عید تو ہم نے خوب منالی ہے مگر۔۔۔
گوشت کی تقسیم ہو یا صفائی اس کے ساتھ گھر والوں کے فرمائشی پروگرام بھی جاری رہتے ہیں
عید الفطر کے بعد ہی سے عید الاضحی کا انتظار اور تیاریوں کا آغاز ہو جاتا ہے۔ عید الاضحی کی تیاری، عید الفطر سے مختلف ہوتی ہے۔
اس کا تعلق چوں کہ جانوروں اور اس کے گوشت سے ہوتا ہے، لہٰذا اسے 'نمکین عید' بھی کہا جاتا ہے۔ جہاں ایک تہوار فرض روزوں اور فطرے کی ادائی کے بعد سویاں، کیک، مٹھائیاں اور خستہ کچوری کی یاد دلاتا ہے، وہیں دوسرا نفلی روزوں کے بعد تِکّے، کباب، نہاری اور کلیجی کے ذائقوں اور خوشبوؤں ہی سے منہ میں پانی بھر آتا ہے۔
بڑی عید کے تینوں دن، اور اس سے قبل و بعد بھی قربانی، گوشت کی تقسیم، فریزرکی دیکھ ریکھ، مسالا جات کی تیاری، نت نئے پکوان، دعوتوں سے منسوب ہے۔ بات کھانوں اور دعوتوں کی ہو تو ایسی صورت حال میں خواتین کی زمہ داری دُہری ہو جاتی ہے۔ گوشت کی تقسیم ہو یا صفائی اس کے ساتھ گھر والوں کے فرمائشی پروگرام بھی جاری رہتے ہیں، جنھیں پورا کرنے میں وہ کوتاہی نہیں برتتیں۔
'بڑی عید کے بڑے مزے' کہہ کر ہم نے اس تہوار کو چوں کہ چٹ پٹے کھانوں، دعوتوں اور 'بار بی کیو' سے جوڑ دیا ہے، لہٰذا قربانی کی حقیقت اور اس کا فلسفہ تو کہیں دور کسی ان دیکھے خلا میں معلق ہو کر رہ گیا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ ماہ دین اسلام کے پانچویں بنیادی رکن حج سے منسلک ہے۔ لہٰذا صاحب استطاعت مسلمان اس فرض کی بجا آوری کرنے میں کوتاہی نہیں برتتے اور مناسک حج کی ادائی کرتے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے مسلمان اسمٰعیل علیہ السلام کی قربانی کی یاد میں اللہ کی راہ میں جانور قربان کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں بھی خواتین پیچھے نہیں رہتیں اور ذوالحج کے پہلے عشرے ہی سے اپنے گھریلو معاملات کے ساتھ اپنے فرائض کی ادائی میں خوش اسلوبی سے مصروف رہتی ہیں۔ اس کے ساتھ پھر ان پر دنیا داری کے بھی کچھ ذمے عائد ہوتے ہیں۔ یہ ان فرائض سے بھی بہ خوبی عہدہ برآ ہوتی ہیں۔
دراصل ہر سال عیدالاضحی پرانے اسباق دہرانے اور ان کو ازبر ان پر کار بند کروانے آتی ہے، لیکن ہوتا اس کے برعکس ہے ،یہ اسباق جن کی بچپن سے یاد دہانی کی جا رہی ہے، ہم خواتین اس کو بھلانے اور توڑنے میں زیادہ وقت نہیں لیتیں۔ آج ہمارے گھروں میں خواتین بحثیت ماں اور بیوی کے مضبوط و مستحکم مقام رکھتیں ہیں۔
انھیں اپنی ذمہ داریوں کو پہچاننا ہے۔ آج کے بچے کل کے مستقبل ہیں، اگر ہم معاشرے کی ذہن سازی کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں بی بی ہاجرہ کے اسوہ سے راہ نمائی حاصل کرنی ہوگی۔ ہمیں ان کو قربانی کی حقیقی روح تقوی سے روشناس کرانا ہے۔
مختصراً عرض یہ ہے کہ یہ تہوار ابھی تازہ تازہ گزرا ہے، ہم اس تہوار کی غرض وغایت کو سمجھیں، حج و قربانی کی اصل روح، تقویٰ کا حصول، اور روحانی تربیت و تزکیہ نفس کو اپنی ذاتی زندگی سے لے کر معاشرتی زندگی تک قیام کی سعی و کوشش کریں۔