صوبوں سے نئی جامعات کے قیام کا اختیار واپس بل وفاقی کابینہ سے منظور
بل کی قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد صوبائی اعلیٰ تعلیمی کمیشنز اور محکمے عملی طور پر غیر فعال ہوجائیں گے
وفاقی حکومت نے صوبوں سے نئی جامعات کے قیام کا اختیار واپس لے لیا، اب صوبائی اسمبلیاں نئی جامعات کے قیام یا ریگولیشن کیلئے وفاقی ایچ ای سی کی ایڈوائس کی پابند ہونگی۔
اس سلسلے میں فیڈرل ایچ ای سی ایکٹ 2002 ترمیمی بل وفاقی کابینہ کے ایک روز قبل منعقدہ اجلاس سے منظور کرالیا گیا ہے جسے حتمی قانون بنانے کیلئے قومی اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں پیش کیا جائے گا، بل کی منظوری کے بعد صوبائی اعلیٰ تعلیمی کمیشنز اور محکمے عملی طور پر غیر فعال ہوجائیں گے اور تمام صوبوں میں نئی جامعات کے قیام کا اختیار فیڈرل ایچ ای سی کو مل جائے گا۔
وفاقی کابینہ سے منظور کرائے گئے ایچ ای سی ترمیمی بل کے سیکشن 4 کے مطابق اب جامعات کی واحد ریگولیٹری اتھارٹی وفاقی ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈکلیئر کردی گئی ہے، اس سلسلے میں مشترکہ مفادات کونسل سے کوئی مشاورت ہی نہیں کی گئی جبکہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد سے اس قسم کے قومی معاملات پہلے مشترکہ مفادات کونسل سے منظور کرائے جاتے ہیں۔
واضح رہے کہ اس وقت پنجاب اور سندھ میں صوبائی اعلیٰ تعلیمی کمیشن فعال ہیں جبکہ سندھ میں یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کا محکمہ بھی ہے جو نئی سرکاری و نجی جامعات کے قیام کے سلسلے میں اتھارٹی کا درجہ رکھتا ہے اور اس کی سفارش پر ہی صوبائی اسمبلی نئی جامعات کے قیام کے بل کی منظوری دیتی ہیں جبکہ وفاقی ایچ ای سی ان جامعات کو این او سی جاری کرتی ہے تاہم مذکورہ ترمیمی بل کی کابینہ کے بعد قومی اسمبلی سے منظوری کی صورت میں اس تمام عمل کی ذمہ داری وفاقی ایچ ای سی کی ہوگی۔
اسی طرح بل کے سیکشن 9 کے کلاز (Z) میں کہا گیا ہے کہ اب نجی و سرکاری دونوں جامعات کے قیام کے لیے صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو وفاقی ایچ ای سی ہی چارٹر کے لیے ایڈوائس کرسکے گی، سیکشن 9 کی کلاز(cc) میں کہا گیا ہے کہ جامعات کے قوانین میں ترمیم کے لیے بھی فیڈرل ایچ ای سی ہی متعلقہ چانسلر کو ایڈوائس بھیجنے کی مجاز ہے۔
واضح رہے کہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں 18 ویں ترمیم کی منظوری کے بعد صوبائی سطح پر ایچ ای سیز قائم کی گئی تھیں جسے پیپلز پارٹی کے اشتراک سے قائم پی ڈی ایم کی وفاقی حکومت میں ہی غیر موثر کیا جارہا ہے، علاوہ ازیں وفاقی کابینہ سے منظور کرائے گئے ترمیمی ایکٹ کے مطابق چیئرمین کمیشن کی مدت ملازمت 2 کے بجائے 3 سال کردی گئی ہے جبکہ کمیشن کے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر کی تقرری کا اختیار بھی وزیر اعظم کے پاس ہوگا جس کی سفارش کمیشن کرے گا، پہلے یہ اختیار کمیشن کے چیئرمین کے پاس تھا۔
اسی طرح کمیشن میں اب سرکاری جامعات کے وائس چانسلر کی طرح نجی جامعات کے وائس چانسلر کو بھی نمائندگی دے دی گئی ہے اور پرائیویٹ جامعات کے وائس چانسلرز کی کمیٹی کی جانب سے بھجوائے گئے تین ناموں کے پینل سے وزیراعظم کسی ایک کا انتخاب کریں گے، وزیراعظم کے پاس چیئرمین ایچ ای سی یا کسی کمیشن ممبر کو قبل از وقت برطرف کرنے کا اختیار بھی ہوگا، ادھر کمیشن کے non ex officio ممبرز کی تعداد 13 سے کم کرکے 5 کردی گئی ہے۔
اس سلسلے میں فیڈرل ایچ ای سی ایکٹ 2002 ترمیمی بل وفاقی کابینہ کے ایک روز قبل منعقدہ اجلاس سے منظور کرالیا گیا ہے جسے حتمی قانون بنانے کیلئے قومی اسمبلی کے آئندہ اجلاس میں پیش کیا جائے گا، بل کی منظوری کے بعد صوبائی اعلیٰ تعلیمی کمیشنز اور محکمے عملی طور پر غیر فعال ہوجائیں گے اور تمام صوبوں میں نئی جامعات کے قیام کا اختیار فیڈرل ایچ ای سی کو مل جائے گا۔
وفاقی کابینہ سے منظور کرائے گئے ایچ ای سی ترمیمی بل کے سیکشن 4 کے مطابق اب جامعات کی واحد ریگولیٹری اتھارٹی وفاقی ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈکلیئر کردی گئی ہے، اس سلسلے میں مشترکہ مفادات کونسل سے کوئی مشاورت ہی نہیں کی گئی جبکہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد سے اس قسم کے قومی معاملات پہلے مشترکہ مفادات کونسل سے منظور کرائے جاتے ہیں۔
واضح رہے کہ اس وقت پنجاب اور سندھ میں صوبائی اعلیٰ تعلیمی کمیشن فعال ہیں جبکہ سندھ میں یونیورسٹیز اینڈ بورڈز کا محکمہ بھی ہے جو نئی سرکاری و نجی جامعات کے قیام کے سلسلے میں اتھارٹی کا درجہ رکھتا ہے اور اس کی سفارش پر ہی صوبائی اسمبلی نئی جامعات کے قیام کے بل کی منظوری دیتی ہیں جبکہ وفاقی ایچ ای سی ان جامعات کو این او سی جاری کرتی ہے تاہم مذکورہ ترمیمی بل کی کابینہ کے بعد قومی اسمبلی سے منظوری کی صورت میں اس تمام عمل کی ذمہ داری وفاقی ایچ ای سی کی ہوگی۔
اسی طرح بل کے سیکشن 9 کے کلاز (Z) میں کہا گیا ہے کہ اب نجی و سرکاری دونوں جامعات کے قیام کے لیے صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو وفاقی ایچ ای سی ہی چارٹر کے لیے ایڈوائس کرسکے گی، سیکشن 9 کی کلاز(cc) میں کہا گیا ہے کہ جامعات کے قوانین میں ترمیم کے لیے بھی فیڈرل ایچ ای سی ہی متعلقہ چانسلر کو ایڈوائس بھیجنے کی مجاز ہے۔
واضح رہے کہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں 18 ویں ترمیم کی منظوری کے بعد صوبائی سطح پر ایچ ای سیز قائم کی گئی تھیں جسے پیپلز پارٹی کے اشتراک سے قائم پی ڈی ایم کی وفاقی حکومت میں ہی غیر موثر کیا جارہا ہے، علاوہ ازیں وفاقی کابینہ سے منظور کرائے گئے ترمیمی ایکٹ کے مطابق چیئرمین کمیشن کی مدت ملازمت 2 کے بجائے 3 سال کردی گئی ہے جبکہ کمیشن کے ایگزیکیٹو ڈائریکٹر کی تقرری کا اختیار بھی وزیر اعظم کے پاس ہوگا جس کی سفارش کمیشن کرے گا، پہلے یہ اختیار کمیشن کے چیئرمین کے پاس تھا۔
اسی طرح کمیشن میں اب سرکاری جامعات کے وائس چانسلر کی طرح نجی جامعات کے وائس چانسلر کو بھی نمائندگی دے دی گئی ہے اور پرائیویٹ جامعات کے وائس چانسلرز کی کمیٹی کی جانب سے بھجوائے گئے تین ناموں کے پینل سے وزیراعظم کسی ایک کا انتخاب کریں گے، وزیراعظم کے پاس چیئرمین ایچ ای سی یا کسی کمیشن ممبر کو قبل از وقت برطرف کرنے کا اختیار بھی ہوگا، ادھر کمیشن کے non ex officio ممبرز کی تعداد 13 سے کم کرکے 5 کردی گئی ہے۔