جنھوں نے اپنی جانیں وطن پر نچھاورکی ہیں۔
گزرے ڈیڑھ برس سے دہشت گردوں نے دوبارہ اپنی کارروائیوں کا آغاز کر دیا ہے، بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے علاقے خصوصی طور جب کہ وطن عزیزکے کئی چھوٹے، بڑے شہر بھی دوبارہ دہشت گردی کا شکار ہیں، جب کہ سیکیورٹی فورسز کے جوانوں کی شہادتیں بھی مسلسل اورکافی تعداد میں ہو رہی ہیں۔
سیکیورٹی فورسز اور تحقیقاتی ادارے یقیناً ان دہشت گردوں کے سہولت کاروں اور ان کو بھیجنے والوں تک جلد ازجلد پہنچ جائیں گے اور بالآخر امن کے ان دشمنوں کو بھی کیفرکردار تک پہنچنا پڑے گا مگر سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اِس وقت سیاسی قیادت قریباً ایک سال سے سیاسی معاملات میں اِس قدر الجھی ہوئی نظر آتی ہے کہ دوسرے اہم معاملات اِس وقت ترجیحات میں بہت نیچے جاچکے ہیں خواہ وہ جان لیوا مہنگائی ہو یا پھر دہشت گردی کے پے در پے واقعات۔
پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی راہ میں حائل رکاوٹیں دورکرنے کے لیے حکومت کو بلوچستان کی سیاسی قیادت کو اعتماد میں لینا ہوگا۔ بلوچستان میں موجودہ شورش اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتی جب تک یہاں اٹھائے گئے اقدامات میں صوبے کے تحفظات کو زیر غور نہیں لایا جاتا۔ عسکریت پسند تنظیمیں حملوں میں تیزی لا کر ریاستی رٹ کو کمزورکرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال سے بلوچستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ بلوچستان میں توانائی، سمیت دیگر مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کر نے والی غیرملکی کمپنیاں سیکیورٹی امور پر یہاں کافی تشویش کا شکار ہیں۔ ایک طرف عسکریت پسندوں کے حملوں میں تیز ی آرہی ہے اور دوسری طرف غیر یقینی صورتحال کے باعث حکومتی کارکردگی پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔
گزشتہ دو سالوں کے دوران کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے پولیس اہلکاروں سمیت سیکیورٹی اداروں پر حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
خیبر پختون خوا پولیس کے اعداد وشمار کے مطابق سال 2022 میں صوبے میں دہشت گردی کے متعدد واقعات میں 118 اہلکار شہید ہوئے۔ یہ شہادتیں زیادہ تر صوبے کے جنوبی اضلاع میں ٹی ٹی پی کی جانب سے کیے گئے حملوں میں ہوئیں۔
تین برس قبل تک ٹی ٹی پی اپنے اندرونی اختلافات اور دھڑے بندیوں کی وجہ سے کافی کمزور ہوگئی تھی اور وہ نئے شدت پسند بھرتی کرنے میں کافی حد تک ناکام رہی تھی، لیکن افغانستان میں طالبان حکومت کے آنے کے بعد سے ٹی ٹی پی ایک مضبوط قوت بن کر سامنے آئی ہے۔
ہمارے ملک میں ہر ہولناک دہشت گرد حملے کے بعد، حکمرانوں کی طرف سے یہ دعوے کیے جاتے ہیں کہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے گا اور دہشت گردوں کے خلاف بے رحمانہ آپریشن کیا جائے گا، لیکن دہشت گردی کے سنگین مسئلہ کے حل پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا جاتا۔ یادش بخیر ! ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے نیشنل ایکشن پلان منظورکیا تھا۔
اس میں، ممنوعہ تنظیموں کے قلع قمع، فوجی عدالتوں کے قیام، مسلح تنظیموں پر پابندی، نفرت آمیز تقریروں اور مذہبی انتہا پسندی کی روک تھام کے اقدامات تجویز کیے گئے تھے، لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس اہم نکتہ کو نظر اندازکردیا گیا کہ دہشت گردی کا مسئلہ بنیادی طور پر نظریات اور حالات کی کوکھ سے جنم لیتا ہے۔
تشدد کی اختراع ذہنوں سے شروع ہوتی ہے، دہشت گردی بلا شبہ کسی نہ کسی انداز سے جاری رہے گی جب تک دہشت گردی کے پس پشت نظریہ کا اس کے خلاف نظریہ سے مقابلہ نہ کیا جائے اور ذہنوں کو نہ بدلا جائے یا پھر دہشت گردی، حالات سے پروان چڑھتی ہے۔
ان حالات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جن کے باعث دہشت گردی فروغ پاتی ہے۔پس دہشت گردی کا حل ذہنوں کو بدلنے اور حالات میں تبدیلی میں مضمر ہے۔ ذہنوں کو بدلنے کا یہ عمل تعلیمی اداروںسے شروع کیا جائے ،طلبا کو بتایا جائے کہ اسلام امن وآشتی کا مذہب ہے اور وہ کسی بھی طور دہشت گردی کی حمایت نہیں کرتا۔
مسلح دہشت گردی کا کماحقہ خاتمہ اسی صورت ممکن ہے جب اس رویہ کو جنم دینے والے نظریات وافکار کو بھی ان کی بنیادوں سے ختم کیا جائے۔
جب جسم کا کوئی حصہ خراب ہو جائے اور علاج معالجے کے باوجود درست نہ ہو اور جسم کے لیے ناسور بن جائے تو ایسی صورت میں باقی جسم کی صلاحیت کو برقرار رکھنے کا تقاضا ہے کہ اس ناسورکو کاٹ کر جسم سے علیحدہ کر دیں۔
امن کے نصاب کو آج عام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہر سطح پر دہشت گردی کے نظریات کو ختم کیا جا سکے کیونکہ دہشت گردی کی اس خطرناک قسم کا خاتمہ اسلحے کے ذریعہ نہیں بلکہ علمی و فکری حکمت عملی اور ذہنوں کی تبدیلی سے ممکن ہو گا اور اس کے لیے کوئی ایک فرقہ، کوئی ایک سیاسی جماعت یا گروہ اس سے نبرد آزما نہیں ہو سکتا بلکہ قومی سطح پر تعصب سے بالا ہوکر ان معتدل نظریات کو قبول بھی کرنا ہوگا اور عام بھی۔ پاک افواج نے قومی فریضہ سمجھتے ہوئے ضربِ عضب کے ذریعے دہشت گردی کے عسکریت ونگز کا خاتمہ کر دیا ہے۔
اب ہمارا فرض ہے کہ ضربِ علم کے ذریعے دہشت گردانہ نظریات کا خاتمہ کر کے ہمیشہ کے لیے دہشتگردی کو دفن کر دیں۔اس کے لیے ناگزیر ہے کہ علماء کرام ،اساتذہ اور دانشور طبقات آگے آئیں اور معاشرے سے دہشت گردی کے ناسور کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے سول انتظامیہ بھی اپنی ذمے داریاں نبھائے، ضرورت ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر من و عن عمل کیا جائے اور پوری یکسوئی کے ساتھ اِس عفریت کو قابو کیا جائے وگرنہ دہشت گردی کا عفریت پھر معصوم اور قیمتی جانوں کو نگلنا شروع ہوجائے گا، دہشت گردی کی بیس سالہ جنگ میں ہم نے اسی ہزار سے زائد جانیں قربان کیں، ہر شعبہ زندگی بری طرح متاثر ہوا، باوجود اِس کے کہ ہم دہشت گردی کا شکار تھے۔
ہمیں روز جنازے اٹھانے پڑ رہے تھے لیکن ماسوائے اظہار افسوس کے، عالمی برادری نے اِس مشکل وقت سے باہر نکلنے کے لیے ہماری اُس طرح مدد نہیں کی، جس طرح کی جانی چاہیے تھی، خصوصاً وہ بھی پیچھے رہے جو دہشت گردی کے خلاف عالمی سطح پر کارروائیاں کرنے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے، لہٰذا ہم نے اپنے محدود وسائل کے ساتھ تن تنہا دہشت گردی کی جنگ میں کامیابی حاصل کی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ ہمارا کون دشمن ہے اور وہ کن کن کارروائیوں میں پس پردہ ملوث رہا ہے، لہٰذا واضح رہے کہ ہم نے دہشت گردی کو پہلے بھی قوت بازو اور جذبہ ایمانی کے ساتھ شکست دی تھی، ہم آج بھی اسی جذبے کے ساتھ دہشت گردوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
فقط ضرورت اِس امرکی ہے کہ سیاسی قائدین ایسے واقعات کے بعد اظہار تعزیت کے بجائے، واقعات اور اِن کے اسباب کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے مل بیٹھیں، جس طرح سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد سیاسی قیادت یکسو ہوئی تھی، اگر ہم سیاسی جوڑ توڑ اور حکومتیں گرانے بچانے میں لگے رہے تو کئی اہم مسائل کی طرح یہ اہم مسئلہ بھی ناسور بنتا جائے گا، مگر اِس کو ناسور نہیں بننے دینا کیونکہ ہم اپنے شہدا کی قربانیاں رائیگاں جانے نہیں دیں گے۔
دہشت گردی کے مسئلہ پر قابو پانے کے لیے بلاشبہ حالات کو بدلنے کے لیے بنیادی اقدامات کی ضرورت ہے جن میں تعلیم کی سہولتیں عام کرنا، بے روزگاری کو ختم کرنے کے لیے موثر اقدامات اٹھانا، نا انصافی کے خاتمے کے لیے عدلیہ کے نظام کی اصلاحات کا نفاذ اور عوام کے پسماندہ طبقوں میں، غربت اور احساس محرومی کا خاتمہ لازمی ہے۔
پاکستانی قوم دہشت گردی کو اُس کی جڑوں سے اکھاڑ پھینکنا چاہتی ہے۔ دہشت گرد بہرکیف حملہ آور ہونے کی سعی کرتے ہیں لیکن سیکیورٹی اداروں اور عوام کی جانب سے انھیں جس بروقت اور جارحانہ ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ پاکستانی قوم کی جانب سے ایک واضح پیغام ہے کہ وہ اب شدت پسندی کو اس دھرتی میں پنپنے نہیں دے گی۔
بلوچستان کے ضلع شیرانی کے علاقے دھانہ سر میں دہشت گردوں کے حملے کے بعد فائرنگ کے تبادلے میں ایف سی کا ایک اور پولیس کے تین اہلکار شہید ہوگئے، جب کہ ہوشاب کے علاقے میں سیکیورٹی فورسز اور دہشت گردوں کے درمیان شدید فائرنگ کے تبادلے میں میجر سمیت دو اہلکار شہید ہوگئے۔
پوری قوم سلام پیش کرتی ہے، ان راہ حق کے شہیدوں کو جنھوں نے اپنی جانیں وطن پر نچھاورکی ہیں۔
گزرے ڈیڑھ برس سے دہشت گردوں نے دوبارہ اپنی کارروائیوں کا آغاز کر دیا ہے، بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے علاقے خصوصی طور جب کہ وطن عزیزکے کئی چھوٹے، بڑے شہر بھی دوبارہ دہشت گردی کا شکار ہیں، جب کہ سیکیورٹی فورسز کے جوانوں کی شہادتیں بھی مسلسل اورکافی تعداد میں ہو رہی ہیں۔
سیکیورٹی فورسز اور تحقیقاتی ادارے یقیناً ان دہشت گردوں کے سہولت کاروں اور ان کو بھیجنے والوں تک جلد ازجلد پہنچ جائیں گے اور بالآخر امن کے ان دشمنوں کو بھی کیفرکردار تک پہنچنا پڑے گا مگر سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اِس وقت سیاسی قیادت قریباً ایک سال سے سیاسی معاملات میں اِس قدر الجھی ہوئی نظر آتی ہے کہ دوسرے اہم معاملات اِس وقت ترجیحات میں بہت نیچے جاچکے ہیں خواہ وہ جان لیوا مہنگائی ہو یا پھر دہشت گردی کے پے در پے واقعات۔
پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی راہ میں حائل رکاوٹیں دورکرنے کے لیے حکومت کو بلوچستان کی سیاسی قیادت کو اعتماد میں لینا ہوگا۔ بلوچستان میں موجودہ شورش اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتی جب تک یہاں اٹھائے گئے اقدامات میں صوبے کے تحفظات کو زیر غور نہیں لایا جاتا۔ عسکریت پسند تنظیمیں حملوں میں تیزی لا کر ریاستی رٹ کو کمزورکرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال سے بلوچستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ بلوچستان میں توانائی، سمیت دیگر مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کر نے والی غیرملکی کمپنیاں سیکیورٹی امور پر یہاں کافی تشویش کا شکار ہیں۔ ایک طرف عسکریت پسندوں کے حملوں میں تیز ی آرہی ہے اور دوسری طرف غیر یقینی صورتحال کے باعث حکومتی کارکردگی پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔
گزشتہ دو سالوں کے دوران کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی جانب سے پولیس اہلکاروں سمیت سیکیورٹی اداروں پر حملوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
خیبر پختون خوا پولیس کے اعداد وشمار کے مطابق سال 2022 میں صوبے میں دہشت گردی کے متعدد واقعات میں 118 اہلکار شہید ہوئے۔ یہ شہادتیں زیادہ تر صوبے کے جنوبی اضلاع میں ٹی ٹی پی کی جانب سے کیے گئے حملوں میں ہوئیں۔
تین برس قبل تک ٹی ٹی پی اپنے اندرونی اختلافات اور دھڑے بندیوں کی وجہ سے کافی کمزور ہوگئی تھی اور وہ نئے شدت پسند بھرتی کرنے میں کافی حد تک ناکام رہی تھی، لیکن افغانستان میں طالبان حکومت کے آنے کے بعد سے ٹی ٹی پی ایک مضبوط قوت بن کر سامنے آئی ہے۔
ہمارے ملک میں ہر ہولناک دہشت گرد حملے کے بعد، حکمرانوں کی طرف سے یہ دعوے کیے جاتے ہیں کہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے گا اور دہشت گردوں کے خلاف بے رحمانہ آپریشن کیا جائے گا، لیکن دہشت گردی کے سنگین مسئلہ کے حل پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا جاتا۔ یادش بخیر ! ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے نیشنل ایکشن پلان منظورکیا تھا۔
اس میں، ممنوعہ تنظیموں کے قلع قمع، فوجی عدالتوں کے قیام، مسلح تنظیموں پر پابندی، نفرت آمیز تقریروں اور مذہبی انتہا پسندی کی روک تھام کے اقدامات تجویز کیے گئے تھے، لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس اہم نکتہ کو نظر اندازکردیا گیا کہ دہشت گردی کا مسئلہ بنیادی طور پر نظریات اور حالات کی کوکھ سے جنم لیتا ہے۔
تشدد کی اختراع ذہنوں سے شروع ہوتی ہے، دہشت گردی بلا شبہ کسی نہ کسی انداز سے جاری رہے گی جب تک دہشت گردی کے پس پشت نظریہ کا اس کے خلاف نظریہ سے مقابلہ نہ کیا جائے اور ذہنوں کو نہ بدلا جائے یا پھر دہشت گردی، حالات سے پروان چڑھتی ہے۔
ان حالات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جن کے باعث دہشت گردی فروغ پاتی ہے۔پس دہشت گردی کا حل ذہنوں کو بدلنے اور حالات میں تبدیلی میں مضمر ہے۔ ذہنوں کو بدلنے کا یہ عمل تعلیمی اداروںسے شروع کیا جائے ،طلبا کو بتایا جائے کہ اسلام امن وآشتی کا مذہب ہے اور وہ کسی بھی طور دہشت گردی کی حمایت نہیں کرتا۔
مسلح دہشت گردی کا کماحقہ خاتمہ اسی صورت ممکن ہے جب اس رویہ کو جنم دینے والے نظریات وافکار کو بھی ان کی بنیادوں سے ختم کیا جائے۔
جب جسم کا کوئی حصہ خراب ہو جائے اور علاج معالجے کے باوجود درست نہ ہو اور جسم کے لیے ناسور بن جائے تو ایسی صورت میں باقی جسم کی صلاحیت کو برقرار رکھنے کا تقاضا ہے کہ اس ناسورکو کاٹ کر جسم سے علیحدہ کر دیں۔
امن کے نصاب کو آج عام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہر سطح پر دہشت گردی کے نظریات کو ختم کیا جا سکے کیونکہ دہشت گردی کی اس خطرناک قسم کا خاتمہ اسلحے کے ذریعہ نہیں بلکہ علمی و فکری حکمت عملی اور ذہنوں کی تبدیلی سے ممکن ہو گا اور اس کے لیے کوئی ایک فرقہ، کوئی ایک سیاسی جماعت یا گروہ اس سے نبرد آزما نہیں ہو سکتا بلکہ قومی سطح پر تعصب سے بالا ہوکر ان معتدل نظریات کو قبول بھی کرنا ہوگا اور عام بھی۔ پاک افواج نے قومی فریضہ سمجھتے ہوئے ضربِ عضب کے ذریعے دہشت گردی کے عسکریت ونگز کا خاتمہ کر دیا ہے۔
اب ہمارا فرض ہے کہ ضربِ علم کے ذریعے دہشت گردانہ نظریات کا خاتمہ کر کے ہمیشہ کے لیے دہشتگردی کو دفن کر دیں۔اس کے لیے ناگزیر ہے کہ علماء کرام ،اساتذہ اور دانشور طبقات آگے آئیں اور معاشرے سے دہشت گردی کے ناسور کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے سول انتظامیہ بھی اپنی ذمے داریاں نبھائے، ضرورت ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر من و عن عمل کیا جائے اور پوری یکسوئی کے ساتھ اِس عفریت کو قابو کیا جائے وگرنہ دہشت گردی کا عفریت پھر معصوم اور قیمتی جانوں کو نگلنا شروع ہوجائے گا، دہشت گردی کی بیس سالہ جنگ میں ہم نے اسی ہزار سے زائد جانیں قربان کیں، ہر شعبہ زندگی بری طرح متاثر ہوا، باوجود اِس کے کہ ہم دہشت گردی کا شکار تھے۔
ہمیں روز جنازے اٹھانے پڑ رہے تھے لیکن ماسوائے اظہار افسوس کے، عالمی برادری نے اِس مشکل وقت سے باہر نکلنے کے لیے ہماری اُس طرح مدد نہیں کی، جس طرح کی جانی چاہیے تھی، خصوصاً وہ بھی پیچھے رہے جو دہشت گردی کے خلاف عالمی سطح پر کارروائیاں کرنے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے، لہٰذا ہم نے اپنے محدود وسائل کے ساتھ تن تنہا دہشت گردی کی جنگ میں کامیابی حاصل کی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ ہمارا کون دشمن ہے اور وہ کن کن کارروائیوں میں پس پردہ ملوث رہا ہے، لہٰذا واضح رہے کہ ہم نے دہشت گردی کو پہلے بھی قوت بازو اور جذبہ ایمانی کے ساتھ شکست دی تھی، ہم آج بھی اسی جذبے کے ساتھ دہشت گردوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
فقط ضرورت اِس امرکی ہے کہ سیاسی قائدین ایسے واقعات کے بعد اظہار تعزیت کے بجائے، واقعات اور اِن کے اسباب کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے مل بیٹھیں، جس طرح سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد سیاسی قیادت یکسو ہوئی تھی، اگر ہم سیاسی جوڑ توڑ اور حکومتیں گرانے بچانے میں لگے رہے تو کئی اہم مسائل کی طرح یہ اہم مسئلہ بھی ناسور بنتا جائے گا، مگر اِس کو ناسور نہیں بننے دینا کیونکہ ہم اپنے شہدا کی قربانیاں رائیگاں جانے نہیں دیں گے۔
دہشت گردی کے مسئلہ پر قابو پانے کے لیے بلاشبہ حالات کو بدلنے کے لیے بنیادی اقدامات کی ضرورت ہے جن میں تعلیم کی سہولتیں عام کرنا، بے روزگاری کو ختم کرنے کے لیے موثر اقدامات اٹھانا، نا انصافی کے خاتمے کے لیے عدلیہ کے نظام کی اصلاحات کا نفاذ اور عوام کے پسماندہ طبقوں میں، غربت اور احساس محرومی کا خاتمہ لازمی ہے۔
پاکستانی قوم دہشت گردی کو اُس کی جڑوں سے اکھاڑ پھینکنا چاہتی ہے۔ دہشت گرد بہرکیف حملہ آور ہونے کی سعی کرتے ہیں لیکن سیکیورٹی اداروں اور عوام کی جانب سے انھیں جس بروقت اور جارحانہ ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ پاکستانی قوم کی جانب سے ایک واضح پیغام ہے کہ وہ اب شدت پسندی کو اس دھرتی میں پنپنے نہیں دے گی۔