بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
بھارت نے روس کے ساتھ اپنے گہرے تعلقات سے خاطر خواہ فائدہ اٹھایا
بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کا امریکا کا حالیہ سرکاری دورہ اِن دنوں میڈیا کا مرکزی موضوع ہے۔
اِس سے پہلے کہ اِس دورے پر اظہارِ خیال کیا جائے۔ آئیے! ہم کچھ دیر کے لیے ماضی کی طرف چلتے ہیں۔ بھارت اور پاکستان ایک ساتھ آزاد ہوئے تھے۔ اُس وقت دونوں ممالک کو بہت سے اہم فیصلے کرنا تھے جس میں خارجہ پالیسی سب سے زیادہ اہم تھی۔
بھارت نے غیر وابستہ پالیسی کا انتخاب کیا لیکن درونِ پردہ اُس کا جھکاؤ روسی کیمپ کی طرف تھا۔ اِس کے برعکس پاکستان نے امریکا کا انتخاب کیا اور وزیرِ اعظم پاکستان لیاقت علی خان امریکا کے دورے پر چلے گئے، اگرچہ انھوں نے وہاں ٹریڈ ناٹ ایڈ کی بات کی لیکن بالآخر ہوا اِس کا اُلٹ یعنی ایڈ پر زیادہ زور رہا جس کے نتیجہ میں وطنِ عزیز کا انحصار امریکی امداد پر ہوگیا۔
بھارت نے دوسری چالاکی یہ کی کہ چین سے تعلقات قائم کیے۔ ہمیں وہ منظر یاد ہے جب چین کے وزیرِ اعظم چو این لائی نے بھارت کے وزیرِ اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کی دعوت پر بھارت کا دورہ کیا جہاں دہلی کے مرکزی علاقہ میں واقع رام لیلا گراؤنڈ میں اُن کا شاندار استقبال کیا گیا اور دونوں لیڈر انتہائی گرم جوشی سے بغل گیر ہوئے۔
زیادہ وقت نہ گزرا تھا کہ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کی وجہ سے دونوں ممالک میدانِ جنگ میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آگئے اور نتیجتاً بھارت کو منہ کی کھانا پڑی۔کہتے ہیں کہ جواہر لال نہرو کو اِس شکستِ فاش کی وجہ سے دماغ پر فالج کا شدید حملہ ہوا جس سے وہ جانبر نہ ہوسکے۔1962 کی اس جنگ کے بعد سے دونوں ممالک کے تعلقات سرحدی تنازعہ کے باعث مسلسل کشیدہ ہیں۔
بھارت نے روس کے ساتھ اپنے گہرے تعلقات سے خاطر خواہ فائدہ اٹھایا اور بیس سالہ دفاعی معاہدہ کے تحت روس سے بھاری تعداد میں جدید ہتھیار اور طیارے حاصل کیے۔
امریکا کے ساتھ تعلقات پاکستان کو بڑے مہنگے پڑے اور جب یوٹو نامی امریکی جاسوسی طیارہ نے پاکستان میں پشاور کے قریب واقع روسی علاقہ پر پروازکی تو روس کے ساتھ پاکستان کے تعلقات بہت خراب ہوگئے جس کا خمیازہ پاکستان کو بھگتنا پڑا۔
کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے کے مصداق اِس کا کریڈٹ وزیرِ اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کو جاتا ہے جن کی خارجہ پالیسی کی وجہ سے روس اور پاکستان ایک دوسرے کے اتنے قریب آگئے کہ روس نے پاکستان میں اسٹیل کا ایک بہت بڑا کارخانہ قائم کر دیا۔
افسوس صد افسوس کہ اُس کے بعد کی حکومتوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان اسٹیل ملز ترقی توکیا کرتا برسوں سے ٹھپ پڑا ہوا ہے۔ جہاں تک بھارت کی خارجہ پالیسی کا تعلق ہے تو وہ چانکیہ کے اصولوں پر چل رہی ہے جس کی بنیاد یہ ہے کہ :
یزید سے بھی مراسم
حُسین کو بھی سلام
بھارت کی خارجہ پالیسی کا کمال دیکھیے کہ خلیجی مسلم ریاستوں کے ساتھ اُس کے تعلقات جتنے گہرے ہیں، اُس کے مقابلے میں پاکستان کے تعلقات بہت ہلکے ہیں جس کا اندازہ اِن ریاستوں میں کام اور کاروبار کرنے والے پاکستانیوں کی تعداد سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
یہ اِس کے باوجود ہے کہ بھارت کی موجودہ حکومت کے وزیرِ اعظم مسلم کش پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ اِس سے بڑا سانحہ کیا ہوسکتا ہے کہ تاریخی بابری مسجد کی شہادت کے بعد گجرات میں بی جے پی کی حکومت کے دور میں گجرات کے مسلمانوں کا وحشیانہ قتلِ عام کیا گیا۔ یہ اُس وقت کی بات ہے جب بھارت کے موجودہ وزیرِ اعظم اُس صوبہ کے وزیرِ اعلیٰ تھے جس کے بعد انھیں مودی قصاب کا لقب دیا گیا۔
اِس سے بھی زیادہ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اِس کے بعد جب انھوں نے امریکا جانے کے لیے ویزا کی درخواست دی تو اُن کی درخواست اِسی بِنا پر مسترد کر دی گئی اور اب اُسی مودی کے امریکا کے سرکاری دورے پر اُن کا والہانہ استقبال کیا گیا ہے اور امریکا کے صدر جوبائیڈن نے اُن کے اعزاز میں نہ صرف وائٹ ہاؤس میں شاندار عشائیہ کا اہتمام کیا بلکہ امریکا کے دونوں ایوانوں سے خطاب کا بھی سنہری موقع فراہم کیا ہے۔حالات اور واقعات کی اِس تبدیلی کے بارے میں اِس سے زیادہ اور کیا کہا جاسکتا ہے۔
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
غور طلب بات یہ ہے کہ بھارت کے اول وزیر ِاعظم جواہر لال نہرو اور اُن کی کانگریس پارٹی کے بعد کئی حکومتیں بدل چکی ہیں لیکن بھارتی خارجہ پالیسی کا سنگِ بنیاد جوں کا توں ہے اور بھارت میں جو بھی سیاسی جماعت برسرِ اقتدار آتی ہے اُس کا بنیادی مقصد بھارت کے بنیادی مفاد کے سوائے اورکچھ نہیں ہوتا۔ بھارت کے تمام اہم ترین ادارے اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے اپنی خدمات انجام دیتے ہیں اور کوئی بھی ادارہ اِس سے باہر نہیں نکلتا۔