لمحہ فکریہ
اتحادی حکومت میں مہنگائی، بے روزگاری اور غربت سے خودکشیاں بڑھنے کا نیا ریکارڈ ہی قائم نہیں ہوا
مسلم لیگ (ن) نے پارٹی کی جنرل کونسل کے اجلاس میں چار سال کے لیے اپنے انھی عہدیداروں کو منتخب کر لیا ہے جو پہلے ہی عہدیدار تھے اور مریم نواز کے سوا سب ہی حکومت میں ہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت میں شامل نہ ہونے والے ان رہنماؤں کو ترجیح دی جاتی جن کے پاس سرکاری ذمے داریاں نہیں ہیں اور وہ پارٹی کو وقت دے سکتے ہیں۔ نئے عہدیداروں نیایسی کون سی اچھی کارکردگی دکھائی تھی کہ انھیں دوبارہ عہدے دینا ضروری تھا؟
وزیر اعظم اور وزیروں کے پاس اپنی سرکاری مصروفیات کے باعث لیگی کارکن تو کیا پارٹی رہنماؤں اور ارکان اسمبلی سے ملنے کا بھی وقت نہیں ہوتا تو وہ پارٹی عہدوں پر رہ کر پارٹی کے لیے کیا کرسکیں گے۔ ان کی توجہ سرکاری عہدوں پر زیادہ رہے گی، جس کی وجہ سے انھیں سرکاری پروٹوکول اور مراعات ملتی ہیں۔
مریم نواز کے سوا تمام عہدیداروں نے پارٹی پرکوئی توجہ دی نہ ناراض لیگی رہنماؤں اور کارکنوں کو پارٹی میں فعال کردار ادا کرنے کے لیے تیار کیا جس کی وجہ سے وفاقی حکومت ہونے کے باوجود مسلم لیگ (ن) آزاد کشمیر اسمبلی کا حالیہ انتخاب ہاری ہے اور اپوزیشن میں ہوتے ہوئے مسلم لیگ (ن) پی ٹی آئی دور میں بھی آزاد کشمیر کے عام انتخابات میں مریم نواز کی انتخابی مہم میں شرکت کے باوجود ہاری تھیں اور تیسرے نمبر پر آئی تھی جب کہ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے پیپلز پارٹی کی پوزیشن مسلم لیگ (ن) سے بہتر رہی تھی اور وہ پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت کی مداخلت اور کھلی جانب داری اور انتخابی جلسوں کے باوجود دوسرے نمبر پر آئی تھی۔ مسلم لیگ (ن) کی اس وقت آزاد کشمیر میں اپنی حکومت تھی اور کشمیر سے قریبی تعلق بھی کام نہ آیا تھا۔
مسلم لیگ (ن) کا دوبارہ صدر منتخب ہوکر وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ مشکلات کے باوجود مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت بڑھی اور کارکردگی بہتر ہوئی ہے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے اور اتحادی حکومت کے 14 مہینوں میں مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت متاثر ہوئی اور بڑی توقعات سے لندن سے لا کر وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے نو ماہ میں عوام کو کوئی ریلیف نہ دیا بلکہ ان کے دعوؤں کے برعکس ڈالر کی اونچی اڑان سے روپے کی گراؤٹ کا نیا ریکارڈ قائم ہونے سے ڈالر اور سونا مہنگا ہوا۔
اتحادی حکومت میں گیس، بجلی اور پٹرولیم کی اہم وزارتیں مسلم لیگ (ن) کے وزیروں کے پاس ہیں اور ان تینوں وزارتوں کا عوام کو ریلیف دینے اور مہنگائی سے قریبی تعلق ہے۔
حکومت سردیوں میں تو کیا گرمیوں میں بھی عوام کو گھروں کے لیے گیس فراہم کرنے میں ناکام رہی اور اس کے مقررہ اوقات میں سردیوں میں عوام کو سوئی گیس نہیں ملی اور یہی حال بجلی کے شعبے کا ہے یہاں تک کہسردی میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ہوتی رہی اور اب گرمی کے دوسرے موسم میں بھی ملک بھر میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ بڑھی ہوئی ہے اور حکومت اپنے دعوؤں میں پورے اتری نہ بجلی و گیس کی لوڈ شیڈنگ ختم یا کم ہو سکی بلکہ بجلی و گیس مسلسل مہنگی کی جا رہی ہے۔ گیس و بجلی کے بل ہر ماہ بڑھ کر آرہے ہیں، گیس و بجلی ہوتی نہیں مگر ان کے بل کم ہونے میں نہیں آرہے۔
اتحادی حکومت میں مہنگائی، بے روزگاری اور غربت سے خودکشیاں بڑھنے کا نیا ریکارڈ ہی قائم نہیں ہوا بلکہ اس نے سب سے بڑی کابینہ بنا رکھی ہے جس کے ارکان کی تعداد 78ہے اور ملک میں نوے ہزار سرکاری گاڑیوں کے صرف پٹرول پر دو سو بیس ارب روپے کا خرچہ ہو رہا ہے۔
ملک کے عوام کی اکثریت مہنگائی سے پریشان ہیں اور (ن) لیگی سرکاری عہدیدار نئے نئے سوٹ پہن کر ملک کے کپڑوں اور خوراک سے محروم عوام کو بھاشن دینے میں مصروف ہیں جب کہ پی پی کے وزیروں کا عوام کے موجودہ مسائل سے کوئی تعلق نہیں ہے کہ مہنگائی بڑھنے کی ذمے دار کوئی وزارت پیپلز پارٹی کے پاس نہیں ہے جو صرف (ن) لیگ کے پاس ہے جہاں کرپشن کی شکایات بھی ہیں۔
مہنگائی کے باعث حاجیوں کی تعداد اتحادی حکومت میں کم رہی حالانکہ جے یو آئی کے سابق وزیر حج نے اپنے دور میں ہر حاجی کو ڈیڑھ لاکھ روپے واپس کرا کر منفرد ریکارڈ قائم کیا تھا جو سادہ آدمی اور ایماندار تھے نہ انھوں نے کرپشن خود کی نہ اپنی وزارت میں کرپشن ہونے دی تھی۔
پی پی اور جے یو آئی کے پاس ایسی وزارتیں ہیں جن سے عوام کا کم ہی واسطہ پڑتا ہے اور (ن) لیگی وزیر مہنگائی بڑھانے والی وزارتوں پر فائز ہیں اور اچھی کارکردگی نہیں دکھا پا رہے جس کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) کی عدم مقبولیت کے باعث پیپلز پارٹی میں شمولیت بڑھ رہی ہیں اور سندھ میں خود کو پی پی نے اور جے یو آئی نے خود کو کے پی میں مقبول کیا ہے، مگر پنجاب اب مسلم لیگ (ن) کا گڑھ نہیں رہا مگر (ن) لیگ اس طرف توجہ نہیں دے رہی۔ سرکاری طور (ن) لیگ کے جلسے عوام میں ان کی مقبولیت کا ثبوت نہیں ہیں اس لیے (ن) لیگ کو پنجاب پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔