پارلیمانی سیاست پارلیمنٹ اور جمہوری تقاضے
ہمارا یہ جمہوری سفر آج بھی کئی طرح کے داخلی اور خارجی چیلنجز میں گھرا ہوا ہے
پاکستان میں جمہوریت یا پارلیمانی بالادستی کی جنگ آج بھی اپنے ارتقائی سفر سے گزر رہی ہے۔ ہمارا یہ جمہوری سفر آج بھی کئی طرح کے داخلی اور خارجی چیلنجز میں گھرا ہوا ہے۔
ہم اپنے اس ارتقائی جمہوری سفر میں '' پارلیمانی نظام اور پارلیمنٹ '' کی فوقیت کی بنیاد پر آگے بڑھنے کا ایجنڈا رکھتے ہیں۔ لیکن ان وجوہات کا دیانت داری اور بغیر کسی تعصب کے سنجیدہ انداز میں اس تجزیہ کی ضرورت ہے کہ وہ کونسے محرکات یا عوامل ہیں جن کو اختیار کرکے ہم اپنے جمہوری پارلیمانی سفر میں وہ اہداف حاصل نہ کرسکے جس کا ہم عمومی طور پر اپنے آئین ، قانون، جمہوریت اور سیاست سے جڑے بنیادی اصولوں میں کرتے ہیں۔
پارلیمانی نظام میں جو چیلنجز ہیں اس کے ذمے داروں کا ہم کیونکر سیاسی احتساب نہیں کرسکے اور کیا وجہ ہے کہ ہمیں اپنے اندر موجود خرابیوں کی اصلاح کے لیے اصلاحات کے ایجنڈے کو ترجیحی عمل کے ساتھ آگے نہیں بڑھاسکے۔
آج ہماری سیاست ، جمہوریت ، پارلیمنٹ اور پارلیمانی طرز عمل پر جو تنقید ہے یا جو عملدرآمد کے تناظر میں ہم نے اختیار کیا ہے وہ مستقبل کے امکانات کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔معروف قانون دان ، سیاست دان ، مصنف اور دانشور ایس ایم ظفر علمی و فکری حلقوںمیں کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ 90برس سے زائد عمر پانے والے ایس ایم ظفر آج بھی خود کو لکھنے ، پڑھنے کے معاملات تک محدود کرکے مختلف کتابوں کی صورت میں اپنا سیاسی ، قانونی اور علمی و فکری تجربو ں کو لوگوں کے سامنے پیش کررہے ہیں۔
ایس ایم ظفر ان لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے ہماری سیاسی، قانونی یا حکمرانی کی تاریخ کے کئی پہلووں کو نہ صرف قریب سے دیکھا ہے بلکہ کئی حوالوں سے وہ خود بھی اس نظام اور واقعات کا حصہ رہے ہیں۔
پچھلے دنوں ایس ایم ظفر سے ایک تفصیلی ملاقات ہوئی تو انھوں نے اپنی حالیہ نئی کتاب ''پارلیمنٹ بنام پارلیمنٹ '' تحفہ میں دی جسے قلم فاونڈیشن نے شایع کیا ہے ۔یہ کتاب اگر کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ ہمارے پارلیمنٹ ، پارلیمانی سیاست اور اس سے جڑے انداز سیاست فعالیت پر مبنی پارلیمانی کردار، پارلیمانی کمیٹیوں کی فعالیت اور جوابدہی، اسپیکرز، وزرا کا کردار، پارلیمانی نظام پر اتفاق رائے، اختیارات کی تقسیم، قانون سازی، ریاست کے تین اہم ستون مقننہ ، انتظامیہ اور عدلیہ، پارلیمانی یا صدارتی نظام کی بحث، ہارس ٹریڈنگ، قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کا کردار، اٹھارویں ترمیم اور نیا عمرانی معاہدہ۔ میثاق جمہوریت مقامی حکومتوں ،مملکت کے چوتھے ستون پریس کی آزادی یا آزادی اظہار، فیک نیوز ، پارلیمانی جمہوریت میں عورتوں کا کردار اور مخصوص نشستیں ، آمرانہ ریاست بمقابلہ جمہوری ریاست سمیت دیگر موضوعات کا بڑی خوبصورتی سے احاطہ کیا گیا ہے۔
بقول سینٹر فرحت اللہ بابر جن کا تعلق پیپلزپارٹی سے ہے وہ کہتے ہیں کہ '' یہ کتاب پورے پارلیمانی نظام کی موجودہ شکل اور ا س کے اصلی چہرہ کا ایک تقابلی جائزہ پیش کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ وہ کونسی وجوہات ہیں جن کی بنا پر یہ نظام اپنی پوری صلاحیت کو بروئے کار نہ لاسکا،کتاب کا انداز بیان تعمیری ہے، تنقیدی نہیں اور سامان غوروفکر ہے۔دل سے نکلی ہوئی آواز ہے ، ''دل سے جوبات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے '' کے مصداق پر اثر ہے ۔''
ایس ایم ظفر پارلیمنٹ میں موجود پارلیمانی زبان و بیان پر بھی رنجیدہ ہیں اور ان کے بقول جس طرح سے ہم الزام تراشیوں میں ایک سے بڑھ کر ایک منفی اور ذاتیات پر مبنی کردار کشی کو بنیاد بنا کر غدار، کافر ، چور، ڈاکو ، منافق جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں وہ پارلیمانی سیاست کے خلاف ہے اور اس سے جمہوری نظام میں سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہوتا ہے جو بعد میں سیاسی دشمنی کا رخ اختیار کرلیتا ہے ۔
عورتوں کی سیاسی عمل میں شمولیت پر ایس ایم ظفر کہتے ہیں کہ '' عورتوں کی سیاسی عمل میں شمولیت اپنے آپ میں ایک سماجی ، معاشی اور سیاسی فائدہ ہے ، یہ جمہوریت اور صنفی مساوات کے لیے اہم ہے ۔ترقی پزیر ممالک میں جہاں خواتین پارلیمنٹیرین کا زیادہ حصہ ہے وہاں جنسی ہراسانی ، عصمت دری ،طلاق اور گھریلو تشدد سے متعلق جامع قوانین پاس کرنے کا امکان زیادہ پایا گیا ہے اور اس قانون سازی کے بہت اچھے نتائج برآمد ہوئے ہیں ۔'' یہ کتاب اچھی اور جامع ہے اور اس کا مطالعہ ضرور کیا جانا چاہیے۔
ہم اپنے اس ارتقائی جمہوری سفر میں '' پارلیمانی نظام اور پارلیمنٹ '' کی فوقیت کی بنیاد پر آگے بڑھنے کا ایجنڈا رکھتے ہیں۔ لیکن ان وجوہات کا دیانت داری اور بغیر کسی تعصب کے سنجیدہ انداز میں اس تجزیہ کی ضرورت ہے کہ وہ کونسے محرکات یا عوامل ہیں جن کو اختیار کرکے ہم اپنے جمہوری پارلیمانی سفر میں وہ اہداف حاصل نہ کرسکے جس کا ہم عمومی طور پر اپنے آئین ، قانون، جمہوریت اور سیاست سے جڑے بنیادی اصولوں میں کرتے ہیں۔
پارلیمانی نظام میں جو چیلنجز ہیں اس کے ذمے داروں کا ہم کیونکر سیاسی احتساب نہیں کرسکے اور کیا وجہ ہے کہ ہمیں اپنے اندر موجود خرابیوں کی اصلاح کے لیے اصلاحات کے ایجنڈے کو ترجیحی عمل کے ساتھ آگے نہیں بڑھاسکے۔
آج ہماری سیاست ، جمہوریت ، پارلیمنٹ اور پارلیمانی طرز عمل پر جو تنقید ہے یا جو عملدرآمد کے تناظر میں ہم نے اختیار کیا ہے وہ مستقبل کے امکانات کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔معروف قانون دان ، سیاست دان ، مصنف اور دانشور ایس ایم ظفر علمی و فکری حلقوںمیں کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ 90برس سے زائد عمر پانے والے ایس ایم ظفر آج بھی خود کو لکھنے ، پڑھنے کے معاملات تک محدود کرکے مختلف کتابوں کی صورت میں اپنا سیاسی ، قانونی اور علمی و فکری تجربو ں کو لوگوں کے سامنے پیش کررہے ہیں۔
ایس ایم ظفر ان لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے ہماری سیاسی، قانونی یا حکمرانی کی تاریخ کے کئی پہلووں کو نہ صرف قریب سے دیکھا ہے بلکہ کئی حوالوں سے وہ خود بھی اس نظام اور واقعات کا حصہ رہے ہیں۔
پچھلے دنوں ایس ایم ظفر سے ایک تفصیلی ملاقات ہوئی تو انھوں نے اپنی حالیہ نئی کتاب ''پارلیمنٹ بنام پارلیمنٹ '' تحفہ میں دی جسے قلم فاونڈیشن نے شایع کیا ہے ۔یہ کتاب اگر کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ ہمارے پارلیمنٹ ، پارلیمانی سیاست اور اس سے جڑے انداز سیاست فعالیت پر مبنی پارلیمانی کردار، پارلیمانی کمیٹیوں کی فعالیت اور جوابدہی، اسپیکرز، وزرا کا کردار، پارلیمانی نظام پر اتفاق رائے، اختیارات کی تقسیم، قانون سازی، ریاست کے تین اہم ستون مقننہ ، انتظامیہ اور عدلیہ، پارلیمانی یا صدارتی نظام کی بحث، ہارس ٹریڈنگ، قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کا کردار، اٹھارویں ترمیم اور نیا عمرانی معاہدہ۔ میثاق جمہوریت مقامی حکومتوں ،مملکت کے چوتھے ستون پریس کی آزادی یا آزادی اظہار، فیک نیوز ، پارلیمانی جمہوریت میں عورتوں کا کردار اور مخصوص نشستیں ، آمرانہ ریاست بمقابلہ جمہوری ریاست سمیت دیگر موضوعات کا بڑی خوبصورتی سے احاطہ کیا گیا ہے۔
بقول سینٹر فرحت اللہ بابر جن کا تعلق پیپلزپارٹی سے ہے وہ کہتے ہیں کہ '' یہ کتاب پورے پارلیمانی نظام کی موجودہ شکل اور ا س کے اصلی چہرہ کا ایک تقابلی جائزہ پیش کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ وہ کونسی وجوہات ہیں جن کی بنا پر یہ نظام اپنی پوری صلاحیت کو بروئے کار نہ لاسکا،کتاب کا انداز بیان تعمیری ہے، تنقیدی نہیں اور سامان غوروفکر ہے۔دل سے نکلی ہوئی آواز ہے ، ''دل سے جوبات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے '' کے مصداق پر اثر ہے ۔''
ایس ایم ظفر پارلیمنٹ میں موجود پارلیمانی زبان و بیان پر بھی رنجیدہ ہیں اور ان کے بقول جس طرح سے ہم الزام تراشیوں میں ایک سے بڑھ کر ایک منفی اور ذاتیات پر مبنی کردار کشی کو بنیاد بنا کر غدار، کافر ، چور، ڈاکو ، منافق جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں وہ پارلیمانی سیاست کے خلاف ہے اور اس سے جمہوری نظام میں سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہوتا ہے جو بعد میں سیاسی دشمنی کا رخ اختیار کرلیتا ہے ۔
عورتوں کی سیاسی عمل میں شمولیت پر ایس ایم ظفر کہتے ہیں کہ '' عورتوں کی سیاسی عمل میں شمولیت اپنے آپ میں ایک سماجی ، معاشی اور سیاسی فائدہ ہے ، یہ جمہوریت اور صنفی مساوات کے لیے اہم ہے ۔ترقی پزیر ممالک میں جہاں خواتین پارلیمنٹیرین کا زیادہ حصہ ہے وہاں جنسی ہراسانی ، عصمت دری ،طلاق اور گھریلو تشدد سے متعلق جامع قوانین پاس کرنے کا امکان زیادہ پایا گیا ہے اور اس قانون سازی کے بہت اچھے نتائج برآمد ہوئے ہیں ۔'' یہ کتاب اچھی اور جامع ہے اور اس کا مطالعہ ضرور کیا جانا چاہیے۔